حقوق انسانی

سُنیل یادو کی کہانی : میلہ ڈھونے والے سے پی ایچ ڈی اسکالر تک کا سفر

ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائسز (ٹی آئی ایس ایس)، ممبئی  سے پی ایچ ڈی کرنے والے سُنیل یادَو دِن میں پڑھائی کرتے ہیں اور رات میں صفائی ملازم کا کام کرتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر امبیڈکر کو اپنا ماڈل اور پڑھائی کو بدلاؤ کا اوزار مانتے ہیں۔ انکا کہنا ہے ، “میں گندگی  ڈھوتا ہوں لیکن گندگی  ڈھونے والے کے طور پر مروں گا نہیں”۔ 

SunilYadav_TISS

برہن ممبئی شہری بلدیہ کے ‘ڈی وارڈ’ میں  ملازم سُنیل یادَو صفائی  ملازم کا کام کرتے ہیں۔ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائسز  (ٹی آئی ایس ایس)، ممبئی سے اسٹیٹ پالیسی اور صفائی ملازم موضوع  پر ایم فِل کر چکے ہیں اور اب انہوں نے ٹی آئی ایس ایس میں ہی پی ایچ ڈی میں بھی داخلہ لے لیا ہے۔وہ 2005 سے ہی شہری بلدیہ میں صفائی ملازم کے  عہدہ پر کام کر رہے ہیں۔ والِد کے بیمار ہونے  کی وجہ سے  اُن کی جگہ انہیں یہ نوکری ملی تھی۔ 37 سالہ سُنیل کی پیدائش  ممبئی مہالکشمی کے دھوبی گھاٹ میں ہوئی۔ سُنیل اب اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ ممبئی کے چیمبور میں رہتے ہیں۔ دن میں ایک ریسرچ اسکالر اور رات میں شہری بلدیہ کے صفائی ملازم کے طور پر  اپنے  خاندان  کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

سُنیل صفائی ملازموں کے مسائل اور صفائی کا کام کرتے ہوئے اپنی  تعلیم  کے بارے میں بتاتے ہیں، ‘ہم صفائی ملازموں کی عمر بہت چھوٹی ہوتی ہے، کیونکہ انہیں مناسب وسائل نہیں ملتے، جس سے صفائی کے دوران وہ اپنی صحت کی حفاظت کر پائیں۔ میرے والد صاحب بھی یہی کام کرتے تھے۔ وہ بیمار ہوئے تو اُن کی جگہ مجھے یہ نوکری مل گئی تھی۔ اس وقت میں 10ویں فیل تھا۔میں نے نوکری تو لے لی مگر یہ بھی فیصلہ لیا کہ مجھے آگے پڑھنا ہے۔ میں نے یَشونت راؤ یونیورسٹی سے 2005-80 میں بی کام کیا اور پھر تِلک مہاراشٹر پیٹھ سے سماجی  سائنس  میں ایم اے کیا۔ میری یہ تعلیم  فاصلاتی طریقہ سے ہوئی تھی، کیونکہ میں اس وقت بھی بطور صفائی ملازم کام کرتا تھا۔

ٹی آئی ایس ایس میں پڑھتے ہوئے اب سُنیل مردانہ  معاشرے کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی  تعلیم  کے دوران یہ مانتے ہیں کہ خواتین کو لےکر معاشرہ غلط پالیسیاں اپناتا آیا ہے۔ انہوں نے اِس کی ابتدا ء اپنے گھر سے کی ہے۔ وہ خاتون صفائی ملازموں کو لےکر بہت فکر مند رہتے ہیں اور اُن کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔

