خبریں

بہار میں گرنے والے پل کو بنانے والی کمپنی گجرات کے بڑے تعمیراتی منصوبوں سے وابستہ ہے: رپورٹ

بہار کے بھاگلپور ضلع میں گنگا ندی پر پل کا ایک حصہ گر گیا تھا۔ حالانکہ عہدیداروں نے کہا تھا کہ اس کی تعمیر میں خامیوں کو دیکھتے ہوئے اسے منصوبہ بند طریقے سے گرایا گیا ہے۔ اس کو بنانے  کا ٹھیکہ ایس پی سنگلا کنسٹرکشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کو دیا گیا تھا، جو گجرات میں پل سمیت کئی تعمیراتی منصوبوں سے وابستہ ہے۔

بہار کے بھاگلپور ضلع میں گنگا ندی پر پل  گزشتہ 4 جون کو گر گیا تھا۔ (فوٹوبہ شکریہ: یوٹیوب ویڈیو گریب)

بہار کے بھاگلپور ضلع میں گنگا ندی پر پل  گزشتہ 4 جون کو گر گیا تھا۔ (فوٹوبہ شکریہ: یوٹیوب ویڈیو گریب)

نئی دہلی: بہار میں زیر تعمیر پل کاایک سال میں دو بارگرناتشویش کا باعث ہے۔ ریاست کے بھاگلپور ضلع میں 1760 کروڑ روپے کی لاگت سے بنائے جانے والے اگوانی-سلطان گنج گنگا پل کا ایک حصہ اتوار (4 جون) کو گر گیا تھا۔ اب تعمیراتی معیار پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔

گنگا ندی پر پل بنانے والی انفراسٹرکچر فرم دوارکا میں سگنیچر برج پروجیکٹ کے علاوہ گجرات میں دو دیگر منصوبوں کی بھی ٹھیکیدار ہے۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، سوموار (5 جون) کو سرکاری حکام نے کہا کہ گجرات میں ایس پی سنگلا کنسٹرکشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کے پروجیکٹ اب جانچ کے دائرے ہیں، جو اب پایہ تکمیل کو پہنچنے والے ہیں۔

بھاگلپور میں پل کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی ایس پی سنگلا کنسٹرکشن پرائیویٹ لمیٹڈ کے پاس ہے۔

یہی کمپنی گجرات میں بیٹ دوارکا جزیرے کو سمندر کے پاراوکھا سے جوڑ نے والی 962 کروڑ روپے کے چار لین والےکیبل سگنیچر برج کو بنا رہی ہے ۔

اس سمندری پل کی تعمیر2017 میں شروع ہوئی تھی۔ اس کی لمبائی تقریباً 2452 میٹر ہے اور کیبل اسپین 900 میٹر ہے۔ اس کے پائلنز 150 میٹر کی اونچائی تک پہنچیں گے اور دو گاڑیوں کی لین اور پیدل چلنے والے راستوں کو سہارا دیں گے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بہار کے واقعے کے بعد گجرات میں کمپنی کے ذریعے بنائے گئے پلوں کا جائزہ لیا جائے گا، گجرات کے روڈز اینڈ بلڈنگ ڈپارٹمنٹ (آر اینڈ بی) کے سکریٹری ایس بی وساوا نے کہا، بیٹ دوار پل مکمل ہونے کو ہے۔ (بہار میں) جو واقعہ پیش آیا ہے، اس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی واضح جانکاری نہیں ہے۔ اگر کچھ برا ہوتا ہے ،تو ہم اس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔

یہ پل نئی قومی شاہراہ 51 کے حصے کے طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔

اتوار کے واقعے کے لیے جہاں انفراسٹرکچر فرم کوتنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہیں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھی اس کے خلاف کارروائی کی بات کہی ہے۔

ایک رپورٹ میں29 مارچ کو گجرات اسمبلی میں ہندوستان کے کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) نے خصوصی طور پر کہا تھاکہ سگنیچر برج کو ماحولیاتی طور پر حساس علاقے میں تعمیر ہونے کے باوجود ماحولیاتی منظوری نہیں تھی۔

ایس پی سنگلا کنسٹرکشن پرائیویٹ لمیٹڈ وڈودرا کے سینور تعلقہ میں نرمدا ندی پر 180 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک اور پل بنا رہی ہے۔ یہ پل دبھوئی-سینور-ملسار-آسا روڈ کا حصہ ہے، جس کے لیے محکمہ آر اینڈ بی نے 2018 میں ٹینڈر جاری کیا تھا۔

واساوا نے کہا،جب ہم کوئی ٹینڈر دیتے ہیں، تو ہم کسی  بھی منفی پیش رفت سمیت کمپنی کی ساکھ کی جانچ کرتے ہیں۔ نرمدا پر پل کا کام تین سال پہلے دیا گیا تھا اور اس وقت فرم کے خلاف کچھ بھی نہیں تھا۔ نرمدا پل کا سپر اسٹرکچر اب مکمل ہوچکا ہے۔ صرف فنشنگ کا کام باقی ہے۔

نرمدا پر پل کی لمبائی تقریباً900 میٹر ہے۔ پلوں کے علاوہ، ایس پی سنگلا کنسٹرکشن پرائیویٹ لمیٹڈ کو سورت میٹرو کے فیز I کی تعمیر کے تحت 11.6 کلومیٹر ایلیویٹڈ وائڈکٹ اور 10 میٹرو اسٹیشنوں کی تعمیر کے لیے  گجرات میٹرو ریل کارپوریشن لمیٹڈ (جی ایم آر سی) نے بھی منتخب کیا ہے۔

کمپنی سدبھاو انجینئرنگ لمیٹڈ کے ساتھ 780 کروڑ روپے کے مشترکہ منصوبے میں کدرشا نی نال سے ڈریم سٹی تک اس حصے کی تعمیر کر رہی ہے۔

پروجیکٹ کے میٹرو اسٹیشنوں میں کدرشا نی نال، ماجورا گیٹ، روپالی کینال، التھن ٹینمنٹ، التھن گام، وی آئی پی روڈ، ویمن آئی ٹی آئی، بھیم راڈ، کنونشن سینٹر اور ڈریم سٹی شامل ہیں، جہاں ہیروں کا کاروبار شروع ہو رہا ہے۔

معلوم ہوکہ بہار کے بھاگلپور ضلع میں گزشتہ 4 جون کی شام گنگا ندی  پر زیر تعمیر پل کا 200 میٹر کا حصہ گر گیا تھا۔ ٹھیک ایک سال قبل اسی طرح کا ایک اور واقعہ اسی پل پر پیش آیا تھا۔

بہار کے سرکاری حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ پل کے کچھ حصوں کو ماہرین کے مشورے سے جان بوجھ کر منصوبہ بند طریقے سےگرایا گیا ہے، کیونکہ اس کے ڈیزائن میں خامیاں تھیں۔

کھگڑیا ضلع کے اگوانی کو بھاگلپور کے سلطان گنج سے جوڑنے والے 3.1 کلومیٹر لمبےپل کی تعمیر 2014 میں شروع ہوئی تھی اور 2019 میں مکمل ہونے کی امید تھی۔ اس کے بعد سے ڈیڈ لائن میں چار بار توسیع کی جا چکی ہے۔

بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے اس سلسلے میں کہا تھا کہ اس پل کا ایک حصہ گزشتہ سال 30 اپریل کو گر گیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے ایک اسٹڈی کرائی تھی، جس میں معلوم ہوا کہ اس کی تعمیر میں سنگین نقائص ہیں، اس لیے پل کے کچھ حصوں کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا۔