فکر و نظر

رویش کمار کا بلاگ:سب سے بڑا جھوٹ یہ کہنا ہے کہ ہندوستان کی کوئی پارٹی بدعنوانی سے لڑ رہی ہے

اگر ساری پارٹیاں  بی جے پی میں شامل ہو جائیں تو ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم ٹی وی پر اعلان کر دیں کہ ہندوستان سے سیاسی بد عنوانی ختم ہو گئی  ہے کیونکہ سب میرے ساتھ آ گئے ہیں۔

New Delhi: A view of Parliament in New Delhi on Sunday, a day ahead of the monsoon session. PTI Photo by Kamal Singh (PTI7_16_2017_000260A)

بد عنوانی پر پردہ ڈالنے کے لئے سیکولرازم کا استعمال نہیں ہو سکتا ہے۔ قابل  استقبال  بیان ہے۔ آج کل ہر دوسرے سیاسی مضمون میں یہ لکچر ہوتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ سیکولرازم کی وجہ سے ہی ہندوستان میں بد عنوانی ہے۔ ایسے بتایا جا رہا ہے کہ سیکولرازم نہ ہوتا تو ہندوستان میں کوئی سیاسی برائی نہ ہوتی۔ ساری برائی کی جڑ سیکولرازم ہے۔ مجھے حیرانی ہے کہ کوئی فرقہ پرستی ک قصوروار نہیں ٹھہرا رہا ہے۔ کیا ہندوستان میں فرقہ پرستی ختم ہو چکی ہے؟ کیا واقعی رہنماؤں نے بد عنوانی اس لئے کیا کہ سیکولرازم بچا لے ‌گی؟ بدعنوانی سے سسٹم بچاتا ہے سیکولرازم ؟ ہمارے رہنماؤں میں سیاسی بد عنوانی پر کھل کر بولنے کی ہمت نہیں بچی ہے۔ لڑنے کی بات چھوڑ دیجئے۔ یہ اس وقت کا  سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ ہندوستان کی کوئی سیاسی پارٹی بدعنوانی سے لڑ رہی ہے۔ہندوستان میں لوک پال کو لے کر دو سال تک لوگوں نے لڑائی لڑی۔ پارلیمنٹ میں بحث ہوئی اور 2013 میں قانون بن گیا۔ چار سال ہو گئے مگر لوک پال کی تقرری نہیں ہوئی ہے۔

بغیر کسی خود مختار ادارہ کے بدعنوانی سے کیسے لڑا جا رہا ہے؟ لڑائی کا اعتبار کیا ہے؟ اسی اپریل میں سپریم کورٹ نے حکومت کے ہر بہانے کو خارج کر دیا اور کہا کہ لوک پال کا تقرر ہونا چاہئے۔ اپوزیشن لیڈر کا نہیں ہونا لوک پال کی تقرری میں رکاوٹ نہیں ہے۔اپریل سے اگست آ گیا، لوک پال کا پتہ نہیں ہے۔ کیا آپ نے بد عنوانی کے لئے سیکولرازم کو ذمہ دار ٹھہرانے والے کسی بھی رہنما کو لوک پال کے لئے جدو جہد کرتے دیکھا ہے؟ 2011 میں سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی کی تشکیل کی تھی کہ وہ بد عنوانی کا پتہ لگائے۔ 2011 سے 2014 تک تو ایس آئی ٹی  بنی ہی نہیں جبکہ سپریم کورٹ کا حکم تھا۔

اسی کے حکم سے جب مودی حکومت  نے 27 مئی 2014 کو ایس آئی ٹی کی تشکیل کی تب حکومت نے اس کا کریڈٹ بھی لیا کہ بد عنوانی کے خلاف  ہماری لڑائی کا ثبوت یہی ہے کہ پہلا حکم اسی سے متعلق تھا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ اس ایس آئی ٹی کے کام کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ ایس آئی ٹی  کی حالت بھی کمیٹی جیسی ہو گئی ہے۔