خواتین پر سُنیل کہتے ہیں، ‘خاتون صفائی ملازم جو ہاتھوں سے کُوڑا اور گندگی اٹھانے کا کام کرتی ہیں، مجھے لگتا ہے اُن کی زندگی میں تبدیلی  آنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ آج بھی خواتین کو دوسرے درجے کا شہری مانتا ہے۔ اس غیر انسانی کام میں سب سے زیادہ بیوہ خواتین ہیں۔ اُن کا جسمانی، معاشرتی اور اقتصادی طور پر استحصال ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے اگر خواتین کو زیادہ پڑھایا جائے تو وہ یقیناً معاشرہ کو بدلنے کا دم رکھتی ہیں۔ ایک مرد کو پڑھاؤگے تو وہ صرف خود کے کام آئےگا، لیکن جب ایک خاتون پڑھتی ہے، تو وہ پورے  خاندان  اور معاشرے کو بدلتی ہے۔ میری بیوی بھی 12ویں پاس تھی، جب ہماری شادی ہوئی تھی۔ میں نے اُسے ممبئی یونیورسٹی سے سماجی  سائنس  میں بی اے کروایا اور اب وہ وکالت کی پڑھائی کر رہی ہے۔ آج وہ بھی معاشرے کو بدل سکتی ہے اور اسے کسی کی ضرورت نہیں۔ وہ خود اپنی جنگ لڑ سکتی ہے۔’

سنیل نے دراصل ٹی آئی ایس ایس سے ہی گلوبلائزیشن اور مزدوروں کے موضوع پر ایم اے کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جب وہ نِرملا نِکےتن سے ڈِپلوما کر رہے تھے، تب وہیں کے کچھ لوگوں نے انہیں ٹی آئی ایس ایس میں داخلہ لینے کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ دن میں ریسرچ اسکالر اور رات میں مینوال اسکیوینجر کے طور پر دوہری زندگی پر وہ کہتے ہیں، ‘میں اصل میں دو زندگی جی رہا تھا۔ میں ٹی آئی ایس ایس کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ ملک میں ایسے اداروں کے ماحول کی بہت ہی ضرورت ہے۔ مجھے ٹی آئی ایس ایس کے بہت سارے پروفیسر اور ہمارے ڈایریکٹر نے بہت مدد کی۔ یہاں سماجی انصاف کو لےکر لوگ بیدار ہیں اور امتیازی سلوک میں یقین نہیں کرتے۔ لیکن ادارہ کے باہر میں الگ تھا، میں وہاں ریسرچ اسکالر نہیں بلکہ ‘مینوال اسکَیوینجر’ تھا۔ جو کُوڑا اور گندگی اٹھانے کا کریہہ کام کرتا ہے۔ ٹی آئی ایس ایس میں عزّت مِلتی ہے اور باہر گالیاں۔ سماج کے لوگ احساس کمتری سے دیکھتے ہیں اور ٹی آئی ایس ایس میں عزّت و احترام  سے۔ میں یہ مانتا ہوں یہ  طاقَتیں یہاں کے پروفیسر اور طلباء سے ہی ملتی ہیں۔’

سنیل کے مطابق برہن ممبئی شہری بلدیہ کے افسر بھی اُن کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتے تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کی ذات کو لےکر بہت سارے افسروں میں احساس کمتری تھی۔ بطور شہری بلدیہ ملازم کے طور پر جب اُن کے افسروں کو اُن کے پی ایچ ڈی والی بات  معلوم ہوئی تو ان کا برتاؤ بدل چکا تھا۔ افسر ہمیشہ اُسے کہا کرتے تھے کہ پڑھائی سے اُسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ سُنیل افسروں کے اس رویے اور برتاؤ  پر کہتے ہیں، ‘میرے محکمہ کے افسروں کو جب یہ بات  معلوم ہوئی ، تو یہ اُن کے لئے چونکا دینے والی بات تھی۔ بہت سارے افسر، یہاں تک کہ آئی اے ایس لیول کے افسر بھی میرا مذاق اُڑاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر تُو پڑھ لےگا تو صفائی اور کُوڑا کچرا اُٹھانے کا کام کون کرےگا۔ میں نے محکمہ کو مطلع کیا تھا کہ میں اعلیٰ تعلیم لے رہا ہوں لیکن وہ لوگ صرف میرا مذاق بناتے تھے اور مجھے کبھی بھی اسٹڈی لیو نہیں دی۔ میں نے جب اِس کی وجہ آرٹی آئی کے ذریعے پوچھنے کی کوشش کی تو اُنہوں نے جواب دیا کہ صفائی ملازموں کو اسٹڈی لیو نہیں مِلتی۔ جِس  کی وجہ سے  میں رات میں صفائی ملازم کا کام کرتا تھا اور دن میں پڑھائی۔ جہاں محکمہ کو مجھے حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تھی، وہاں مجھے صرف مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

