خبریں

طلاق بدعت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ : جانئے، کس نے کیا کہا ؟

نئی دہلی : آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے تین طلاق کے معاملے پر سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کا یہ کہتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے کہ اس نے نہ صرف مسلم پرسنل لا کو تحفظ فراہم کیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر عدالتوں میں پرکھا نہیں جاسکتاہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے آج یہاں جاری ایک بیان کے مطابق سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ پرسنل لا پورے طور پر محفوظ رہے گا، وہ آئین ہند کی دفعہ ۲۵ کے دائرے میں آتا ہے ،فیصلہ کا یہ حصہ تمام مسلمانان ہند کی کامیابی ہے، سپریم کورٹ کایہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ شرعی احکام مسلم پرسنل لا کا حصہ ہیں، اور ان میں ترمیم یا اضافہ کا حق کورٹ کو حاصل نہیں ہے۔ بورڈ نے تاہم یہ بھی کہا کہ طلاق، تعدد ازدواج اور حلالہ سے متعلق ملک کی سب سے بڑی عدالت (سپریم کورٹ) میں جاری مقدمہ کا فیصلہ باہم ٹکرارہا ہے۔

بورڈ نے کہا کہ یہ ہمارے لئے ایک بڑی فتح ہے کیوں کہ اس فیصلے سے نہ صرف ہمارے موقف کی توثیق ہوتی ہے بلکہ ہے ملک کے شہریوں کو اپنے مذہبی شعائر پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے کے بنیادی حق کی ضمانت کو یقینی بناتا ہے۔ بورڈ نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ مختلف مذاہب کے پیرووں کے مذہبی صحائف اور عقائد پر مبنی مذہبی شعائر پر عمل سے متعلق امور میں عدالتوں کی عدم مداخلت کو بھی یقینی بنائے گا۔بورڈ نے کہا کہ بالآخر عدالت عظمی کے اس فیصلے نے ان بنیادی حقوق کے جوہر کو برقرار رکھا ہے جن کی ملک کے شہریوں کو ضمانت دی گئی ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ جہاں تک طلاق بدعت کا تعلق ہے ہم پہلے ہی عدالت سے کہہ چکے ہیں کہ ایک ہی نشست میں تین طلاق دینے کا طریقہ جو اگرچہ مذہبی متون اور عقیدے پر مبنی ہے، طلاق دینے کا بہترین طریقہ نہیں ہے او رمتعدد جائزہ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا استعمال شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے۔

بورڈ نے کہا کہ ایک طویل عرصے سے ہم خود اس تعلق سے بین سماجی اصلاحی پروگرام چلا کر اور بورڈ کی جانب سے ماڈل نکاح نامہ جاری کرکے طلاق کی اس شکل پر روک لگانے کے لئے مصروف ہیں۔ گذشتہ بائیس میں 2017کو جو حلف نامہ ہم نے کورٹ میں داخل کیا تھا اس میں صراحت کی گئی تھی کہ نکاح پڑھانے والے مولویوں اور قاضیوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ نکاح پڑھاتے وقت دونوں فریقوں کی منظوری سے یہ شرط لگاسکتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق نہیں دے گا۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہندوستان میں بہت سے مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ طلاق بدعت یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کی بنیاد مذہبی عقیدے یا مذہبی عمل سے وابستہ ہے۔ بہر کیف ہم کورٹ کے اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ان مسائل پر غور و خوض اور انہیں حل کرنے کی تدبیریں تلاش کریں گے۔

بورڈ نے مزید کہاکہ چوں کہ ججوں کی اکثریت یعنی جسٹس نریمن، جسٹس للت ، جسٹس کورین نے طلاق بدعت کو غیر قانونی قرار دیا ہے کہ جب کہ چیف جسٹس کیہر اور جسٹس عبدالنذیر نے اس معاملے کو پارلیمنٹ کے حوالے کرنے کی بات کی ہے، جو کہ طلاق بدعت کے غیر منطقی ہونے کے سلسلے میں اقلیت(ججوں کی اقلیت) کا نقطہ نظر ہے۔ لہذا حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا غلط استعمال کرکے مسلمانوں کے پرسنل لا کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کرسکتی۔