اس کے رہتے ہوئے بھی ہندوستانی ریزرو بینک ان لوگوں کے نام عام کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے بینکوں سے ہزاروں کروڑ لون لے کراس کی ادائیگی نہیں کی ہے اور اس کھیل میں بد عنوانی کے بھی الزام ہیں۔ کیا بدعنوانی سے لڑنے والے رہنما نام ظاہر کرنے کی مانگ کریں‌ گے؟

ایسا نہیں ہے کہ بد عنوانی کے خلاف کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ جتنا ہو رہا ہے، اتنا تو ہر دور میں ہوتا ہی رہتا ہے۔ لیکن نہ تو بڑی لڑائی لڑی جا رہی ہے نہ سیدھی لڑائی۔لڑائی کے نام پر چنندہ لڑائی ہوتی ہے۔ بہت چالاکی سے نوٹ بندی، جی ایس ٹی  اور آدھار کو اس لڑائی کا ہیرو بنا دیا گیا ہے۔ کالا دھن نکلا نہیں اور بد عنوانی کے خلاف لڑائی کا اعلان بھی ہو گیا ہے۔نوٹ بندی کے دوران کہا گیا تھا کہ 500 اور 1000 کے جتنے نوٹ چھپے ہیں، اس سے زیادہ چلن میں ہیں۔ جب یہ نوٹ واپس آئیں ‌گے تو حکومت کو پتہ چلے‌گا کہ کتنا کالا دھن تھا۔

نو مہینے ہو گئے مگر  ریزرو بینک آف انڈیا نہیں بتا پایا کہ کتنے نوٹ واپس آئے۔ اب کہہ رہا ہے کہ نوٹ گنے جا رہے ہیں اور اس کے لئے گننے کی مشینیں خریدی جائیں ‌گی۔ کیا بینکوں نے بغیر گنے ہی نوٹ ریزرو بینک کو دئے ہوں ‌گے؟ کم از کم اسی کا جوڑ(تفصیل) ریزرو بینک بتا سکتا تھا۔دلیل اور طاقت کے دم پر سوالوں کو کچلا جا رہا ہے۔ صرف مخالف جماعتوں کے خلاف  ان کو جارح کیا جاتا ہے۔یہی ریزرو بینک سپریم کورٹ سے کہتا ہے کہ جن لوگوں نے بینکوں کے ہزاروں کروڑوں روپیے کے لون کا غبن کیا ہے، ڈبویا ہے، ان کے نام عام نہیں ہونے چاہئیں۔

بد عنوانی کی لڑائی میں جب رہنما کا نام آتا ہے تو چھاپے سے پہلے ہی میڈیا کو بتا دیا جاتا ہے، جب کارپوریٹ کا نام آتا ہے تو سپریم کورٹ سے کہا جاتا ہے کہ نام نہ بتائے۔ یہ کون سی لڑائی ہے؟ کیا اس کے لئے بھی سیکولرازم قصوروار ہے؟ گزشتہ سال انڈین ایکسپریس نے پورے اپریل کے مہینے میں پناما پیپرس کے بارے میں رپورٹ شائع کی۔ 500 سے زیادہ ہندوستانیوں نے پناما پیپرس کے ذریعے اپنا پیسا باہر لگایا ہے۔

اس میں اڈانی کے بڑے بھائی، امیتابھ بچّن، ایشوریہ رائے بچّن، انڈیا بُلس کے سمیر گہلوت جیسے کئی بڑے نام ہیں۔ چھتّیس گڑھ کے وزیراعلی رمن سنگھ کے بیٹے کا بھی نام آیا۔ ابھشیک سنگھ تو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں، وہ بھی ہیں۔سب نے تردید کرکے کام چلا لیا۔ حکومت نے دباؤ میں آکر جانچ تو بٹھا دی مگر اس جانچ کو لےکر کوئی سرگرمی نہیں نظر آتی ہے جتنی مخالف جماعت کے رہنماؤں کے یہاں چھاپے مارنے اور پوچھ تاچھ کرنے میں دکھائی دیتی ہے۔اڈانی کے بارے میں جب اکا نامک اینڈ پالٹکل ویکلی میں مضمون چھپا تو مدیر کو ہی ہٹا دیا گیا۔ ٹھیک ہے کمپنی نے نوٹس بھیجا لیکن کیا حکومت نے توجہ دی؟

