فکر و نظر

کیوں پرامن رہنے والے اتراکھنڈ کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے؟

سال 2021 میں ہونے والی مردم شماری ابھی تک نہیں ہوئی ہے، لیکن اتراکھنڈ میں ایک خاص مذہب کے لوگوں کی آبادی میں اضافے کے فرضی  اعداد و شمار کھلے عام مشتہر کیے جا رہے ہیں۔ وہیں، ریاستی حکومت سپریم کورٹ کی سرزنش کی پرواہ نہ کرتے ہوئےکبھی تبدیلی مذہب کے قانون ،کبھی یکساں سول کوڈ،  تو کبھی ‘لینڈ جہاد’ کے نام پر فرقہ پرست عناصر کو ہوا دے رہی ہے۔

اترکاشی شہر کا پرولا ٹاؤن۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/اگزاٹک اتراکھنڈ)

اترکاشی شہر کا پرولا ٹاؤن۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/اگزاٹک اتراکھنڈ)

صرف چاردھاموں کے ساتھ ہی اپنےروحانی سکون اور ہم آہنگی کے لیےمعروف ہمالیائی ریاست اتراکھنڈتبدیلی مذہب کے معاملے کو لے کر بدامنی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ تبدیلی مذہب کے معاملے تمام مذاہب میں دیکھنے کو مل رہے ہیں  اور خاص طور پر مذہب تبدیل کرانے والوں کے نشانے پر ریاست کے تمام 5 قبائل ہیں، لیکن بحث اور مخالفت صرف ‘لو جہاد’ اور ‘لینڈ جہاد’ کے بارے میں ہے۔ جبکہ پچھلی مردم شماری کی رپورٹ تمام مذاہب میں تبدیلی مذہب کی تصدیق کرتی ہے۔

اترکاشی کا جو پرولا علاقہ ‘لو جہاد’ کی وجہ سے  ان دنوں جھلس  رہا ہے، وہاں مشنریوں کی سرگرمیوں کے قصے پٹواری، پولیس اور سول پولیس کے ریکارڈ میں درج ہیں۔ ہیٹ اسپیچ  کے معاملے میں اتراکھنڈ حکومت کو سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد بھی فرقہ وارانہ تعصب  کوختم کرنے کے بجائے اکسایا جا رہا ہے۔

پرولا میں ایک لڑکی کو لے جانے کی کوشش پر برپا ہنگامہ ابھی تھما  بھی نہیں تھا کہ چمولی ضلع کے گوچر میں ایک اور لڑکی کو لے کر ہنگامہ ہوگیا۔ پوڑی کے میونسپلٹی صدر کی بیٹی کی شادی ایک مسلم نوجوان سے کرنے  کا تنازعہ بھی اس  وقت ختم ہوا، جب میونسپلٹی صدر نے شادی کی تقریب کو رد کرنے کا اعلان عوامی طور پرکیا۔

اترکاشی ضلع کی یمنا وادی کے ‘لو جہاد’ کا تنازعہ جغرافیائی حدود کو پار کر کے بھاگیرتھی وادی کے چنیالیسوڑ تک آ پہنچا۔ ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والے تاجروں کی دکانیں زبردستی بند کرائی جارہی ہیں۔ دکانیں خالی کرنے کے نوٹس چسپاں کیے جارہے ہیں اور انتظامیہ تماشائی بنی ہوئی ہے۔

یہی نہیں، حکومت سپریم کورٹ کی سرزنش کی پرواہ نہ  کرتے ہوئے کبھی تبدیلی مذہب کے قانون، توکبھی یکساں سول کوڈ اور کبھی ‘لینڈ جہاد’ کے نام پر فرقہ پرست عناصر کو ہوا دے رہی ہے۔ ماضی میں چمبا، اگستیہ منی، ستپولی اور کوٹ دوار میں ایک خاص مذہب کے لوگوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ ہو چکی ہے۔

جس درشن بھارتی عرف دیویندر سنگھ پنوار کا نام ان فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں سامنے آتا رہا ہے وہ ان دنوں پرولا میں سرگرم ہے۔ درشن بھارتی ماضی میں ہری دوار وغیرہ میں ان مبینہ دھرم سنسدوں کے منتظمین میں سے ایک رہا ہے جن کے ہیٹ اسپیچ کی بازگشت  پورے ملک میں سنی گئی  تھی۔

سال2011 کے بعد 2021 میں پورے ملک میں مردم شماری ہونی تھی جو اب تک نہیں ہو ئی۔ لیکن اتراکھنڈ میں ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آبادی میں اضافے کے فرضی  اعداد و شمار سوشل میڈیا پر کھلے عام مشتہر کیے جا رہے ہیں۔ ان فرضی اعداد و شمار سے ہندو عوام کو اسلام کے خیالی خطرے سے ڈرایا جا رہا ہے۔

یہی نہیں پہاڑ کے لوگوں کو ‘لینڈ جہاد’ کا بیانیہ تشکیل دے کر پہاڑ کی ڈیموگرافی کے  متاثر ہونے کی بات بتائی جا رہی ہے۔ جبکہ پہاڑی لوگوں کے پرائم لینڈ پر قبضہ کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ سیاسی لوگ اور نو دولتیے ہی  ہیں۔ چاردھام مارگ سمیت مذہبی اور سیاحتی اہمیت کے مقامات پر پہاڑیوں کی زمینیں فروخت ہو چکی  ہیں۔ ایک مضبوط اراضی قانون بنانے کے بجائے نارائن دت تیواری حکومت کے بنائے ہوئے قانون کوبھی غیر مؤثر بنا دیا گیا ہے تاکہ لینڈ مافیا اور بدعنوان لیڈر زمین کی خریداری میں اپنی  کالی کمائی لگا سکیں۔

