حقوق انسانی

کیوں قانون بننے کے 24 سال بعد بھی گندگی ڈھونے کی روایت ختم نہیں ہوئی؟

گندگی اور فضلہ ڈھونے کے کام سے جُڑے مزدوروں کی بازآبادی کے لئے خودروزگار اسکیم کے  اولین  سالوں میں 100 کروڑ روپیے کے آس پاس مختص کیا گیا تھا، جبکہ 2014-15 اَور 2015-16 میں اِس اسکیم پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوا۔

30987691-calcuttas-sewer-720x340

گندگی  ڈھونے کی مختلف شکلوں کو ختم کرنے کی ضرورت کو لےکر ملک میں ایک متفق رائے  ہے لیکِن بد قسمتی سے اب تک کی تمام کوششیں، جِن میں دو قَومی قانون اَور کئی عدالتوں کے احکام شامل ہیں، اِس وسیع منظور شدہ مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ گندگی  ڈھونے اَور سیور مزدوروں کی بازآبادی اَور معاوضہ کے تعلق میں بھی بہت سنگین ناکامیاں سامنے آئی ہیں۔ صفائی اہلکار تحریک کے رابطہ کار  بیجواڑا وِلسن کے مُطابق، ‘‘ اِس مسئلہ پر ظاہری  طور سے سیاسی قوت نفس کی کمی ہے۔ میں عدالتی احکام کی غیر تکمیل کے بارے میں اعلیٰ سطح پر  متعدد خطوط  بھیج‌کر تھک گیا ہوں لیکِن اُن کی طرف سے مُجھے کوئی جواب  نہیں مل سکا  ہے۔’’

 پلاننگ کمیشن کے ذریعے 1989 میں قائم شُدہ ٹاسک فورس کی ذیلی کمیٹی کے مُطابق ملک میں 72.05 لاکھ خشک بیت الخلاء  تھے۔ ہر چھےخشک  بیت الخلا پر ایک مزدور کو اَگر ہم مانیں تو 1989 میں ملک میں دس لاکھ سے زیادہ ایسے مزدور تھے۔ صفائی اہلکار تحریک کے مَوجُودَہ اندازہ کے مطابق اُتّر پرَدیش، مَدھیہ پرَدیش، بِہار اَور ملک کی کچھ دیگر ریاستوں میں ابھی بھی 1.6 لاکھ ایسے مزدور موجود ہیں۔

گندگی  ڈھونے کی روایت کو ختم کرنے کا پَہلا قانون ملک میں 1993 میں پاس ہوا تھا اور پھر 2013 میں اِس سے  منسلک دُوسرا قانون پاس ہوا۔ پہلے قانون میں صرف خشک  بیت الخلا میں کام کرنے کو ختم کیا گیا جبکہ دُوسرے قانون میں گندگی  ڈھونے کی وضاحت کو بڑھایا گیا جِس میں سیپٹِک ٹینکوں کی صفائی اَور ریلوے پٹریوں کی صفائی کو بھی شامل کیا گیا۔ اِس نَئے قانون نے واضح طور پر گندگی  ڈھونے والے یا اِس کے رابطہ میں آنے والے مزدوروں کی تعداد کو بڑھایا ہے لیکِن نئی پالیسی  کے مُطابق ایسے مزدوروں کی صحیح تعداد ابھی معلوم نہیں ہے۔

پھر 27 مارچ 2014 کو اِس  مسئلہ پر سُپریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہ آیا، جِس میں سیور مزدوروں کے  مسئلہ کو بھی شامل کیا گیا کیونکہ اُن کو بھی بہت مشکل حالات میں بغیر کِسی حفاظتی سرپوش کے سیور لائنوں کی صفائی کرتے ہوئے انسانی پاخانے کو صاف کرنا پڑتا ہے۔

اس لئے یہ ظاہر ہے کہ نئی توسیعی  پالیسی  کے مُطابق ابھی بھی بہت بَڑی تعداد میں مزدور مختلف شکلوں میں گندگی  ڈھونے کے کام میں لگے ہیں جِن کو مدد اَور بازآبادی کی ضرورت ہے۔ کچھ  مطالبات ایسے  ہیں جیسے کہ  خشک بیت الخلا میں کام کرنا پوری طرح ختم ہونا چاہئے اَور ایسے مزدوروں کی بازآبادی صحیح سے آراستہ ہونی چاہئے۔ دیگر  مطالبات  ہیں کہ سیور میں کام کرنے والے مزدوروں کو کام کرنے کے بہتر حالات حفاظتی سرپوش سَمیت جلد فراہم کئے جائیں۔