دریں اثنا آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی صاحب رحمانی نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے دوسرے حصے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ تین طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لحاظ سے یہ فیصلہ باہم ٹکرارہا ہے،ایک طرف کورٹ کہہ رہا ہے کہ پرسنل لا میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، اور دوسری طرف تین طلاق کو بے اثر قرار دے رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصلہ کے دوسرے حصہ سے بددل یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ایک مجلس میں تین طلاق کو شریعت نے پسند نہیں کیا ہے،اور اسے گناہ قراردیا گیاہے، لیکن اگر کوئی تین طلاق دیدے تو طلاق ہوجائے گی، یہ بھی مسلم پرسنل لا کا حصہ ہے۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں مولانا محمدولی رحمانی نے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے بھر پور تیاری کے ساتھ یہ مقدمہ لڑا ، بہترین وکلاء کے ذریعہ بورڈ نے اپنا موقف پوری مضبوطی کے ساتھ کورٹ کے سامنے پیش کیا، متعدد مرتبہ نامور علماء اور ماہر وکلاء کے درمیان مشورہ ہؤا، اور بورڈنے طویل غور وخوض کے بعد ملکی اور شرعی قوانین کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے دلائل کورٹ کے سامنے پیش کیے ،کورٹ میں جوبحث بورڈ کی جانب سے پیروی کرنیوالے وکلاء نے کی وہ بھی بہت واضح ، مدلل اور مکمل تھی۔ خود فیصلے میں ججوں کی رائے میں بھی اختلاف ہے، مگر بورڈسپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتا ہے، اور اگلا لائحہ عمل مجلس عاملہ کے اجلاس میں طے کریگا، جو 10؍ ستمبر2017  کو بھوپال میں منعقد ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشکل مسائل ،وحدت واجتماعیت اور مسلسل محنت کے ذریعہ حل ہوتے ہیں، بورڈ پوری ہم آہنگی کے ساتھ قانون شریعت کی حفاظت کی جد وجہد کرتا رہے گا۔

طلاق ثلاثہ پرسپریم کورٹ کے فیصلہ باریک بینی سے غور کا متقاضی : طاہر محمود

ممتاز ماہر قانون پروفیسر طاہر محمود نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ طلاق ثلاثہ کے دیرینہ معاملے میں ملک کی عدالت عظمیٰ کوئی متفقہ فیصلہ نہیں کر سکی۔ انہوں نے ستدلال کیا کہ چیف جسٹس کے فیصلے میں جس پر بنچ کے واحد مسلم جج نے صاد کیا ہے کئی تضاد ہیں۔ ایک طرف تو کہا گیا ہے کہ طلاق ثلاثہ اہل اسلام کے مذہب کا لازمی عمل ہے اس لئے اسے آئین ہند کی ان دفعات کا تحفظ حاصل ہے جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتی ہیں ،دوسری طرف حکومت کو حتمی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ قانون بناکراس عمل میں مسلم ممالک کے طرز پر اصلاحات نافذ کرے۔

یہاں جاری ایک بیان میں پروفیسر محمود نے کہا کہ اسی کے ساتھ خود عدالت کی طرف سے کم از کم چھ ماہ کیلئے مسلمان شوہروں کے اس عمل (کھڑے کھڑے طلاق دینے)پر حکم امتناعی بھی لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہر حال دو ججوں کا یہ فیصلہ اقلیتی فیصلے کے درجے میں ہے جو نافذ نہیں ہوگا۔ دو دیگر ججوں کورین جوزف اور روہنگٹن ناریمن نے اپنے الگ الگ فیصلے صادر کئے ہیں جن میں سے آخر الذکرپر بنچ کے پانچویں جج نے بھی دستخط کئے ہیں اور اس طرح یہ دونوں فیصلے عدالت کا اکثریتی فیصلہ بن گئے ہیں۔ چنانچہ پانچ میں سے تین ججوں کی آراء کی بنیاد پر عدالت نے طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قراردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بہر حال یہ واضح نہیں کہ اگرعدالت کے اس حکم کی اندیکھی کرتے ہوئے کوئی شخص تین طلاقیں ایک ساتھ دے تو اسکی قانونی نوعیت کیا ہوگی۔ ایک تشریح یہ کی جارہی ہے کہ طلاق ثلاثہ مطلقاً بے اثر ہوگی اور اس کے بعد بھی ازدواجی رشتہ بدستورقائم رہے گا۔ دوسری تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ ایسی طلاق عدّت کے خاتمے تک نافذ نہیں ہوگی۔ اس مدّت میں شوہر کبھی بھی اسے واپس لے کر ازدواجی تعلق برقرار رکھ سکتا ہے اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو عدّت گزر جانے کے بعد بھی فریقین حلالہ کے بغیر براہ راست تجدید نکاح کر سکتے ہیں۔

