فکر و نظر

لوگ ڈیروں میں کیوں جاتے ہیں؟

روحانی قدروں اور باباؤں کی نجی کرشمائی اپیل کے علاوہ پنجاب کے ڈیرے اپنے پیروکاروں میں ایک طرح کے تحفظ کا احساس بھی بیدار کرتے  ہیں۔

فوٹو : ڈیرا سچّا سودا فیس بک پیج

فوٹو : ڈیرا سچّا سودا فیس بک پیج

لوگ ڈیروں میں کیوں جاتے ہیں؟ کسی عقیدت مند کے ڈیرہ جانے کے قدر واحساس کو کمتر کہے بغیر  یہ سمجھنا غلط نہیں ہوگا کہ اس جذبے میں  بعض بےحد دنیاوی چیزوں کو بھی دخل ہے ۔

ڈیروں میں جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہاں انسان کی منّت پوری ہوتی ہے۔اگر آپ کو اس میں مکمل اعتماد ہے تو آپ کی خواہش ضرور پوری ہوگی۔ بیٹے کا جنم ان خواہشوں میں سب سے اہم ہے۔ زراعت پر انحصار کرنے والے  پنجاب میں اندر تک پدریت کا غلبہ ہے۔اس لیے آج بھی وہاں نہ صرف پیدائش سے قبل جنسی جانچ کرنے والے کلینک خوب پھل پھول رہے ہیں بلکہ اس نے باباؤں اور ڈیروں کو بھی زندگی عطا کرنے میں مدد کی ہے۔یکساں طور پر ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ڈیرے کے گرو (پیر ومرشد)اپنے پیروکاروں سے ایک ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے کی مانگ کرتے ہیں۔ ان میں  سب سے دلکش ہے، شراب اور اس طرح کی نشہ آور چیزوں  کے ترک کرنے کی یقین دہانی ۔ تقریباً  تمام معاملات میں گھر کی عورتیں ڈیرا جانے کی ضد کرتی ہیں،اور اس بات کو روحانی طور پر اتنا مقدس مانا جاتا ہے کہ وہ اپنے شوہر اور گھر کے دوسرے مرد ممبروں کو بھی اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب رہتی ہیں۔

لیکن ایک بار جب وہ مکمل طریقے سے متاثر کر لیے جاتے ہیں، تو ان پر گرو سے ‘ نام ‘ لینے کے لئے زور ڈالا جاتا ہے۔ نام لینے کا مطلب ہے کہ اب عقیدت مند کو حلف لینی ہوتی ہے کہ  وہ نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزارے گا، جس میں شراب نہ پینا اور کچھ معاملوں میں اپنی ذاتی شناخت کو چھوڑنا بھی شامل ہے۔حالانکہ اس بات کو فیصلہ کن طریقے سے ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہے کہ  باباؤں کی بڑھتی مقبولیت کی وجہ سے  پنجاب کے دیہی علاقوں میں شراب اور ڈرگس کے معاملے میں کسی طرح کی کوئی واضح تبدیلی ہوئی ہے ۔

 روحانی قدروں اور باباؤں کی نجی کرشمائی اپیل کے علاوہ پنجاب کے ڈیرے اپنے پیروکاروں میں ایک طرح کے تحفظ کا احساس بھی بیدار کرتے  ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ایک قسم کا ذاتی رشتہ (پرسنل ٹچ) بھی رہتا ہے، جو مرکزی دھارا کے گرودواروں اور مندروں میں پوری طرح سے ندارد ہے۔ڈیروں پر مطالعہ کرنے والے جگروپ سنگھ کے مطابق، ‘ یہ ڈیرے اپنے پیروکاروں میں ایک قسم کی حفاظت اور اپنےپن کا تاثر بھرتے ہیں۔ ایک بار ڈیرے کے اندر داخل ہونے پر لوگوں میں اس طبقے کا حصہ ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ان کو کسی نہ کسی طرح یہ لگتا ہے کہ ڈیرا ایک حفاظتی جگہ ہے اور اس پر ہر کسی کا حق ہے۔ ان کو یہاں کوئی پریشان کرنے نہیں آئے‌گا۔ جب ہم اپنےآس پاس کے عدم تحفظ کے سیاق میں اس بات کو دیکھتے ہیں، تو یہ ایک اہم وجہ معلوم ہوتی ہے۔’

یہ ڈیرے اپنی فطرت میں غیر فرقہ وارانہ ہوتے ہیں۔ بھلے انہوں نے تقریباً ایک پنتھ  کا درجہ حاصل کر لیا ہے، پھر بھی یہ اپنے پیروکاروں پر کسی خاص عقیدے پر چلنے کے لئے زور نہیں ڈالتے۔ڈیرے سے ملنے والی پہچان، روایتی طور پر ایک اضافی پہچان ہے، جس سے اپنی پہچان چھوڑے بنا جڑا جا سکتا ہے۔ کوئی آدمی ہندو، سکھ یا مسلمان بنے رہ‌کر بھی ڈیرے کے بابا یا پیر کی دعا حاصل کر سکتا ہے۔ ایک عام عقیدت مند اپنےمذہب کی عبادت گاہوں میں بھی جاتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ ڈیروں میں بھی جا سکتا ہے۔ اس کے ایک سے زیادہ گرو بھی ہو سکتے ہیں۔باباؤں اور ڈیروں کی روحانی پہچان ‌کے باوجود یہ اکثر دنیاوی فکروں سے آزاد نہیں ہیں جیسے زمین، پیسہ اور طاقت۔ ان میں سے کچھ ڈیروں کے پاس کافی زمین ہے۔