کیا سیکولرازم کو گالی دیتے  ہوئے بدعنوانی سے لڑنے والے کسی رہنما یا جماعت نے جانچ کی مانگ کی۔

 ‘اے فیسٹ آف  ولچرس’ نام کی ایک کتاب آئی ہے، اس کے مصنف ہیں صحافی جوسی جوسیف ۔ اس کتاب میں بزنس گھرانے کس طرح سے ہندوستان کی جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے ہیں، اس کی تفصیل ہے۔

جوسیف نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کی بنائی ایس آئی ٹی کے سامنے بد عنوانی کا سب سے بڑا معاملہ اڈانی گروپ کا آیا ہے۔ مصنف کو تحویلی ڈائریکٹوریٹ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ اگر صحیح جانچ ہو جائے تو اڈانی گروپ کو 15 ہزار کروڑ روپیے کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔آپ سبھی جانتے ہی ہوں‌ گے کہ اڈانی گروپ کو کس رہنما اورحکمراں گروپ کے قریبی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

کیا اس لڑائی کے خلاف  کوئی رہنما بول رہا ہے؟ صرف دو چار صحافی ہی کیوں بولتے ہیں؟ ان کو تو اپنی نوکری گنوانی پڑتی ہے لیکن کیا کسی رہنما نے بول‌ کر کرسی گنوانے کا جوکھم اٹھایا؟

‘دی وائر اِن ’ نے جوسی جوسیف کی کتاب کا تجزیہ چھاپا ہے۔ کارپوریٹ کرپشن کو لےکر وایر کی سائٹ پر کئی خبریں چھپی ہیں مگر سیکولرازم  کو گالی دیتے  ہوئے بدعنوانی سے لڑنے والے رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کے گروپ نے نظراندازکر دیا۔لالو یادو کی فیملی  کے خلاف بدعنوانی کو لےکر لکھنے والے تمام قلمکاروں کے مضمون چھان لیجئے، ایک بھی مضمون کارپوریٹ بد عنوانی کے الزامات پر نہیں ملے‌گا جو موجودہ اقتداری ساکھ  سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ لالو یادو کی بد عنوانی کے خلاف کاروائی غلط ہے، غلط ہے یہ کہنا کہ حکومت نے بد عنوانی کے خلاف  ملک بھر میں مہم چھیڑ رکھی ہے۔اسی فروری میں پرشانت بھوشن، یوگیندر یادو اور کالکھو پل کی پہلی بیوی نے پریس کانفرنس کی۔ ارونالچ پردیش کے وزیراعلی رہے کالکھو پل نے خودکشی کر لی تھی۔

ان کے ‘خودکشی نامہ‘ کو کوئی میڈیا چھاپ نہیں رہا تھا۔’دی وایر’ نے چھاپ دیا۔ اس میں کالکھو نے سپریم کورٹ کے ججوں پر رشوت مانگنے کے سنگین الزام لگائے گئے تھے۔ کسی نے اس الزام پر توجہ نہیں دی۔اس کے باوجود ملک میں اعلان ہو گیا کہ بد عنوانی کے خلاف جنگ ہو رہی ہے۔ مدھیہ پردیش کے ویاپم گھوٹالہ سے لے کر مہاراشٹر کے آب پاشی گھوٹالہ۔ سب پر خاموشی ہے۔ ایسی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔آج اگر ساری پارٹی ایک طرف ہو جائے، بی جے پی میں شامل ہو جائیں تو ہو سکتا ہے کہ ایک دن وزیر اعظم ٹی وی پر آکر اعلان کر دیں کہ ہندوستان سے سیاسی بد عنوانی ختم ہو گئی ہے کیونکہ سبھی میرے ساتھ آ گئے ہیں۔

