فکر و نظر

’منی پور میں صدر راج کی ضرورت؛ تشدد بند ہونے کے بعد بات چیت کے ذریعے بھروسہ قائم کیا جائے‘

منی پور اسمبلی کے سابق اسپیکر اور کانگریس کے سابق ایم ایل اے ہیموچندر سنگھ نے سینئر صحافی کرن تھاپر سے ریاست میں تشدد پر قابو پانے، امن و امان کی بحالی کے ساتھ ساتھ لوگوں میں اعتماد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے ضروری اقدامات کے بارے میں بات کی۔

کرن تھاپر اور ہیمو چندر سنگھ۔ (تصویر: دی وائر)

کرن تھاپر اور ہیمو چندر سنگھ۔ (تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: منی پور میں جاری تشدد پر قابو پانے، امن و امان کی بحالی کے ساتھ  اعتماد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہیے،اس بارے میں اسمبلی کے ایک سابق اسپیکر نے دی وائر سے بات چیت کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جوڈیشیل انکوائری  اور امن کمیٹی کے اعلان کے لیے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی بھی تعریف کی ہے۔

پانچ بار کانگریس کے ایم ایل اے رہے ہیموچندر سنگھ (حالانکہ وہ 2022 کے الیکشن میں ہار گئے) نے کہا کہ دو فوری اقدامات کرنے  ہوں گے۔ سب سے پہلے فوج اور نیم فوجی دستوں کو اس آگ کو بجھانے کے لیے واضح احکامات دیے جانے چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں منی پور سے جو رپورٹ ملی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ فوج اور نیم فوجی دستے اب تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ انہیں واضح احکامات نہیں دیے گئے ۔ اس سلسلے میں ہیموچندر سنگھ نے کہا کہ شاید صدر راج کا اعلان کرنا ضروری ہے، تاکہ دہلی براہ راست کنٹرول کر سکے۔

سابق اسمبلی اسپیکر ہیموچندر سنگھ نے کہا کہ دوسرا فوری طور پر ضروری قدم کیمپوں میں رہ رہے ہزاروں لوگوں کو مانسون سے بچانے کے لیے اقدامات کرنا ہے، جو چند ہفتوں میں آنے والا ہے اور عام طور پر منی پور میں بہت بھاری ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مانسون کے دوران لوگوں کو گھر دینے  کے لیے عارضی کیمپ بنانے کی ضرورت ہے اور اس میں بھی فوج اہم کردار ادا کر سکتی ہے، کیونکہ اس کے پاس یہ سب کچھ تیزی سے کرنے کی مہارت اور تجربہ ہے۔

سنگھ نے کہا کہ ایک بار جب امن و امان بحال ہو جاتا ہے تو پہلا اور سب سے اہم قدم بات چیت کے ذریعے اعتماد بحال کرنا ہو گا۔

اس سلسلے میں انہوں نے دی وائر کے ساتھ انٹرویو میں سینئر ناگا لیڈر نکیتو ایرالو کی طرف سے پیش کی گئی تجویز کی تائید کی۔

ایرالو نے کہا تھا کہ مختلف برادریوں اور قبائل میں ایسے لوگوں کی شناخت کرناضروری ہے، جو اپنی برادری کی  غلطیوں کو قبول کرنے اور دوسری کمیونٹی سے معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔ سنگھ کو لگتا ہے کہ منی پور میں شروعات کرنے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔

اعتماد سازی کےلیے مکالمہ قائم کرنے اور نتائج دیکھنے کے بعد ہیمو چندر سنگھ محسوس کرتے ہیں کہ اس سلسلے کا اگلا قدم زمین کے مسئلے سے نمٹنا ہے اور پھر  درج فہرست قبائل کا درجہ دینے کے لیے  میتیئی کمیونٹی کے مطالبے سے نمٹنا ہے۔

سنگھ نے محسوس کیا کہ زمین کا مسئلہ ایک بڑا معاملہ ہے اور اسے قانون میں ترمیم کرکے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون  میتیئی لوگوں کو پوری ریاست میں زمین خریدنے سے روکتا ہے، جبکہ کُکی اور ناگا خرید  سکتے ہیں۔

تاہم، انہوں نے تسلیم کیا کہ کُکی اور ناگاؤں کی مزاحمت پر بات چیت کے ذریعے قابو پانا ہو گا، اسی لیے ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے کا پہلا قدم بات چیت کے ذریعے اعتماد پیدا کرنا ہے۔

