فکر و نظر

’واجپائی: دی ایسنٹ آف دی ہندو رائٹ‘ میں اٹل بہاری واجپائی کی ان دیکھی دنیا درج ہے

ابھیشیک چودھری نے اپنی  کتاب ‘واجپائی: دی ایسنٹ آف دی ہندو رائٹ’ کے پہلے حصے میں راج کماری کول سے اٹل بہاری واجپائی کے رشتے، ان کی بیٹی نمیتاسمیت متعدد اچھوتے پہلو کو درج  کیاہے۔ کرن تھاپر کے ساتھ بات چیت میں ابھیشیک نے کتاب کی اہمیت اور اسے لکھنے کی ضرورت کے بارے میں بھی بات کی۔

کرن تھاپر اور ابھیشیک چودھری۔ (فوٹو: دی وائر)

کرن تھاپر اور ابھیشیک چودھری۔ (فوٹو: دی وائر)

نئی دہلی: ملک کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سےمتعلق ایک ایسا ممنوعہ موضوع بھی ہے، جس کے بارے میں عوامی طور پرکبھی بات چیت  نہیں ہوئی اور یقیناً اس کے بارے میں پہلے نہیں لکھا گیا۔ اب اٹل بہاری واجپائی کی دو حصوں پر مشتمل سوانح عمری کی حال ہی میں شائع ہونے والی پہلی جلد میں اس موضوع پر بے حد محتاط انداز میں بات کی گئی ہے۔ بات ہو رہی ہے واجپائی کے راج کماری کول کے ساتھ تعلقات کی، جن کی شادی اسی وقت دہلی کے رامجس کالج کے بوائز ہاسٹل کے وارڈن برجن کول سے ہوئی تھی۔

کتاب کا نام ہے ‘واجپائی: دی ایسنٹ آف دی ہندو رائٹ 1924-1977’، جسے ابھیشیک چودھری نے قلمبندکیاہے۔ کتاب کی دوسری جلد اس سال دسمبر میں منظر عام پر آنے کا امکان ہے۔

حال ہی میں شائع ہونے والی پہلی جلد اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اگست 1960 میں بغیر شادی کے واجپائی اور کول کی ایک بیٹی ہوئی تھی، جس کا نام نمیتا تھا اور گھر میں انہیں ‘گنو’ بلایا جاتا تھا۔کتاب کے مطابق، ‘جیسے جیسے وہ بڑی ہوئی، گنو کا چہرہ اپنے والد سے مشابہت اختیار کرنے لگا لیکن کاغذات میں  وہ وارڈن کی بیٹی تھی…واجپائی کو شاید اپنے آپ کو اس کا باپ  نہ کہنے کاقلق رہا ہو، حالانکہ گنو نے انہیں ‘باپ جی’ پکارنا شروع کر دیا تھا۔

راج کماری کول اور واجپائی کے رشتے کے بارے میں لکھتے ہوئےابھیشیک چودھری کہتے ہیں؛’شرمندہ ہوئے راجکماری کے خاندان نے ان کی  زندگی میں آئےنئے مرد کو چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہوئے انہیں شادی بچانے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں  نے اس سے منع کر دیا (پھر بھی) اس بات کا کوئی واضح جواب نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کو  طلاق کیوں نہیں دیا اور واجپائی سے باقاعدہ  شادی کیوں نہیں کی۔

وہ کہتے ہیں کہ راج کماری کول، واجپائی اور برجن کول کئی سالوں تک ایک تھری سم کی طرح رہے۔ وقت کے ساتھ  تینوں ایک طرح کے توازن میں آ گئے تھے۔ راجکماری  نے اپنے شوہر اور عاشق کے درمیان توازن قائم کرنے کی ایماندارانہ کوشش کی۔

دی وائر کے لیےسینئرصحافی کرن تھاپرسے بات چیت کی شروعات میں اس بارے میں بات کی گئی ہےکہ ابھیشیک نے کیوں محسوس کیا کہ واجپائی کی ذاتی زندگی، راجکماری کول کے ساتھ ان کے لمبے رشتے اور ان کی بیٹی نمیتا کے بارے میں کھل کر اور ایمانداری سے بات ہونی چاہیے۔ 53 منٹ  کے اس انٹرویو میں کتاب میں درج ایسے کئی انکشافات پر بات کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی باتیں جنہیں واجپائی کے بارے میں حتمی سچائی کے طور پر قبول کیا گیا ہے، یہ کتاب ان کے بارے میں بھی بتاتی ہے۔

اس انٹرویو میں ایک اور اہم موضوع، جس پر بات کی گئی ہے، وہ ہے مہاتما گاندھی کے قتل پر واجپائی کا ردعمل۔کتاب میں کہا گیا ہے؛’اٹل نے یقینی طور پر گاندھی کی موت کو بنی نوع انسان کے لیے ایک بڑا نقصان نہیں سمجھا تھا۔ اٹل ہندوستان کی تقسیم کے لیے مہاتما گاندھی کو کا ذمہ دارٹھہراتے ہوئےیقینی طور پر ان کی موت کو بنی نوع انسان کے لیےکوئی  بڑا نقصان نہیں مانتے تھے۔ ان کے لکھے اور مرتب کیے گئے درجنوں مضامین، جن میں مہاتما کوتقسیم ہند کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا اور مسلمانوں کو بڑھاوا دینےکے لیے ان کی مذمت کی گئی تھی، نے یقیناً اس زہر کو گھولنے میں اہم رول  ادا کیا جو بالآخر گاندھی کےقتل کا سبب بنے۔ اس انٹرویو میں ابھیشیک کھل کر اعتراف کرتے ہیں اس کا  کچھ قصور واجپائی کے سر بھی جاتاہے۔

انٹرویو میں جن موضوعات پر بات کی گئی ہےان میں نوجوان واجپائی کا مسلم مخالف چہرہ؛ ایک بالغ شخص کے طور پر وہ کیسے بدلے، دین دیال اپادھیائے کے بارے میں ان  کا نظریہ؛ ان کے شکوک و شبہات اور چالوں کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی ان کی خواہش، یہ حقیقت کہ انہوں نے دسمبر 1971 کو کبھی اندرا گاندھی کو  درگا نہیں کہا؛ یہ دعویٰ کہ نہرو نے کبھی بھی واجپائی کومستقبل کا وزیر اعظم نہیں کہا، لیکن درحقیقت رکن پارلیامنٹ کے طور پر ان کے ابتدائی سالوں میں واجپائی کو ایک ‘انتہائی قابل اعتراض شخصیت’ کے طور پر دیکھا؛ پنججنیہ نے واجپائی کے بارے میں جو مفروضے بنائے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان چھوڑو تحریک میں واجپائی کا رول  تھا اور کانگریس کا یہ کہنا غلط ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا؛ واجپائی کی پسند ناپسند  کی جھلک کہ وہ بھانگ پسند کرتے تھے، انہوں نے کم مقدار میں شراب پی تھی اور نیویارک کے نائٹ کلبوں میں بھی گئے تھے۔

ابھیشیک کی یہ کتاب واجپائی کی زندگی، ان کی شخصیت کے بارے میں ناشنیدہ  جانکاری  فراہم کرتی ہے اور ہندوستان کی تاریخ کے ایک اہم رہنما ، جو سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے وزرائے اعظم میں سے ایک ہیں، کی مکمل تصویر شیئر کرتی ہے۔

ابھیشیک کے ساتھ ہوئی کرن تھاپر کی اس بات چیت کو  نیچے دیے گئے لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