پروفیسر محمود کے مطابق ان میں سے پہلی تشریح تو بالکل نہیں مانی جاسکتی، دوسری ہی کو قبول کئے جانے کی گنجائش ہے مگر دینی حلقے شائد اس سے بھی اتفاق نہ کریں۔ اس صورت حال میں جلد بازی بالکل نہیں ہونی چاہئے اور تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل تین عدد فیصلوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد کوئی رائے قائم کی جانی چاہئیے۔

عام آدمی پارٹی نے بھی کیا سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم

عام آدمی پارٹی نے تین طلاق سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے ۔ پارٹی لیڈر آشوتوش نے ٹویٹ کیا کہ ’’ عام آدمی پارٹی تین طلاق کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتی ہے ۔یہ تاریخی ہے ۔امید ہے کہ مسلم خواتین کو اب مزید پریشان نہیں ہونا پڑیگا ۔‘‘ سپریم کورٹ نے دو کے مقابلہ تین کے اکثریتی فیصلہ میں مسلمانوں میں ایک ساتھ تین طلاق کی روایت کو کالعدم ٹھہراتے ہوئے اسے غیر آئینی ،غیر قانونی اور باطل قرار دیدیا۔

 ٖفیصلہ صنفی مساوات کی جانب ایک بڑا قدم: مینکا گاندھی

خواتین و اطفال کی فلاح و بہبود کی مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے تین طلاق پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے آج کہاکہ یہ صنفی مساوات کی سمت ایک بڑا قدم ہے۔ محترمہ گاندھی نے یہاں نامہ نگاروں سے کہاکہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’یہ صنفی مساوات اور صنفی انصاف کی جانب ایک اور قدم ہے۔‘ سپریم کورٹ نے مسلم سماج میں ایک ساتھ تین طلاق دینے کے رواج کو غیرآئینی قرار دیا ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں چھ ماہ کے اندر قانون بنانے کو کہا ہے۔

کانگریس نے طلاق ثلاثہ کے خلاف فیصلے کو منصفانہ اور ترقی پسندانہ قرار دیا

 ایک ساتھ تین طلاق دینے کے معاملے پر آج کانگریس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی ، معقول ، منصفانہ اور ترقی پسندانہ قرار دیا ۔ یہاں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کل ہند کانگریس کے میڈیا انچارج رندیپ سورجے والا نے کہا کہ ’’ ہم طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں جو ایک ترقی پسندانہ فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے ہندستان میں مسلم خواتین کو مساوی حقوق کے حصول میں مدد ملے گی‘‘۔

مسٹر سورجے والا نے کہا کہ کھڑے کھڑے تین طلاق دینے کی قرآن و حدیث میں کہیں کوئی گنجائش موجود نہیں اور اسی بنیاد پر عدالت عظمی نے طلاق ثلاثہ کو غیر آئینی قرار دیا ہے ۔ کانگریسی رہنما نے امید ظاہر کی کہ سبھی پارٹیاں اس معقول اور منصفانہ فیصلے کوقبول کریں گی ۔ قبل ازیں عدالت عظمی کے متعلقہ فیصلہ پر اظہار خیا ل کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر کپِل سبل نے کہا کہ ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اس فیصلے سے عائلی قانون کو تحفظ فراہم ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ طلاق ثلاثہ سے نجات ملتی ہے۔ فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ترجمان منیش تیواری نے کہا کہ یہ ایک تعمیری اور ترقی پسندانہ فیصلہ ہے جس کا ہر صحیح الفکر آدمی کو خیر مقدم کرنا چاہئے۔

فیصلے پر بنگال کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا مختلف نظریہ