انہوں نے واضح طور پر کہا کہ  میتیئی لوگوں کو درج فہرست قبائل کا درجہ دینے کا مطالبہ ان کی نظر میں اتنا اہم نہیں ہے جتنا کہ زمین کا مسئلہ۔

سنگھ نے کہا کہ اس سلسلے کا چوتھا یعنی آخری قدم علیحدہ انتظامیہ کے مطالبے سے نمٹنا ہے۔ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ایک بار جب اعتماد بحال ہو جائے گا اور زمین کا مسئلہ نمٹ جائے گا تو الگ انتظامیہ کا مطالبہ بڑی حد تک اپنی اہمیت کھو سکتا ہے۔

انٹرویو کےآخر میں پورے شمال–مشرق کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ دہلی کی حکومتوں کو اس بات کی تعریف کرنی چاہیے کہ شمال–مشرق کے مختلف لوگوں کے لیے ان کی خصوصی شناخت کتنی اہم ہے اور یقین دہانی کرائی جانی چاہیے کہ آرٹیکل 371 کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا ردنہیں کیا جائے گا، جیسا کہ 2019 میں آرٹیکل 370 کے ساتھ ہوا تھا۔

سنگھ نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل3 میں ترمیم کرنے کی ضرورت کے بارے میں بھی بات کی، تاکہ پارلیامنٹ اپنی مرضی سے ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر کسی ریاست کی حدود کو تبدیل نہ کرسکے۔

معلوم ہوکہ منی پور میں ہونے والے نسلی تشدد میں کم از کم 98 لوگوں کی  جان چلی گئی تھی اور 310 دیگر زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت تقریباً 37450 لوگ 272 ریلیف کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

واضح ہو کہ منی پور میں 3 مئی کو ہونے والا نسلی تشدد تقریباً ایک ماہ سے جاری ہے۔ اکثریتی  میتیئیئی کمیونٹی کی طرف سے ایس ٹی کا درجہ دینے کے مطالبے نے ریاست میں کشیدگی کو جنم دیا تھا، جسے پہاڑی قبائل اپنے حقوق پر تجاوز کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس تشدد کے بعد اب قبائلی رہنما الگ انتظامیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

 میتیئی برادری کا مسئلہ ایک بار پھر اس وقت سامنے آیا، جب 27 مارچ کو منی پور ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ  میتیئی برادری کو درج فہرست قبائل میں شامل کرنے کے سلسلے میں مرکز کو سفارش پیش کرے۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ اس فیصلے سے منی پور کے غیر میتیئیئی باشندے جو پہلے سے ہی درج فہرست قبائل کی فہرست میں شامل ہیں،میں کافی بے چینی پیدا کر دی تھی، جس کے نتیجے میں 3 مئی کو نکالے گئے ایک احتجاجی مارچ کے دوران نسلی  تشدد دیکھنے کو ملا۔

ایس ٹی کا درجہ ملنے سے  میتیئیئی سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن  کے حقدار ہوں گے اور انہیں جنگلاتی زمین تک رسائی کا حق حاصل ہوگا، لیکن ریاست کی موجودہ قبائلی برادریوں کو خدشہ ہے کہ اس سے ان کے لیے دستیاب ریزرویشن کم ہو جائے گا اور صدیوں سے وہ جن زمینوں پر آباد ہیں ، وہ خطرے میں پڑ جائیں گی۔

منی پور میں   میتیئیئی کمیونٹی آبادی کا تقریباً 53 فیصد ہے اور زیادہ تر وادی امپھال میں رہتی ہے۔آدی واسی ، جن میں ناگا اور کُکی شامل ہیں، آبادی کا 40 فیصد ہیں اور زیادہ تر پہاڑی اضلاع میں رہتے ہیں، جو وادی کے علاقے کے چاروں طرف واقع ہیں۔

گزشتہ 17 مئی کو سپریم کورٹ نے منی پور ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو درج فہرست قبائل کی فہرست میں  میتیئیئی کمیونٹی کو شامل کرنے پر غور کرنے کی ہدایت کے خلاف ‘سخت ریمارکس’ دیے تھے۔ عدالت عظمیٰ نے اس  فیصلے کو حقائق کی رو سے بالکلیہ  غلط قرار دیا تھا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