شہری بلدیہ میں صفائی ملازموں کے موجودہ حالات پر سُنیل کہتے ہیں، ‘ہمارے شہری بلدیہ  میں 28000 صفائی ملازم ملازمت کرتے  ہیں اور ہر سال 23 صفائی ملازموں کی موت ہو جاتی ہے۔ سرکار تحفظ کے ساز و سامان  مہیا نہیں کراتی، جِس  کی وجہ سے  بھاری تعداد میں صفائی ملازم بیمار رہتے ہیں اور اُن میں سے کئی کی تو موت ہو جاتی ہے۔ سرکار ہماری کوئی مدد نہیں کرتی ہے۔ بیرون ملک سے صفائی کے لئے جدید آلات لانا چاہئے پر سرکار تو صرف ٹھیکہ رواج کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ ہمارے بی ایم سی میں تقریباً 10000 ٹھیکے پر کام کرنے والے صفائی ملازم ہیں اور اُن کی بھی حالت اسی طرح ہے۔ ہماری موتوں سے نہ سرکار کو فرق پڑتا ہے نہ ہی میڈیا کو یہ چیز دِکھتی ہے۔’

سُنیل دَلِت برادری سے آتے ہیں۔ ریسرچ اسکالر ہونے کے باوجود ذات پات کے نظام  اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل  کرنےکی وجہ سے  اُنہیں تھوڑی بہت عزّت مِلی، لیکن وہ سماجی برابری نہیں ملی جو ہر شخص کو مِلتی ہے۔ اُن کی جدوجہد کے بیچ ہمیشہ اُن کی ذات آ جاتی تھی۔ جب انہوں نے آواز اٹھانے کی کوشش کی تو اعلیٰ برادری والے تو مذاق بناتے تھے، لیکن اُن کے خود کے برادری والے بھی اُن کا مذاق کرنے میں پیچھے نہیں تھے۔ اپنی باتوں میں باربار امبیڈکر اور پھولے کی بات کرنے والے سنیل اپنی اس کامیابی کے پیچھے ٹی آئی ایس ایس کے ماحول اور وہاں کے استاد اور طلباء کی بھی شراکت مانتے ہیں۔

سُنیل ذات پات کے نظام کو لےکر کہتے ہیں، ‘یہ سچ ہے کہ میں آج ریسرچ اسکالر ہوں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ میں ایک صفائی ملازم ہوں اور دَلِت برادری سے آتا ہوں۔ میرے اس پورے سفر میں ہر دن مجھے یہ احساس دلایا جاتا تھا کہ میری پہچان کیا ہے۔ یہاں تک کہ میرے برادری کے ہی لوگ میرا مذاق بناتے تھے کہ میں پاگل ہوں، پڑھ لِکھ کر کیا کروں گا۔ ہماری کِتنی نسلیں اسی کام کو کرتے کرتے مر گئی اور کئی لوگوں کو تو عادت ہو گئی اور  محض  تبدیلی  کی بات سے  ہی وہ گھبرا جاتے ہیں۔ میں نے جب ٹی آئی ایس ایس میں ایم اے میں داخلہ لیا تو مجھ پر کئی طرح کے سماجی دباؤ  بنانے کی کوشش کی گئی کہ میں  تعلیم  چھوڑ دوں لیکن مجھے صرف بابا صاحب امبیڈکر، جیوتبا پھولے اور ساوِتری بائی پھولے کی یاد آتی ہے۔ اُن کی جدوجہد کو جب یاد کرتا ہوں تو بہت طاقت مِلتی ہے کہ اِس سماج کو بدلنا ہے۔ میں یہ احساس کمتری والے خیال کو ختم کر دینا چاہتا ہوں۔’

سُنیل ایک 10ویں فیل شخص تھے، جنہیں اُن کے والِد کی جگہ پر صفائی ملازم کی نوکری ملی تھی۔ لیکن تب کے سُنیل اور اب کے سُنیل میں بہت فرق ہے۔ وہ اب زیادہ کھُل کے بات کرتے ہیں۔ پہلے جہاں وہ ایک معمولی کلَرک سے بات کرنے سے ڈرتے تھے۔ شہری بلدیہ کے کمشنر اور میئر سے بھی سر اُٹھاکر بات کرتے ہیں۔ وہ اپنی پوری بات چیت کے دوران سب سے زیادہ تعلیم کی اہمیت کی بات کرتے ہیں۔ وہ باربار تعلیم کو تبدیلی  کا اوزار بتاتے ہیں۔