کانگریس کے سارے ایم ایل اے آ گئے ہیں اور باقی ساری پارٹی۔ لوک پال کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی کے ساتھ آ جانے سے ہی بد عنوانی دور ہو جاتی ہے۔سیاست میں بد عنوانی اوراقربأ پروری سیکولرزم کی وجہ سے ہے، یہ ہمارے  عہد کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ بی جے پی  کے اندر اور اس کی تمام اتحادی جماعتوں میں اقربا پروری ہے۔

شیوسینا، لوک جن شکتی پارٹی، اپنا دل، اکالی دل میں کنبہ پروری  نہیں ہے تو کیا جمہوریت ہے؟ کیا وہاں اقربا پروری سیکولرازم کی وجہ سے  پھلا پھولا ہے۔ سب کی سماجی ذات پات پر مبنی بنیاد بھی تو کنبہ پروری کی جڑ میں ہے۔

جنوبی ہندوستان کی تمام جماعتوں میں کنبہ پروری ہے۔ تلنگانہ راشٹر سمیتی کے صدر کے فرزند ریاست چلا رہے ہیں۔ تیلگو دیشم پارٹی کے مکھیا اور این ڈی اے کے اتحادی چندربابو نائیڈو کے بیٹے بھی وارث بن چکے ہیں۔

کیا بی جے پی  نائیڈو پرکنبہ پروری کے نام پر حملہ کرے‌گی؟ کیا نائیڈو کے گھر میں بھی سیکولرازم  نے اقربا پروری کو پالا ہے؟ بہار کی نئے کابینہ میں رام ولاس پاسوان کے بھائی وزیر بنے ہیں، جو کسی بھی ایوان کے ممبر نہیں ہیں، وہ حکومتِ بہار میں وزیر بنے ہیں۔ کیا اس کنبہ پروری  کے لئے بھی سیکولرازم قصوروار ہے؟

کانگریس، آر جے ڈی اور ایس پی و بی ایس پی کی اقربا پروری بری ہے۔ اکالی،ایل جے پی،شیوسینا، ٹی ڈی پی، ٹی آر ایس کی کنبہ پروری بری نہیں ہے۔بی جے پی کے اندر رہنماؤں کے کئی  شجرۂ نسب  مل جائیں‌ گے۔ بی جے پی کے ان وارثوں کے لئے کئی پارلیمانی حلقہ اور قانون ساز اسمبلی کے حلقے ریزرو ہو گئے ہیں۔ایک ہی بڑا فرق ہے۔ وہ یہ کہ بی جے پی صدرکا عہدہ کانگریس کی طرح فیملی کے نام محفوظ نہیں ہے۔ لیکن بی جے پی کا صدر بھی اسی کنبہ پروری کی روایت سے چنا جاتا ہے جس کو ہم سنگھ پریوار کے نام سے جانتے ہیں۔

وہاں بھی صدر اوپر سے ہی تھوپے جاتے ہیں۔ کوئی ٹوس انتخاب نہیں ہوتا ہے۔ جن جماعتوں میں کنبہ پروری نہیں ہے، یہ مان لینا بیوقوفی ہوگی کہ وہاں سب سے اچھی جمہوریت ہے۔ ایسی جماعتوں میں انفرادیت پسندی ہے۔ انفرادیت پسندی بھی کنبہ پروری ہے۔کنچن چندرا کی ایک کتاب ہے ‘ ڈیموکریٹک ڈاینیسٹیز: اسٹیٹ، پارٹی اینڈ فیملی ان کنٹیمپرری انڈین پالیٹکس ’۔ اس میں کنچن چندرا نے بتایا ہے کہ تین لوک سبھا انتخابات کے دوران کس پارٹی  میں کنبہ پروری  کتنی فیصد رہی ہے۔ ابھی 2014 کے انتخاب کے بعد چنے گئے رکن پارلیامان کے حساب سے ہی یہ فیصد دیکھ لیتے ہیں۔