خشک  بیت الخلا میں کام کرنے والے مزدوروں کے لئے اِس کام سے آزادی کے لئے بازآبادی پیکج عام طور پر صرف چالیس ہزار روپیے کی امداد تَک ہی محدود ہیں۔ کبھی کبھی تو اِس قدر کم رقم میں بھی تخفیف کی جاتی ہے۔ یہ رقم عام طور پر خودروزگار کے لئے کافی نہیں ہے جبکہ اُن کے لِئے روزگار کے دیگر ذرائع بہت محدود ہیں۔ اس لئے بازآبادی رقم میں مناسب اضافہ ہونا چاہئے۔

سیور مزدوروں کی تحفظی حالتوں میں اصلاح کو لےکر کئی عدالتوں کے احکام کے باوجوُد خطرناک کام کاج کی وجہ سے سیور مزدوروں کی موت کی خبر با باقاعدگی سے آتی رہتی ہے۔ صفائی اہلکار تحریک کے مُطابق 1993 سے اب تک اُن کے پاس ایسے 1370 سیور مزدوروں کے نام ہیں جِن کی موت کام کرنے کے دوران  خطرناک حالات میں ہوئی۔ اِن میں سے 480 مزدوروں کے اُن کے پاس پُورے ریکارڈ ہیں۔

معزز سُپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایسے ہرایک مزدور کے پریوار کو 10 لاکھ روپیے کا معاوضہ مِلنا چاہئے۔ لیکِن ابھی تک تمِل ناڈو اَور پنجاب جیسے ریاستوں میں صرف 80 ایسے مزدوروں کے پریواروں کو ہی معاوضہ  ملا ہے۔ اَگر ہم اِس سال کی بات کریں تو مارچ سے مئی 15 کے مُعَیّنہ مدت میں ہی ایسی تقریباً 40 اموات  ملک کے الگ-الگ حصوں سے  درج کی گئی  ہیں۔

بیجواڈا وِلسن کے مُطابق، مختلف قسم کے گندگی  ڈھونے کے کام سے جُڑے اِس انتہائی غریب طبقے کی مدد کے لئے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ لیکِن سرکار ترجیحی بنیادوں پر  اِس کام کے لئے وسائل کی تقسیم نہیں کر رہی ہے۔

گندگی  ڈھونے کے کام سے جُڑے مزدوروں کی بازآبادی کے لئے خودروزگار اسکیم کے پہلے کے سالوں میں 100 کروڑ روپیے کے آس پاس مختص کیا گیا تھا۔ جبکہ 2014-15 اَور 2015-16 میں اِس منصوبہ پر  کچھ  بھی خرچ نہیں ہوا تھا۔ 2016-17 کے بجٹ میں صرف 10 کروڑ روپیے کی رقم  مختص کی گئی تھی، لیکِن سال کے ترمیم شدہ اندازوں میں اِس میں بھی تخفیف کر کے  اِس کو 1 کروڑ روپیے پر لے آئے تھے۔ اِس سال کے بجٹ اندازے میں صرف 5 کروڑ روپیے کی رقم فراہم کی گئی ہے۔

یہ چونکانے والی بات ہے کیونکہ اِس نظرانداز  شدہ علاقہ  میں بہت کچھ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ اَگر خطرناک حالات میں کام کرتے ہوئے مارے گئے اب تک کے سیور مزدوروں کے دریافت  معاملات کو ہی معاوضہ دینے کی ہم بات کریں تو اِس کے لِئے فوراً 120 کروڑ روپیے کی ضرورت ہوگی۔

یہ لائق  توجہ بات ہے کہ یہ صرف اِس نظرانداز شدہ  علاقے میں درکار کئی ضروری  صرفوں  میں سے ایک ہے۔ سرکار کو سماجی انصاف کے اِس اعلیٰ ترجیح والے  مسئلہ  پر عدالت کے احکام اَور اپنے خود کے بِلوں کی تکمیل کی اصلاح میں اب اور زیادہ وقت برباد نہیں کرنا چاہئے، بالخصوص اس وقت جب صاف ہندوستان کے صفائی مزدوروں کی شراکت کو تسلیم  کئے جانے کے ساتھ ہی ان کو عزّت  دینے کی ضرورت ہے۔