تعلیم پر ان کا کہنا ہے، ‘میں سمجھتا ہوں زندگی میں تعلیم کی بہت اہمیت ہے۔ میری ذات کی وجہ  سے ذلت  کو  برداشت پڑتا ہے، لیکن اسی تعلیم کی وجہ سے  آج مجھے عزّت بھی ملتی ہے۔ کئی لوگ میرا نام مثال کے طور پر بھی لیتے ہیں۔ بابا صاحب بھی کہتے تھے کہ تعلیم ہی ایک راستہ ہے زندگی میں کامیاب ہوکر سماج کو بدلنے کا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر تم پڑھوگے نہیں، تو زندگی میں آگے کیسے بڑھوگے؟ پُرانے نظام  پر سوال کیسے اٹھاؤگے؟ مجھے اُن سے بہت ترغیب ملتی ہے۔ آج میں تعلیم یافتہ ہوں اور اپنے اردگرد بھی لوگوں کو بیدار کر پا رہا ہوں۔’

اُن کی پیدائش ممبئی کے مہالکشمی کے دھوبی گھاٹ میں ہوئی۔ انہوں نے وہیں سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اُن کا علاقہ ممبئی انڈرورلڈ کی تاریخ میں سب سے اہم مقام رکھتا ہے۔ ممبئی کے مشہور مافیا اَرون گَولی اور داؤد ابراہیم کی تسلط کی لڑائی مہالکشمی کی سڑکوں پر بہت بار ہوئی ہے۔ لوگوں کا خواب ڈاکٹر یا افسر بنانے کا ہوتا ہے، لیکن ان علاقوں کی جھُگّیوں کے لڑکوں کا خواب ہوتا ہے صرف ڈان بننا۔ یہاں لوگ گولی اور داؤد کو رول ماڈل مانتے ہیں اور اِن کے اندر وہی جارحیت ہے۔

سُنیل نے اِس جارحیت کو کس طرح مثبت کاموں کے لئے استعمال کیا اور اپنا رول ماڈل کِسے چنا، اِس پر وہ کہتے ہیں، ‘میں ممبئی کے مہالکشمی علاقے میں پلا بڑھا اور وہ ممبئی کی ایسی جگہ ہیں، جہاں سے بہت سارے مشہور گینگسٹر ارون گَولی اور داؤد ابراہم جیسے لوگ نِکلے ہیں اور وہاں کے ہر بچے کا خواب ان کے جیسا بننا ہے۔ میرے اندر بھی اُسی جگہ کی وجہ سے جارحیت ہے۔ میں نے اُس جارحیت کو تعلیم کے لئے استعمال کیا اور ان لوگوں نے گولی اور داؤد کو رول ماڈل چنا اور میں نے باباصاحب امبیڈکر اور جیوتبا پھولے کو رول ماڈل چُنا۔’

انہوں نے اسی تعلیم کی وجہ سے  بہُتوں کی زندگیوں کو بدلا۔ اپنے گھر سےابتداء  کرنے والے سُنیل نے تعلیم کے اثرات کو کس طرح گھر کے اندر اور اردگرد استعمال کیا، اُس کے بارے میں بتاتے ہیں، ‘آج میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو  تعلیم دلائی  جو 10ویں فیل تھا۔ میں نے میری بھانجی کو پڑھایا جو آج اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں مینیجر ہے۔ میرے بہت سے رشتہ داروں کو میں نے گریجوئیشن کروایا۔ میرے کتنے سارے دوست ہیں، جو اب پڑھنا شروع کر چُکے ہیں۔ میری کلاس میں پڑھنے والے لوگ آج جرمنی اور برازیل میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ جو بھی کچھ ہوا اِس کے پیچھے کی ایک وجہ تھی بس تعلیم۔ یہ تعلیم کی ہی طاقت تھی، جِس کی وجہ سے بہت ساری زندگیوں میں بدلاؤ آیا ہے۔ آج میری خود اعتمادی  بہت بڑھ گئی ہے اور میں نے ناانصافی کے خلاف کسی بھی بڑے سے بڑے سرکاری افسر سے لڑ سکتا ہوں۔ میرے کتنے ساتھی ایک کلَرک کے سامنے سر جھُکا کر بات کرتے ہیں اور میں سر اُٹھاکر اُن سے بات کرتا ہوں۔’

