فکر و نظر

یہ ہندوستان سنگھیوں کا ہندو راشٹر نہیں ہے

اگر بھارت ماتا کی آزادی کے لئے قربان ہو جانا ہی حب الوطنی کی کسؤٹی  ہے تو سنگھ پریواری تو اس پر چڑھے بھی نہیں، کھرے اترنے کی تو بات ہی نہیں ہے۔

کل آپ نے دیکھا کہ جسے گانا  تھا اس نے وندے ماترم گایا جس کو نہیں گانا تھا اس نے نہیں گایا۔ جن ریاستوں  میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت  ہے اور جہاں وہ دوسری پارٹی کے ساتھ حکومت‌ کر رہی ہے، وہاں کی حکومتوں نے وندے ماترم  گانے  کو لازمی کر دیا تھا۔ لیکن جہاں کانگریس اور دوسری پارٹیوں کی حکومت ہے وہاں اس کے گانے نہ گانے کی چھوٹ تھی۔

جن بھاجپائی حکومتوں نے اس کو لازمی کیا وہ بھی دعویٰ نہیں کر سکتیں کہ جو مسلمان، عیسائی اور سکھ اس کو گانا نہیں چاہتے تھے ان سے بھی وندے ماترم گوا لیا گیا ہے۔ آدمی اگر ایسا ہی مشینی ہوتا اور گانا ریکارڈ بجوانے جیسا میکینکل کام ہوتا تو نہ تو عظیم نغمات  ہوتے نہ عظیم موسیقی۔

اپنی ماں، مادر وطن اور ملک سے آپ بدیہی اور رضاکارانہ محبت کرتے ہیں، کوئی کروا نہیں سکتا۔ بدیہات اور رضاکاری تہذیب کی عظیم کامیابیوں کی کنجی ہے۔ جو ملک اپنی عوام کی بدیہات اور رضاکاری  کا احترام کرتا ہے اور ان پر کوئی چیز تھوپ‌ کر ان کو مجبور نہیں کرتا تہذیب اور ثقافت میں وہ اتنا ہی ترقی یافتہ  ہوتا ہے۔

کوئی ترغیب یافتہ شخص جتنے بڑے کام کر سکتا ہے مجبور آدمی نہیں کر سکتا ہے۔ اگر اس حقیقت کو آپ سمجھتے ہیں تو لوگوں کو متاثر کریں‌ گے، جو وہ دل سے اور آسانی سے کر سکتے ہیں اس کو کرنے کی چھوٹ دیں ‌گے اور اس آزاد اور رضاکارانہ ماحول میں جو حاصل ہوگا اس کی تعریف و توصیف  کریں ‌گے۔

وندے ماترم کے قومی ترانہ ہونے کی جیسے بھی اور جیسی بھی منائی گئی صدی پر اگر حب الوطنی، شہیدوں اور جنگ آزادی کے مجاہدوں کے تئیں سپرد گی کو اونچا اٹھا دینے والے  جذبات  نہیں اُبھرے تو قصور انہی کا ہے جو اس کا گانا کولازمی کرنا چاہتے تھے۔

یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے وندے ماترم  کے گانے  کو  اسلام مخالف کہا ہو۔ ویسے ہی یہ بھی پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ سنگھ پروار نے ا س کے گانے کو مسلمانوں کے لئے لازمی کرنے کیلئے  ہلا مچایا ہو۔

مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے درمیان یہ جھگڑا آزادی کے بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ آزادی کی تحریک  کی قومی  دھارا تو کانگریس کی ہی تھی اور اسی نے وندے ماترم کو باقاعدہ اپنایا بھی۔ لیکن اسی نے اس کو گاتے ہوئے بھی اس کے گانے کو رضاکارانہ رکھا۔ کانگریس کے سنہ 1937 کے اجلاس کی تجویز اس کا ثبوت ہے۔ اسی نے اس کو آزاد جمہوری ریاست ہندوستان کا قومی ترانہ بھی بنایا۔

اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے لئے وندے ماترم کا گانا لازمی  کرنے کی مانگ سنگھ پریواریوں کی ہی رہی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس جنگ  آزادی  کو ہی رضاکارانہ مانا ہے جس میں سے وندے ماترم نکلا ہے۔

اگر بھارت ماتا کی آزادی کے لئے قربان ہو جانا ہی حب الوطنی کی کسؤٹی ہے تو سنگھ پریوار تو اس پر چڑھے بھی نہیں، کھرے اترنے کی تو بات ہی نہیں ہے۔