سپریم کورٹ کے فیصلے کا سی پی ایم نے خیرم مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اس لیے پر سیاسی بیان بازی اور مذہبی اشتعال انگیزی سے گریزکرتے ہوئے سماجی ناہمواری کے خاتمے کیلئے کوشش شروع کرنی چاہیے وہیں ترنمول کانگریس کے لیڈر و ممتا بنرجی کی وزارت میں لائبریری و ماس ایجوکیشن کے وزیر مولانا صدیق اللہ چودھری جو مغربی بنگال جمعیۃ کے صدر بھی ہیں نے کہا کہ مذہبی معاملات میں سپریم کورٹ کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے اور پارلیمنٹ مسلمانوں کے عائلی مسائل پر قانون سازی نہیں کرسکتی ہے۔

کلکتہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سی پی ایم پولٹ بیورو کے ممبر محمد سلیم نے کہا کہ پارٹی پولٹ بیورو کی جانب سے اس پر باضابطہ بیان جاری ہوگا ۔مگر جہاں تک سپریم کورٹ کے فیصلے کا سوال ہے تو اس میں کوئی بھی نیا پن نہیں ہے۔2002میں بھی سپریم کورٹ نے اس طرح کی بات کہی تھی ۔

محمد سلیم نے کہا کہ طلاق بدعت کا مسلم سماج میں بہت ہی کم رواج ہے اور یہ جہالت ، ناخواندگی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔اس لیے یہ مسئلہ مکمل طور پر سماجی ہے اس کو حل کرنے کیلئے سماجی طور پر کوشش کرنی چاہیے مگر افسوس ناک بات ہے کہ وزیر اعظم مودی اور ان کی سیاسی جماعت نے اس مسئلے کو سیاسی بنادیا اس کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے ۔اس کے ساتھ محمد سلیم نے کہا کہ مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے بھی اس مسئلے کو اپنی انا سے جوڑدیا تھا اور اس کا نقصان بھی مسلم سماج کو اٹھانا پڑاہے۔

دوسری جانب ممتا بنرجی کی وزارت میں مولانا صدیق اللہ چودھری نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متضاد ہے ۔کیوں کہ ایک طرف عدالت نے خود کہا ہے کہ مسلم پرسنل میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور وہ بالکل محفوظ رہے گا۔مگر دوسری طرف تین طلاق کے عدم وقوع کا فیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم ہے کہ ترنمول کانگریس کا کیا موقف ہے مگر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ افسوس ناک اور شریعت میں مداخلت کی راہ ہموار کرنے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو مسلمانوں کے شرعی مسائل سے متعلق کوئی قانون بنانے کا حق نہیں ہے ۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس ذہنیت کی سخت تنقید کی کہ پاکستان کی مثال باربار کیوں دی جاتی ہے ۔جب کہ پاکستان اور ہندوستان دو الگ ممالک اور ان کے اپنے قوانین ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

کلکتہ کی تاریخی ٹیپو سلطان مسجد کے سابق امام مولانا نورالرحمن برکتی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر معمولی اور منفرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے مسلم سماج کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور شریعت میں مداخلت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم سماج میں طلاق کی شرح بہت ہی کم ہے اور یہ بات صحیح ہے کہ طلاق بدعت ایک غیر شرعی عمل ہے اس لیے مسلمانوں کو سوچ سمجھ کر طلاق دینا چاہیے۔

معاشرتی انصاف رخی فیصلہ  : مختار عباس نقوی 

 اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے طلاق ثلاثہ (طلاق بدعت) پر سپریم کورٹ کے معاشرتی انصاف رخی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے آج کہا کہ اس معاملے کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ معاشرت سے ہے اور مرکزی حکومت اس پرقانون سازی کے لئے تمام سیاسی جماعتوں سے بات کرے گی۔ مسٹر نقوی نے کہا کہ اس پر گزشتہ دو برسوں سے قومی بحث چھڑی ہوئی تھی اور آج عدالت نے اپنے تاریخی فیصلے میں اس رواج کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی حکومت اصلاحات کی حکومت ہے۔ یہ حکومت اس سماجی برائی کی ابتدا سے مخالفت کرتی آئی ہے اوراس نے ہمیشہ صنفی مساوات کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا، “ہمیں سماجی برائیوں کے خلاف سخت رویہ نہیں بلکہ اصلاح پسندانہ رخ اپنانا چاہیے۔” مسٹر نقوی نے کہا کہ پہلے بھی ستی رواج اور بچوں کی شادی جیسی سماجی برائیوں کے خلاف سدھار کے کام ہوئے ہیں۔

