فکر و نظر

برج بھوشن کو گرفتاری سے بچانے کا کوئی عدالتی آرڈر نہیں ہے، پھر وہ باہر کیسے ہیں؟

پاکسو معاملے میں ملزم ہونے کے باوجودبرج بھوشن شرن سنگھ کےگرفتار نہ ہونے سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا قانون کا نفاذ تمام شہریوں پر یکساں طور پرہو رہا ہے؟

برج بھوشن شرن سنگھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@brijbhushansharan)

برج بھوشن شرن سنگھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@brijbhushansharan)

ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا (ڈبلیو ایف آئی) کے صدر اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ برج بھوشن شرن سنگھ جنسی ہراسانی کے معاملے میں دو ایف آئی آر میں ملزم ہیں، جن میں سے ایک پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسوئل آفنسز (پاکسو) ایکٹ کے تحت بھی ہے۔ دریں اثنا، انہوں نے عوامی طور پر کہا ہے کہ ‘سنتوں کی قیادت میں، ہم حکومت کو (پاکسو) قانون کو بدلنے کے لیے مجبور کریں گے’۔

وہ ایسا کر پائیں گے، یہ بعد کی بات ہے، لیکن یہ بات  سب کے لیےباعث تشویش ہونی چاہیے کہ سنگھ ایک  ملزم ہیں، جو نہ صرف گواہوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں، بلکہ ان کو  یہ بھی  لگتا ہے کہ ان کا  اثر و رسوخ ایسا ہے کہ وہ قانون کو چیلنج کریں گے اور اس کو بدلوا دیں گے۔

ہندوستانی قانون کےتحت ضمانت دینے کے لیے ٹرپل ٹیسٹ یہ ہے کہ کسی شخص کواس وقت  ضمانت دی جانی چاہیے جبکہ یہ خدشہ نہ ہو کہ وہ فرار ہو سکتا ہے یا ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر سکتا ہے یا گواہوں کو متاثر کر سکتا ہے۔گرفتاری اور ضمانت کے معاملے پر غور کرتے ہوئے ان پہلوؤں کے ساتھ جرم کی سنگینی کو بھی ایک عنصر سمجھا جاتا ہے۔

ایک ممتاز عوامی شخصیت ہونے کے باعث ان کے فرار ہونے کا خطرہ نہیں ہے،لیکن گزشتہ چند ہفتوں میں انہوں نےتشویشناک بیان دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والے پہلوانوں کو ان کی ٹریننگ پر خرچ کیے گئےپیسے واپس کرنے چاہیے اورمیڈل واپس کرنے کے بجائے اپنی اپنی سرکاری نوکری چھوڑ دینی چاہیے۔

یہ واضح طور پر ان کے خلاف الزامات کے تناظر میں تھا اور متاثرین اور گواہوں کے لیے براہ راست خطرہ تھا۔ انہوں نے وینیش پھوگاٹ کا موازنہ منتھرا سے کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔ کیس کی ایک اہم گواہ کا موازنہ  رامائن کی بدنام زمانہ شخصیت کے ساتھ کرنے کواور کچھ نہیں تو اس گواہ کو عوامی سطح پر بدنام کرکے اسے ڈرانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا۔

گرفتار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار، جیسا بھی معاملہ ہو، معاملےکے تفتیشی افسر کے پاس ہے۔ چونکہ پاکسو ایکٹ کے تحت درج مقدمہ ایک سنگین جرم ہے، اس لیے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس ایکٹ کے تحت ملزم کو پولیس گرفتار کر ے گی۔

ملزم کسی بھی وقت عدالت میں ضمانت کی درخواست دے سکتا ہے۔ ایسے مقدمات میں بھی جن میں عدالت ضمانت دیتی ہے، عام شرط یہ ہے کہ ملزم مقدمے میں گواہوں سے ملاقات نہیں کریں گےیا  انہیں متاثر نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ  ہے کہ اگر گواہوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تو ضمانت رد کی جا سکتی ہے۔

چونکانے والی بات یہ ہے کہ سنگھ مسلسل اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، جن کا مقصد واضح طور پر گواہوں کو ڈرانا ہے۔ اگر ہم اسے ضمانت کے لیےضروری ٹرپل ٹیسٹ سے جوڑیں، تو یہ ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور گواہوں کو متاثر کرنے کے مترادف ہوگا۔ لیکن سب سے اہم سوال اب بھی باقی ہےکہ سنگھ کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟

ایسا نہیں ہے کہ کسی عدالت نے برج بھوشن سنگھ کو گرفتاری سے بچانے کے لیے کوئی آرڈر  دیا ہو۔ عوامی طور پر دستیاب جانکاری کے مطابق، انہوں نے پیشگی ضمانت بھی نہیں مانگی ہے۔ سنگھ پولیس کے ساتھ اپنی پوزیشن کے بارے میں پراعتماد نظر آ ر ہے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، ایک سینئر پولیس افسر نے 5 مئی کو کہا تھا، ‘ہمارے پاس ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہمیں ابھی تک دفعہ 161 اور دفعہ 164 کے تحت تمام بیانات ریکارڈ کرنے ہیں۔ تحقیقات کی ضرورت کے مطابق نوٹس بھیجے جائیں گے۔ فی الحال ہم نے ڈبلیو ایف آئی  کو نوٹس جاری کیا ہے اور ان کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔

پاکسو کے تحت، یہاں تک کہ جنسی ہراسانی سے متعلق آئی پی سی کی دفعات کے تحت بھی، متاثرہ کے ذریعےملزم کا نام لینے والا بیان ہی اس کے خلاف مقدمہ شروع کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ‘سینئر پولیس افسر’ کے مذکورہ بالا بیان کا ایک ہی مطلب ہے کہ متاثرین نے ملزم کے طور پر سنگھ کا نام نہیں لیاہے۔

لیکن واضح طور پر ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ سنگھ کو نہ صرف ایف آئی آر میں ملزم بنایا گیا ہے بلکہ ایک عوامی مہم میں ان کا نام ملزم کے طور پر سب سے پہلےلیا جا رہا ہے۔

ڈبلیو ایف آئی کی رپورٹ کے انتظار کے بارے میں پولیس افسر کا بیان بھی عجیب ہے۔ پولیس کو ڈبلیو ایف آئی کی ‘کسی بھی رپورٹ’ پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی تفتیش خود کرنی ہے۔ اس سے بھی زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ اب بھی ڈبلیو ایف آئی  کےسربراہ خودسنگھ  ہیں۔

قانون کا وقار سب پر یکساں طور پر لاگو ہونے میں ہی مضمر ہے۔ سنگھ اپنے حق میں بے گناہی کے قیاس کے ساتھ ملزم بنے ہوئے ہیں، لیکن یہی امکان فوجداری قانون کے تحت ہر ملزم کے لیےموجود ہوتا ہے۔

یا تو دہلی پولیس کو پاکسو کے تمام معاملات میں کوئی گرفتاری نہ کرنے کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے یا انہیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ قانون سب پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے، چاہے ان کی سیاسی وابستگی یا حیثیت کچھ بھی ہو۔ گرفتاری کے قانون کا یکساں نفاذ پولیس اور انتظامیہ کے خلاف تعصب کے خدشے کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

(صارم نوید سینئر وکیل ہیں۔)

(اس مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)