لال کرشن اڈوانی نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ حب الوطنی کی کوئی علامت رضاکارانہ ہو۔ تو پھر آزادی کی لڑائی کے فیصلہ کن(موڑ) ‘بھارت  چھوڑو آندولن’ کے دوران وہ خود کیا کر رہے تھے؟

انہوں نے خودہی کہا ہے‘ میں سنگھ  میں تقریباً انہی دنوں گیا جب بھارت چھوڑو آندولن چھڑا تھا کیونکہ میں مانتا تھا کہ کانگریس کے طور-طریقوں سے تو ہندوستان آزاد نہیں ہوگا۔ اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔’

سنگھ کا رویہ یہ تھا کہ جب تک ہم پہلے ملک کے لئے اپنی جان قربان کر دینے والے لوگوں کی مضبوط تنظیم نہیں بنا لیتے، ہندوستان آزاد  نہیں ہو سکتا۔

لال کرشن اڈوانی بھارت چھوڑو آندولن کو چھوڑ کر کراچی میں بکتر بندی کرتے ملک پر قربان ہو سکنے والے لوگوں کی تنظیم بناتے رہے۔ پانچ سال بعد ملک آزاد ہو گیا۔ اس آزادی میں ان کی تنظیم سنگھ کے کتنے سویم سیوکوں  نے جان کی قربانی دی؟ ذرا بتائیں۔

ایک اور بڑے وطن پرست سویم سیوک اٹل بہاری واجپئی ہیں۔ وہ بھی بھارت چھوڑو آندولن کے دوران بچّے نہیں ، سنگھ کے کام کرتے سویم سیوک ہی تھے۔ ایک بار بٹیشور میں آزادی کے لئے لڑتے لوگوں کی صحبت میں پڑ گئے۔ ہنگامہ  ہوا۔ پولس نے پکڑا تو فساد کرنے والے مجاہدین کے نام بتاکر چھوٹ گئے۔

آزادی ملنے تک انہوں نے بھی ملک پر قربان ہونے والے لوگوں کی تنظیم بنائی جن کو قربان ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ وہ بھی آزادی کی تحریک  کو حب الوطنی کے لئے رضاکارانہ سمجھتے تھے۔

اب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اپنے کو وطن پرستوں کی عظیم  تنظیم کہے اور ملک پر جان قربان کرنے والوں کی فہرست بنائے تو یہ بڑے مذاق  کا موضوع ہے۔ سنہ 1925 میں سنگھ کو کھڑا  کرنے والے ڈاکٹر کیشو بلرام ہیڈ گیوار کو بڑا انقلابی اور محب وطن بتایا جاتا ہے۔

وہ ڈاکٹری کی پڑھائی کرنے 1910 میں ناگ پور سے کولکاتہ گئے جو کہ انقلابیوں کا گڑھ تھا۔ ہیڈ گیوار وہاں چھے سال رہے۔ سنگھ والوں کا دعویٰ ہے کہ کولکاتہ پہنچتے ہی ان کو ‘انوشیلن کمیٹی’ کے سب سے قابل اعتماد گروپ میں لے لیا گیا اور‘مدھیہ پرانت’(یعنی وسطی علاقہ  ) کے انقلابیوں کو ہتھیار اور گولہ-بارود پہنچانے کی ذمہ داری انہی کی تھی۔

لیکن نہ تو کولکاتہ کے انقلابیوں کی سرگرمیوں کے لٹریچر میں ان کا نام آتا ہے نہ تب کے پولس رکارڈ میں۔ (مورخین کا چھوڑیں کیونکہ یہاں مورخین کا ذکر کرنے پر کچھ کو ان کی جانبداری  پر سوال کھڑا کرنے کا موقع  مل سکتا ہے۔)

خیر، ہیڈ گیوار نے وہاں کوئی اہم کا کام نہیں کیا نہ ہی ان کو وہاں کوئی اہمیت ملی۔وہ نہ تو کوئی انقلابی کام کرتے دیکھے گئے اور نہ ہی پولیس نے انہیں پکڑ لیا۔ 1916 میں وہ واپس ناگ پور آگئے۔

لوک مانیہ تلک کی موت کے بعد وہ کانگریس اور ہندو مہاسبھا دونوں میں کام کرتے رہے۔ گاندھی جی کے غیر متشدد عدم تعاون اور سول نافرمانی کی تحریکوں  میں حصہ لےکر خلافت  تحریک  کے وہ ناقد ہو گئے۔ وہ پکڑے بھی گئے اور سنہ 1922 میں جیل سے چھوٹے۔

