حقوق انسانی

پرائیوسی کے حق کی نگرانی ؟

پرائیوسی کے حق کوعام طور پر یوں سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک فرد کو اپنے نجی معاملات کو راز رکھنے کا حق دیتا ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی مداخلت کو ناجائز مانا جاتا ہے۔دنیا کے کئی ممالک میں یہ حق آئینی طور پر موجود ہے ۔

aadhaar-right-to-privacy-supreme-court-social

سپریم کورٹ کی نو ججوں کی آئینی بینچ نے اپنے ایک تاریخ ساز فیصلے میں متفقہ طور پرپرائیوسی کو بنیادی حقوق کے زمرے میں شامل کر لیا ہے ۔ وکلا اور سول سوسائٹی نے عام طور پر اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ مرکزی حکومت نے بھی کورٹ میں دیے گئے اپنے سابقہ بیانات سے کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے  فیصلے سے اتفاق کیا ہے۔

پرائیوسی کو بنیادی حقوق کی فہرست میں شامل ہونا اہم بات کیوں ہے؟ اور  اس کے کیا معنیٰ ہیں؟ اس پر  کوئی بھی تبصرہ  کرنے سے پہلے بعض بنیادی باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔مثلاً قانونی طور پر پرائیوسی کے حق کا کیا مطلب ہے ؟ سپریم کورٹ میں اس  معاملے کی سماعت کی ضرورت ہی کیوں پڑی ؟ اس  حدود کیا ہیں؟

2012 میں سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کےآدھار کارڈ سکیم کو غیرآئینی  بتاتے ہوئے چیلنج کیا گیا تھا۔آدھار کارڈ کی مخالفت کی وجوہات میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ در حقیقت پرائیوسی  کے حق کی نفی کرتا ہے۔اس کے جواب میں حکومت کا موقف یہ تھا کہ ہندوستانی آئین میں پرائیوسی  کا کوئی حق ہے ہی نہیں۔ ایم پی شرما اور ستیش چندرامعاملے میں سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کی  بینچ نے  یہ تسلیم کیا ہے۔اس کے برعکس مینکا گاندھی اور یونین اآف انڈیا والے معاملے کے علاوہ بعد کےفیصلوں میں عدالت نے پرائیوسی  کے حق کو الگ الگ پس منظر میں تسلیم کیا ہے۔ان باتوں سے حتمی طور پر نپٹنے کے لیے چیف جسٹس جے.ایس.کیہر نے نوججوں کی آئینی  بینچ کی تشکیل کی۔

قابل غور ہے کہ یہ فیصلہ پرائیوسی  کے حق کو لے کر ضرور آیا ہے لیکن ابھی اس فیصلے کا کوئی اثر آدھار کارڈ اسکیم پر نہیں پڑا ہے۔آئندہ  دنوں میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں آئینی بینچ آدھار کارڈ والے معاملے کی سماعت کرے گی ۔

پرائیوسی کے حق کوعام طور پر یوں سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک فرد کو اپنے نجی معاملات کو راز رکھنے کا حق دیتا ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی مداخلت کو ناجائز مانا جاتا ہے۔دنیا کے کئی ممالک میں یہ حق آئینی طور پر موجود ہے ۔ بین الاقوامی قانون میں بھی اسے بنیادی حقوق  کا درجہ حاصل ہے۔ ہندوستانی آئین  میں رازداری کا حق تذکرہ واضح طور پر نہیں کیا گیا  ہے۔ لیکن آئین میں موجود حقوق کی تشریح میں اس پر روشنی پڑتی ہے ۔بالخصوص آرٹیکل 21 کے لحاظ سےسپریم کورٹ نے اس کی تشریح کی ہے کہ ہر فرد کو محض زندہ رہنے کا ہی نہیں بلکہ باوقار زندگی جینے کا حق بھی حاصل ہے۔

 موجودہ معاملے میں دیگر قانونی امور کے علاوہ ایک بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا ایک باوقار زندگی جینے کہ لئے اور آئین  میں شامل حقوق اور آزادی سے مستفیض ہونے کے لیے پرائیوسی کا حق ضروری ہے یا نہیں۔سپریم کورٹ نے پچھلے فیصلوں کی نفی کرتے ہوئے یہ کہا کہ  آزادی کے ساتھ ایک باوقار زندگی جینے کے لئے پرائیوسی  بہت ضرروری ہے۔آپ  اپنی ذاتی زندگی میں کیا کرتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، کس سے ملتے ہیں یہ کیا پہنتے ہیں۔ کس کو پسند کرتے ہیں ان سب میں  مداخلت کرنے کا حق حکومت کو نہیں ہے۔

آئین میں موجود کسی بھی حق کی طرح پرائیوسی کا حق مطلق نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس کے حدود کا تعین تو نہیں کیا ۔لیکن اس ضمن  میں متوقع کسی بھی پہلو کو نشان زد کرتے ہوئے ان  تین شرطوں کو پورا کرنا ہوگا:

  1. کوئی بھی مداخلت جائز قانون کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے. یعنی کہ حکومتی ایجنسیوں کی طرف سے کسی بھی طرح کی مداخلت سے پہلے حکومت کو پارلیمنٹ سے نیا قانون لانا پڑے گا، اور کسی بھی قانون کی طرح اسے بھی “منصفانہ اور مناسب” ہونے کی شرائط پار کھرا اترنا ہوگا۔
  2. اس قانون میں مداخلت کی وجہ اور ضرورت صاف طور پر بیان کرنی  پڑے گی ۔
  3. مداخلت کے طریقے اور اس کے بیان کے مقاصد میں تناسب ہونا چاہیے۔

کورٹ نے دور حاضر کے مسائل اور “digital age ” کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت کو شہریوں کی ذاتی معلومات کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم “data protection ” نظام کو تسلیم کرنا ہوگا۔کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ایسے کسی بھی نظام کو انفرادی حقوق اور اجتماعی ضرورت کے بیچ اعتدال رکھنا ہوگا۔ خاص طور سے قومی سلامتی اور تحفّظ اور سماجی بہبود کا خیال کرنا ہوگا۔

مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے اس تاریخی فیصلے کے باوجوپرائیوسی کے حق کے  اصل معنی مطلب سے ہم واقف نہیں ہیں۔ قابل غور بات  یہ ہے کہ پرائیوسی  کی حمایت میں دی جانے والی دلیلوں کے ساتھ ساتھ عدالت نے اس کے حدود کے تعین میں کافی گنجائش رکھی ہے، اور اس ضمن میں مداخلت کی جاسکتی ہے۔اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ اس فیصلے کی ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں۔

اس کیس میں بحث کے دوران حکومت کا ایک موقف یہ تھا کہ پرائیوسی در اصل ایک اشرافیہ تصوّر ہے، اور عوام کی زندگی میں اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے ۔اپنے فیصلے میں جسٹس ڈی.وائی.چندرانے کہا کہ آئین میں شہری اور سیاسی حقوق ہر فرد کو انفرادی طور پر حاصل ہیں، اور اس معاملے میں عوام اور خواص میں کوئی فرق یا تضاد نہیں ہے۔اپنے ذاتی معاملات میں رازداری کی ضرورت ہر ایک شخص کو ہے، اور اس کے فوائد بھی سب کے لئے یکساں ہیں۔