آئی ڈی ایم کے  میں 16.22 فیصد رکن پارلیامان کنبہ پرور ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں 14.89 فیصد  رکن پارلیامان اقربا پرور ہیں۔ سی پی ایم میں بھی کنبہ پروری 11  فیصد ہے۔ سی پی آئی میں تو 100 فیصدی ہے۔آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے رکن پارلیامان میں کنبہ پروری کا فیصد خالی ہے۔ کانگریس میں سب سے زیادہ 47.73 فیصد ہے۔ این سی پی  میں 33.33 فیصد ہے۔ اکالی دل میں 25 فیصد ہے۔مطلب جتنے رکن پارلیامان  منتخب ہو‌کر آئے ہیں ان میں سے کتنے ایسے ہیں جن کی فیملی  کے ممبر پہلے رکن پارلیامان وغیرہ رہ چکے ہیں۔

اس کتاب کے مطابق 2004 میں لوک سبھا میں 20 فیصد رکن پارلیمان ایسے پہنچے جو‘ کنبہ پرورکوٹہ’ سے تھے۔ 2009 میں ان کا فیصد بڑھ‌ کر 30.07 ہو گیا اور 2014 میں گھٹ‌کر 21.92 فیصد ہو گیا کیونکہ کئی پارٹیوں کا کھاتا ہی نہیں کھلا۔

بی جے پی  جو کنبہ پروری سے لڑنے کا دعویٰ کرتی ہے اس میں اقربا پرور رکن پارلیامان کا فیصد بڑھ گیا۔ 2004 میں چنے گئے رکن پارلیمان میں 14.49 فیصد کنبہ پرور تھے، 2009 میں 19.13 فیصد ہو گئے اور 2014 میں 14.89 فیصد۔

کنبہ پروری بی جے پی  میں بھی ہے، اتحادی  جماعتوں میں ہے اور کانگریس سے لےکر تمام جماعتوں میں ہے۔ اس سے آزاد کوئی پارٹی  نہیں ہے۔ اس لئے ہندوستانی سیاست میں کنبہ پروری اور بد عنوانی کے لئے سیکولرازم کو قصوروار ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہے۔ سیکولرازم ہندوستانی سیاست کی روح ہے۔ اب کوئی اس کو کچل دینا چاہتا ہے تو الگ بات ہے۔

اقرباپروری کے اعداد و شمار اور بد عنوانی کے چند معاملات سے صاف ہے کہ نہ تو کوئی کنبہ پروری سے لڑ رہا ہے نہ ہی بدعنوانی سے اور نہ ہی کوئی سیکولرازم کے لئے لڑ رہا ہے۔

بس اقربا پروری اور بد عنوانی کو لےکر کوئی ٹھوس سوال نہ پوچھے اس لئے سیکولرازم کو شیطان کی طرح پیش کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ اس پر پتھر مارنے لگیں۔ کسی کو دھوکے میں رہنا ہے کہ بدعنوانی سے لڑا جا رہا ہے اور کم ہو رہا ہے تو اس کا استقبال ہے۔

انتخابی جیت کا استعمال ہر سوال کے جواب کی شکل میں کیا جانا ٹھیک نہیں ہے۔ کیا کل یہ بھی کہہ دیا جائے‌گا کہ چونکہ بی جے پی  پورے ہندوستان میں جیت رہی ہے اس لئے ہندوستان سے غریبی ختم ہو گئی ہے، بےروزگاری ختم ہو گئی؟

آج سیاسی جماعتوں کو پیسا کارپوریٹ سے آتا ہے۔ اس کے بدلے میں کارپوریٹ کو طرح طرح کی چھوٹ دی جاتی ہے۔ جب بھی کسی کارپوریٹ کا نام آتا ہے ساری سیاسی جماعتیں خاموش ہو جاتی ہیں۔ بدعنوانی سے لڑنے والے بھی اور نہیں لڑنے والے بھی۔