اتراکھنڈ حکومت تبدیلی مذہب، ‘لینڈ جہاد’، ‘مزار جہاد’ اور ‘لو جہاد’ کے فرضی معاملوں کوکاؤنٹر کرنے کے بجائے انہیں ہوا دے رہی ہے۔

اب تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ زیادہ تر  تبدیلی مذہب کا معاملہ قبائل کے درمیان ہو رہا ہے۔ درج فہرست ذاتوں کے ساتھ صدیوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے چھوا اچھوت سے نجات پانے کے لیے مذہب تبدیل کیا ہے۔ خود بابا صاحب امبیڈکر بودھ بن گئے تھے۔ شمال–مشرقی ہندوستان کی طرح اتراکھنڈ میں بھی مشنریوں کی توجہ قبائل پر ہی مرکوزہے۔ چکراتہ، موری اور کھٹیمہ بلاک میں بھی مشنریوں کے ذریعےمذہب تبدیل کرایا جا رہا ہے، لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر شرپسندوں  کو صرف ‘لو جہاد’ اور ‘لینڈ جہاد’ ہی نظر آ رہا ہے۔

پچھلے سال کرسمس سے دو دن پہلے اترکاشی کے پرولا میں بڑی تعداد میں تبدیلی مذہب کے الزام میں دو گروپوں کے درمیان کشیدگی ہوگئی تھی، جس کے بعد ایک پادری کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پرولا تحصیل کے مختلف دیہاتوں میں سیب کے باغات میں رہنے والے نیپالی نژاد کےتقریباً27 خاندانوں کا مذہب تبدیل کر کے ان کےمشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

تقریباً11 سال پہلے بھی موری بلاک کے آراکوٹ بنگان پٹی کے کلیچ گاؤں میں درجنوں خاندانوں پر مذہب کی تبدیلی کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس وقت دونوں فریق کے 69 افراد کے خلاف تھڈیار پٹواری چوکی میں مارپیٹ اور گالی گلوچ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ لوگوں نے انتظامیہ سے روہڑو اور تیونی کے دو مشنری پادریوں کے بار بار آنے کی شکایت کی تھی۔ لیکن شور صرف ‘لو جہاد’ کا  ہی ہے۔

موری بلاک کے کلیچ، آراکوٹ، ایشالی، جگٹا، مینجنی، تھنارا، بھٹانو، گوکل، ماکوڑی، دیلن، مورا، بھنکواڑ، برنالی، ڈگولی اور پاولی وغیرہ میں ہماچل سےآئےکچھ لوگ پیسے کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کرتے  رہے ہیں۔

اگر ہم 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اتراکھنڈ کے پانچ قبائل میں سے 287809 نے خود کو ہندو بتایا ہے۔ بقیہ437 نے خود کو عیسائی،364 نے سکھ، 1141 نے بودھ اور 7 نے جین بتایا ہے۔ جبکہ بنیادی طور پر سب ہندو ہی  تھے۔ بھوٹیا قبیلے کے 30 لوگوں نے خود کو عیسائی،45 نے مسلمان اور 6 نے سکھ بتایا ہے۔ اسی طرح بکسا برادری میں5 نے خود کو عیسائی اور 23 نے سکھ بتایا ہے۔ پچھلی مردم شماری میں53 تھاروؤں  نے خود کو عیسائی، 25 سکھ اور 124 نے مسلمان بتایا ہے۔

ادھم سنگھ نگر ضلع کے کھٹیمہ بلاک میں محمد پور بھڑیا، جوگیٹھیر نگلا، سہجنا، پھولیا، اماؤں، چاندا، موہن پور، گنگاپور، بھکچوری، بھیلیا، ٹیڑاگھاٹ، نوگوا ٹھگو، پہنیا، بھڑیا تھارو وغیرہ گاؤں کے کئی تھارو خاندان عیسائی بن گئے ہیں۔

نہ صرف ترائی کے علاقے بلکہ قبائلی علاقہ جونسار باوار کے دلتوں اور خاص طور پر کولٹا ذات کے لوگوں پر بھی مشنریوں کی نظریں جمی ہوئی ہے۔ چکراتہ میں سندر سنگھ چوہان کو مشنریوں نے مذہب تبدیل کر کے پادری توبنا دیا، لیکن ان کے نام اور ذات میں تبدیلی نہیں آئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جونسار میں کولٹا اور دیگر درج فہرست ذاتوں کے لوگ مشنریوں کے ان وعدوں سے بہت متاثر ہو رہے ہیں جو انہیں عزت کی زندگی اور چھوا اچھوت سے آزادی فراہم کرتے ہیں۔ اچھوت واقعی ایک بہت بڑا سماجی کلنک ہے اور اس داغ سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر مشنریوں کے خلاف احتجاج کرنا فضول ہے۔

(جئے سنگھ راوت آزاد صحافی ہیں۔)