ناگ پور میں سنہ 1923 کے فسادات میں انہوں نے  ڈاکٹر منجے کے ساتھ فعال تعاون  کیا۔ اگلےسال ساورکر کا ‘ہندوتو’ نکلا جس کا  ایک مخطوطہ ان کے پاس بھی تھا۔

ساورکر کے ہندو راشٹر کے خواب کو سچ کرنے کے لئے ہی ہیڈ گیوار نے سنہ 1925 میں دسہرہ کے دن راشٹریہ  سویم سیوک سنگھ کی بنیاد رکھی۔ تب سے وہ ذاتی حیثیت میں تو آزادی کی تحریک  اور سیاست میں رہے لیکن سنگھ کو ان سب سے الگ رکھا۔

سارا ملک جب نمک ستیہ گرہ اور سول نافرمانی کی تحریک  میں کود پڑا تو ہیڈگیوار بھی اس میں آئے لیکن راشٹیریہ سویم سیوک سنگھ  کی کمان پرانجپے کو سونپ گئے۔ وہ سویم سیوکوں کو ان کی ذاتی حیثیت میں تو آزادی کی تحریک  میں حصہ لینے دیتے تھے لیکن سنگھ  کو انہوں نے  نہ مسلح انقلابی سرگرمیوں میں لگایا نہ غیر متشدد  عدم تعاون تحریکوں میں لگنے دیا۔

سنگھ  ایسے وقف لوگوں کے  کردار کی تعمیر کا کام کر رہا تھا جو ملک کے لئے قربان ہو جائیں ‌گے۔ ساورکر نے تب چِڑھ‌ کر بیان دیا تھا‘سنگھ  کے سویم سیوک کے ‘سمادھی مضمون’ (یعنی مزار کی تختی) میں لکھا ہوگا- وہ  پیدا ہوا، سنگھ میں گیا اور بغیر کچھ کئے دھرے  مر گیا’۔

ہیڈ گیوار تو پھر بھی انقلابیوں اور غیر متشدد عدم تعاون احتجاجیوں میں رہے دوسرے سرسنگھ چالک مادھو سداشیو گولولکر تو ایسے ہندو قوم  پرست تھے کہ قومی تحریک، انقلابی سرگرمیوں اور برٹش مخالفت سے انہوں نے سنگھ  اور سویم سیوکوں کو بالکل الگ کر لیا۔

والٹر اینڈرسن اور شری دھر داملے نے سنگھ پر جو کتاب ‘دی بردرہڈ ان سیفرن’ لکھی ہے اس میں کہا ہے ‘ گولولکر مانتے تھے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ  پر پابندی لگانے کا کوئی بہانہ انگریزوں کو نہ دیا جائے’۔

انگریزوں نے جب غیر سرکاری تنظیموں میں وردی پہننے اور فوجی نقل وحرکت پر پابندی لگائی تو سنگھ  نے اس کو فوراً منظور کیا۔ 29 اپریل 1943 کو گولولکر نے سنگھ کے سینئر لوگوں کو ایک دستی خط بھیجا۔ اس میں سنگھ کی فوجی شاخ بند کرنے کا حکم تھا۔

دستی خط کی زبان سے پتہ چلتا ہے کہ سنگھ  پر پابندی کی ان کو کتنی فکر تھی ‘ ہم نے فوجی قواعد اور وردی پہننے پر پابندی جیسے سرکاری حکم مان ‌کر ایسی سب سرگرمیاں چھوڑ دی ہیں تاکہ ہمارا کام قانون کے دائرے میں رہے جیسا کہ قانون کو ماننے والی ہر تنظیم کو کرنا چاہئے۔ ایسا ہم نے اس امید میں کیا کہ حالات سدھر جائیں ‌گے اور ہم پھر یہ تربیت دینے لگیں‌ گے۔ لیکن اب ہم طئے کر رہے ہیں کہ وقت کے بدلنے کا انتظار کئے بغیر یہ سرگرمیاں اور یہ محکمہ ختم ہی کر دیں’۔

(یہ وہ دور تھا جب نیتا جی سبھاش چندر بوس جیسے انقلابی اپنے طریقے سے جدو جہد کر رہے تھے) روایتی معنوں میں گولولکر انقلابی نہیں تھے۔ انگریزوں نے اس کو ٹھیک  سے سمجھ لیا تھا۔