آج انہیں کئی جگہوں پر  بطور اسپیکر بلایا جاتا ہے۔  کافی  عزّت ملتی ہے سیاسی پارٹی بھی اُنہیں شامل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن آج بھی صرف ایک چیز نہیں بدلی ہے، اندھیرا ہوتے ہی وہ ایک ‘مینوال اسکیوینجر’ ہیں۔ اسٹڈی لیو نہیں ملتی اِس لئے انہیں یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ ایسا  ناپسندیدہ اور کریہہ کام کون کرنا چاہےگا۔ سُنیل کو اپنے اس کام سے نفرت ہے اور انہیں بالکل اچھا نہیں لگتا لیکن انہیں یہ کام کرنا پڑتا ہے۔

سُنیل پی ایچ ڈی کے بعد کسی ذاتی صنعت میں کام نہیں کرنا چاہتے۔ نسل در نسل ایک ہی کام کی وہ مخالفت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کو  یکساں  مواقع  ملیں ۔ اُن کے اس بڑھتے قدم سے اُن کے محکمہ کے افسر بہت ہی گھبرائے ہوئے ہیں۔ اُن کے محکمہ نے ہر ممکن کوشش کی۔ انہیں جب اسٹڈی ٹور پر ساؤتھ افریقہ بھیجا جانا تھا، تب اُن کے افسروں نے انہیں نہیں جانے دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ ٹی آئی ایس ایس اور درج فہرست قبائل کمیشن کے دخل  اندازی کے بعد انہیں اسٹڈی ٹور پر جانے کی اجازت ملی تھی۔ وہ اپنے اس تجربہ کے بارے میں بتاتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ کس طرح سِسٹم کے ذریعے اُنہیں روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔

سُنیل کہتے ہیں، ‘میں یہ نہیں چاہتا کہ میں کوئی کمپنی جوائن کروں اور بہت پیسے کماؤں۔ میں اسی محکمہ میں رہنا چاہتا ہوں اور اِس کے اندر جو بُرائیاں اور غیر اِنسانی چیزیں در آئی  ہیں، انہیں بدلنا چاہتا ہوں ،ان کا  تدارک  چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک  میں لاکھوں لوگ یہی  ناپسندیدہ  کام کرتے ہیں اور ایک صفائی ملازم کے بیٹا یا بیٹی کو بھی وہی کام کیوں کرنا چاہئے؟ کیا اسے حق نہیں کہ وہ ڈاکٹر بنے، انجینئر بنے یا پھر آئی ا ے ایس بنے؟ یہ نسل پرستی ہمارے سِسٹم میں بیٹھی ہوئی ہے اور اسی سسٹم کے لوگ چاہتے ہیں کہ ہم جیسے لوگ تعلیم یافتہ نہ ہوں اور آگے نہیں بڑھیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم  نسل در نسل  یہی کام کرتے رہیں۔ میں نے محکمہ میں لیبر افسر کے عہدہ کے لئے درخواست  دی  تھی  اور ضرورت سے زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود مجھے وہ عہدہ نہیں دیا گیا۔ میں محکمہ کے اندر ذات پات کے نظام کی بات چھوٹے حکام کے  رویہ کی  نہیں کر رہا، بلکہ آئی اے ایس درجے کے افسروں کے بارے میں بتا رہا ہوں۔ مجھے ایک بار اسٹڈی ٹور پر ساؤتھ افریقہ جانا تھا اور جب میں نے چھُٹی مانگی، تو مجھے صاف منع کر دیا گیا تھا۔ میں نے اس کی شکایت درج فہرست قبائل کمیشن، دہلی میں کی۔ ٹی آئی ایس ایس اور کمیشن کے دخل کے بعد مجھے جانے کے لئے چھُٹّی مِلی۔ مجھے ایسا لگا کہ میرے محکمہ کا ہر افسر  یہی چاہتا تھا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بند کر دوں۔’کمیشن کے دخل اندازی کے بعد مجھے جانے کے لئے چھُٹّی مِلی۔ مجھے ایسا لگا کہ میرے  شعبہ  کا ہر افسر  یہی چاہتا تھا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بند کر دوں۔’