 زمینی طور پرعمل کرنا ایک مشکل کام ہوگا : اسد الدین اویسی

حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ و صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین بیرسٹر اسد الدین اویسی نے طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ طلاق ثلاثہ پرسپریم کورٹ کے فیصلہ پرعمل کرنا مشکل کام ہے۔انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس فیصلہ کا احترام کرناچاہئے تاہم زمینی طور پراس فیصلہ پرعمل کرنا ایک مشکل کام ہوگا۔انہوں نے کہاکہ سماج میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے اور مسلم پرسنل لابورڈ کا آئندہ اجلاس اگلے ماہ بھوپال میں ہوگا جس میں عدالت عظمی کے فیصلہ کا جائزہ لیاجائے گا۔

 انہوں نے کہاکہ عدالتی فیصلے اور قوانین ہمیں بتاتے ہیں کہ سماج میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ اب کئی عملی مشکلات سامنے آئیں گی۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا عدالتیں سماجی اصلاحات لائیں گی جس کا کام مسلم پرسنل لا بورڈ زمینی طورپر کر رہا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آج کے فیصلہ پر ان کے یہ ریمارکس ان کی پارٹی کے ہیں نہ کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کایہ فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں ہوا ہے۔

اسد اویسی نے کہاکہ اس مرحلہ پر اسے کامیابی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ پرسنل لاکو عدالت کے دائرہ کار میں نہیں لایا جاسکتا ۔صدر مجلس نے کہا کہ بنیادی حقوق کے دائرہ میں پرسنل لاکو چیلنج نہیں کیاجاسکتا ۔بی جے پی حکومت اگرچہ کہ اس فیصلہ کا استقبال کر رہی ہے،تاہم حکومت چاہتی تھی کہ تمام طرح کی طلاق کا خاتمہ کیاجائے تاہم سپریم کورٹ نے اس کو قبول نہیں کیا ۔انہوں نے استفسارکرتے ہوئے کہاکہ اگر کوئی خاتون یہ کہے کہ اسے طلاق ثلاثہ دی جائے تو کیا کیاجائے؟صد رمجلس نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیاہے کہ پرسنل لاکو بنیادی حقوق کے دائرہ میں چیلنج نہیں کیاجاسکتا تاہم حکومت کی دلیل ہے کہ اس کو بنیادی حقوق کے دائرہ میں چیلنج کیاجاسکتا ہے۔

 انہوں نے کہاکہ مسلم پرسنل لابورڈ نے پہلے ہی مسلمانوں سے خواہش کی ہے کہ وہ ایک ہی نشست میں تین طلاق نہ دے ۔انہوں نے رائے کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے یا قوانین سے مطلوبہ اثر نہیں پڑے گا۔ہمارے ملک میں بچوں کی شادیوں کے خلاف قوانین ہیں تاہم تقریبا ایک کروڑبچوں کی شادیاں ہوتی ہیں ، اسی لئے میںیہ محسوس کرتا ہوں کہ قوانین یا عدالتی فیصلے سنانے سے سماج میں انقلابی تبدیلی نہیںآئے گی۔ اسد اویسی نے کہا کہ سال 2002میں عدالت نے طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دیا تھا اور اس پر ثالثی کی ضرورت کو اجاگر کیا تھا۔پھر ایک مرتبہ عدالت نے اس سلسلہ میں فیصلہ دیا ہے ۔انتظار کریئے اور دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کئی بندھنوں میں بندھی ہوئی ہے۔وہ یکساں سیول کوڈ کی بات کرتی ہے۔

ناگامعاہدہ کو حکومت عوام کے سامنے کیوں نہیں لاتی ۔ناگالینڈ اور میزورم والوں کو دستوری طورپریہ حق دیاگیا ہے کہ ان کے ثقافتی حقوق میں حکومت مداخلت نہیں کرے گی۔ملک کی قبائلی ایجنسیوں کے قوانین علاحدہ ہیں ، ان کا کیا ہوگا۔دراصل حکومت اس ملک کو ہندو راشٹرا بنانا چاہتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہندوستان ایک متنوع ملک ہے ۔یہاں یکساں سیول کوڈ کام نہیں کرے گا۔سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے فیصلہ کو بی جے پی کی جیت کے دعوی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ یہ اس کی کامیابی نہیں ہے کیونکہ یہ فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں ہوا ہے۔

Categories: خبریں

Tagged as: ,