سنہ 1943 میں سنگھ کی سرگرمیوں پر تیار کی گئی ایک سرکاری رپورٹ میں محکمہ داخلہ نے نتیجہ نکالا تھا کہ سنگھ سے طریقہ کار اور انتظام کو کوئی آنے والا  بحران  نہیں ہے۔ 1942 کے بھارت  چھوڑو آندولن  میں ہوئے  تشدد پر تنقید  کرتے ہوئے ممبئی کے محکمہ داخلہ  نے کہا تھا‘ سنگھ  نے بڑی احتیاط سے اپنے کو قانونی دائرے میں رکھا ہے۔ خاص کر اگست 1942 میں جو تشدد آمیز دنگے فساد ہوئے ہیں، ان میں سنگھ نے بالکل حصہ نہیں لیا ہے’۔

ہیڈ گیوار سنہ 1925 سے 1940 تک سرسنگھ چالک رہے اور ان کے بعد آزادی ملنے تک گولولکر رہے۔ ان بائیس سالوں میں آزادی کی تحریک  میں سنگھ نے کوئی شراکت یا تعاون نہیں کیا۔

سنگھ پرواریوں کے لئے سنگھ کام ہی ملک کی خدمت اور حب الوطنی کا سب سے بڑا کام تھا۔ سنگھ کا کام کیا ہے؟ ہندو راشٹر  کے لئے مر مٹنے والے سویم سیوکوں کی تنظیم بنانا۔ ان سویم سیوکوں کی کرداری سازی کرنا۔ ان میں حب الوطنی  کو ہی زندگی کی سب سے بڑی ترغیب اور طاقت ماننے کا حتمی  عقیدت(جذبہ پیداکرنا) بیٹھانا۔

۱۹۴۷میں جب ملک آزاد ہوا تو ملک میں کوئی سات ہزار شاخوں میں چھے سے سات لاکھ سویم سیوک حصہ لے رہے تھے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ان ‘ عقیدت میں ڈابے ہوئے’ محب وطن سویم سیوکوں  نے آزادی کی  تحریک  میں کیا کیا؟

اگر یہ مسلح انقلاب میں اعتماد کرتے تھے تو انگریزوں کے خلاف  انہوں نے  کتنے مسلح دنگے فساد کئے، کتنے انگریزوں کو مارا اور ان کے کتنے اداروں کو برباد کیا۔ کتنے سویم سیوک انگریزوں کی گولیوں سے مرے اور کتنے وندے ماترم کہہ ‌کر پھانسی پر جھول گئے؟ ہندتووادیوں کے ہاتھ سے ایک غیر مسلح غیر متشدد گاندھی ہی مارا گیا۔

سنگھ  اور ان سویم سیوکوں کے لئے آزادی کی تحریک  سے زیادہ اہم  آزاد  ہندو راشٹر  کے لئے تنظیم بنانا اور سویم سیوک تیار کرنا تھا۔ تنظیم کو انگریزوں کی پابندی سے بچانا تھا۔ ان کے لئے آزاد  ہندوستان ملک انگریزوں سے آزاد کرایا گیا ہندوستان نہیں تھا۔

ان کا ہندو راشٹر  تو کوئی پانچ ہزار سال سے ہی بنا ہوا ہے۔ اس کو پہلے مسلمانوں اور پھر انگریزوں سے آزاد  کرانا ہے۔ مسلمان ہندو راشٹر کے دشمن نمبر ایک اور انگریز نمبر دو تھے۔ صرف انگریزوں کو باہر کرنے سے ان کا ہندو راشٹر آزاد  نہیں ہوتا۔

مسلمانوں کو بھی یا تو باہر کرنا ہوگا یا ان کو ہندو ثقافت کو ماننا ہوگا۔ اس لئے اب ان کا نعرہ ہے- وندے ماترم گانا ہوگا، نہیں تو یہاں سے جانا ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ جب آزادی کی تحریک- سنگھ پریواریوں کے لئے رضاکارانہ تھی تو آزاد  سیکولر جمہوری ہندوستان میں وندے ماترم گانا  رضاکارانہ کیوں نہیں ہو سکتا؟

ہندوستان نے ہندو راشٹر  کو منظور نہیں کیا ہے۔ یہ ہندوستان سنگھیوں کا ہندو راشٹر نہیں ہے۔ وندے ماترم قومی ترانہ  ہے، قومیت کی کسؤٹی نہیں۔

(پربھاش جی کا یہ مضمون 10 مارچ 2008 کو جن ستّا میں چھپا تھا۔)