مینوال اسکیوینجنگ کو لے کر سُنیل کا ماننا ہے کہ یہ انسانی اقدار کی پامالی ہے۔ وہ پی ایچ ڈی کرکے بھاگنا نہیں چاہتے، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ طریقہ کار میں  تبدیلی لائی جائے ۔ وہ ٹھیکہ رواج کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بی ایم سی افسر انہیں سر درد کہہ کر بھی خطاب کرتے ہیں۔ وہ اب آر ٹی آئی کا بھی استعمال کرتے ہیں اور صفائی ملازموں کو لےکر بدعنوانی کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ انہوں نے ٹھیکہ رواج اور مینوال اسکیوینجنگ کو لے کر وزیر اعظم  نریندر مودی کو بھی خط لکھا ہے، لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ محکمہ کے افسر ان کے بڑھتے قدم کی وجہ سے ، انہیں  لوگ پاگل بھی کہتے ہیں۔

سُنیل کے مطابق ممبئی میں 20 کارپوریشن کا رکن (کاونسلر) ان صفائی ملازموں کے ووٹوں سے جیت کر آتے ہیں، لیکن کوئی کام نہیں کرتے۔ اُن کا ماننا ہے کہ اگر پورے ہندوستان  میں کروڑوں لوگ مینوال اسکیوینجنگ اور صفائی ملازم کے طور پر کام کر رہے ہیں، تو اُن کا ایک ایم ایل سی یا راجیہ سبھا رکن بھی ہونا چاہئے۔ یہ سبھی  پارلیمان کے اندر ہمارے مسائل کے لئے کام کر سکتے ہیں۔

سُنیل کہتے ہیں،’میں چاہتا ہوں کہ ہمارے  درمیان  یعنی جو صفائی ملازم تعلیم حاصل  کر چکے ہیں یا پھر اعلیٰ تعلیم لے رہے ہیں، اُن کو شہری بلدیہ کے کاؤنسل میں شامل کیا جائے۔ میں بیرون ملک بھی گیا ہوں اور وہاں میں نے اس کام کو آسان بنانے کے لئے جدید آلات کا استعمال دیکھا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں شہری بلدیہ کو ایک ماڈل بناکر دوں، جِس سے یہ غیر انسانی کام بند ہو جائے۔ ہمارے مسائل کو ہمارے  درمیان موجود  لوگ ہی زیادہ اچھے طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔ آج جب میں آر ٹی آئی کے تحت معلومات حاصل کرتا ہوں یا پھر صفائی ملازموں کے حقوق کے لئے خط لکھتا ہوں یا شکایت کرتا ہوں، لوگ مجھے پاگل  کہتے  ہیں اور مذاق بھی بناتے ہیں۔’

وہ آگے کہتے ہیں، ‘مجھے اِن باتوں سے فرق نہیں پڑتا، میں اِن کی  زندگی سدھارنے کے لئے کام کرتا رہوں گا۔ جو عزّت ایک انسان کو ملنی چاہئے وہ عزّت اور حق اِن کو بھی ملنا چاہئے۔ دو وقت کی روٹی تو جانور بھی ڈھونڈ لیتا ہے، لیکن انسان وہی ہے جو سماج کو بدلے اور پرانے نظام  پر سوال کھڑا کرے۔ میں چاہتا ہوں میری بیوی بھی وکیل بن کر سماج کی مدد کرے اور وہ خاتون ہے اور خاتون کا درد اچھے سے سمجھ سکتی ہے۔ ہم مرد تو صرف تسلّی دے سکتے ہیں۔

اپنے آپ کو امبیڈکر اور پھولے کا پیروکار ماننے والے سُنیل کا خاندان  بہت خوش ہے۔ اُن کے ساتھ کام کرنے والے صفائی ملازموں میں بھی اب اُن کا اثر بڑھنے لگا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ایک مینوال اسکیوینجر ہیں، لیکن بطور اسکیوینجر مریں گے نہیں۔