آپ ان کے منھ سے ان کمپنیوں کے نام نہیں سنیں ‌گے۔ اس لئے بہت چالاکی سے دو چار رہنماؤں کے یہاں چھاپے مار‌کر، ان کو جیل بھیج ‌کر بدعنوانی سے لڑنے کی عظیم علامت تیار کی گئی ہے تاکہ کارپوریٹ بد عنوانی کی طرف کسی کا دھیان نہ جائے۔ورنہ ریلوے میں خراب کھانا فراہم ہو رہا ہے۔ کیا یہ بغیر بد عنوانی کے ممکن ہوا ہوگا؟ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کو لےکر کیگ نے یہ کہا ہے کہ بیمہ کمپنیوں کو بغیر شرائط کو پورا کئے ہی تین ہزار کروڑ روپیے دے دئے گئے۔

سی اے جی ان بیمہ کمپنیوں کو آڈٹ نہیں کر سکتی جبکہ حکومت ان کو ہزاروں کروڑ روپیے دے رہی ہے۔ لہذا یہ جانچ ہی نہیں ہو پائے‌گی کہ بیمہ کی رقم صحیح کسان تک پہنچی یا نہیں۔ اب کسی کو یہ سب نہیں نظر آرہا ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔

بی جے پی  سے پوچھنا چاہئے کہ اس نے نتیش کمار پر بد عنوانی کے جو الزامات لگائے تھے کیا وہ تمام جھوٹھے تھے؟ کیا بی جے پی نے اس کے لئے معافی مانگ لی ہے؟ کیا وزیر اعظم انتخابات کے دوران نتیش کمار پر جھوٹھے الزام لگا رہے تھے؟

دراصل کھیل دوسرا ہے۔ سیکولرازم کی آڑ میں بی جے پی  کو ان سوالوں سے بچانے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ اس سے کوئی سوال نہ کرے۔ آج مسئلہ قوم پرستی کی آڑ میں فرقہ پرستی ہے لیکن اس پر کوئی نہیں بول رہا ہے۔ سیکولرازم  سب سے کمزور حالت میں ہے تو سب اس پر حملے کر رہے ہیں۔

بی جے پی  کے ساتھ جانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ بہت سی پارٹی شان سے گئی ہیں اور ساتھ ہیں۔ ہندوستان میں کھیل دوسرا ہو رہا ہے۔ بدعنوانی سے لڑنے کے نام پر وسیع بد عنوانی کو چھپایا جا رہا ہے۔ کارپوریٹ بد عنوانی پر خاموشی اختیار کی  جا رہی ہے۔سیکولرازم کا استعمال اس وسیع بد عنوانی پر خاموشی  کو ڈھکنے کے لئے ہو رہا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہندوستان میں نہ تو کوئی سیاسی جماعت سیکولرازم کو لےکر کبھی ایماندار رہی ہے نہ ہی بد عنوانی مٹانے کو لےکر۔سیکولرازم  کا استعمال سب کرتے ہیں۔ جو اس میں یقین کرتے ہیں وہ بھی، جو اس میں یقین نہیں کرتے ہیں وہ بھی۔ اسی طرح بد عنوانی کا استعمال سب کرتے ہیں۔ لڑنے والے بھی اور نہیں لڑنے والے بھی۔

نوٹ : آپ کو ایک جنتری دیتا ہوں۔ گاندھی جی کی طرح۔ اگر بدعنوانی سے لڑائی ہو رہی ہے تو اس کا اثر دیکھنے کے لئے سیاسی جماعتوں کی ریلیوں میں جائیے۔ ان کے روڈ  شو میں جائیے۔ آسمان میں اڑتے سیکڑوں ہیلی کاپٹر کی طرف دیکھئے۔

امیدوار کے خرچے  اور اشتہارات کی طرف دیکھئے۔ آپ کو کوئی دقت نہ ہو اس لئے ایک اور جنتری دیتا ہوں۔ جس سیاسی جماعت کے پروگراموں میں یہ سب زیا دہ نظر آئے، اس کو ایماندار قرار دے دیجئے۔  زندگی میں آررہے‌گا۔ ٹائمس آف انڈیا اور ڈی این اے  کو یہ جنتری پہلے مل گئی تھی تبھی دونوں نے امت شاہ کی جائیداد میں 300 فیصدی اضافہ کی خبر چھاپنے کے بعد ہٹا لی۔