گرداس پور کے دھیان پور گاؤں کے جس ڈیرے میں میں گیا، اس کے پاس 600 ایکڑ زمین تھی۔ سارے مقامی کاشت کار ڈیرا کے کرایہ دار تھے۔ اسی ضلع کے ایک دوسرے ڈیرے کے پاس مبینہ  طور پر 4،000 ایکڑ زمین تھی۔وہاں کے ایک باشندے نے بتایا، ‘ یہ ڈیرا ایک چھوٹی سلطنت کی طرح ہے۔ یہاں سے آپ کی نظر جہاں تک جاتی ہے، وہ ساری زمین ڈیرے کی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں کچھ مغل حکمراں نے زمین دی، اس کے بعد رنجیت سنگھ سے ہمیں زمین ملی۔ ‘رادھاسوامی اور سچّا سودا جیسے ڈیروں کے پاس اور زیادہ زمین ہوگی۔ ڈیرے کی زمین پر حدبندی قانون لاگو نہیں ہوتا ہے۔ رادھاسوامی ڈیرے کے پاس تو اپنا ایک حصول اراضی افسر ہی ہے۔ اور اگر ملک بھر میں ان کی توسیع کو دیکھا جائے تو اس کی جائیداد کتنی بڑی ہوگی، اس کا صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔غیر منقولہ جائیداد کے علاوہ ان ڈیروں کو زائرین کے چڑھاوے اور عطیہ سے بھی باقاعدہ کمائی ہوتی ہے۔ گرونانک دیو یونیورسٹی کے مؤرخ سُکھدیو سنگھ سوہال کہتے ہیں، ‘ ایک بار کسی ڈیرے کا نام ہو جائے تو پیسہ خودبخود آنے لگتا ہے۔ حالانکہ ان کے پیروکاروں میں زیادہ تعداد غریبوں کی ہے مگر زیادہ تر ڈیرے امیر ہیں۔ ‘

یہاں تک کہ کم مشہور ڈیروں کو بھی کافی عطیہ مل سکتا ہے۔ گرونانک دیو یونیورسٹی کی طالبہ دیوندر کور، جو ایک صوفی پیر بابا شیخ فٹّا کے ایک ایسے ہی ڈیرے پر اپنا مختصر تحقیقی مقالہ  لکھ رہی تھیں، نے اندازہ لگایا تھا کہ اس ڈیرے کی روز کی کمائی 1 لاکھ روپے ہے۔اس ڈیرے کا انتظام  مقامی رضاکاروں کے ایک گروہ کے ذریعے کیا جا رہا ہے، جو وقف بورڈ کو ٹھیکہ رقم کے طور پر 80 لاکھ روپے سالانہ چکاتا ہے۔ ڈیرے کا انتظام وانصرام کرنے کے ٹھیکے کی ہرسال نیلامی ہوتی ہے اور سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو اس کا ٹھیکہ دے دیا جاتا ہے۔

ان کے اقتصادی وسائل اور لوگوں پر اثر کو دیکھتے ہوئے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان ڈیروں نے ریاست میں سیاسی عمل کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ گرداس پور ضلع میں ڈیروں پر کام کر رہے ایک اور جانکار بھوپندر سنگھ ٹھاکر نے بتایا، ‘ حالانکہ ان میں سے زیادہ تر ڈیرے کھل‌کر کسی سیاسی پارٹی کی حمایت نہیں کرتے، لیکن یقینی طور پر وہ اپنی پسند سے پیروکاروں کو واقف کرا دیتے ہیں۔ ‘ریاست کے بڑے سیاسی بازیگر  باقاعدہ الگ الگ موقعوں  پر ڈیروں میں جاکر  باباؤں کا ‘ آشیرواد ‘ لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے باباؤں کے اندر ایک قسم کا  اقتداری ااحساس پیدا ہوتا ہے ۔

ان باباؤں کے بڑھتے ہوئے اثر سے مرکزی دھارا کی سکھ قیادت کافی فکرمند ہے، جو اپنی پہچان شرومنی گرودوارا پربندھک سمیتی (ایس جی پی سی) سے جوڑتا ہے۔ 19ویں صدی کے آخرمیں سکھ جلسہ تحریک کا ابھار اور 1920 کی دہائی میں گرودوارا سدھار تحریک، سکھوں اور ہم عصر پنجاب کی مذہبی تاریخ کے سنگ  میل مانے جاتے ہیں۔ ایس جی پی سی کی تشکیل کے ساتھ نہ صرف اس علاقے کے تاریخی گرودوارے ایک ہی ادارہ کے قابو میں آ گئے، بلکہ اس نے سکھوں کے لئے اخلاق / کوڈ کی بھی تعمیر کی ہے۔

اپنی مشہور مگر متنازعہ کتاب The Construction of Religious Boundaries میں ہرجوت سنگھ نے اس کوقواعد کی تبدیلی سے تعبیر کیا ہے۔ نوآبادیاتی تحفظ میں ابھرے سکھوں کے نئے اعلیٰ نسب طبقے نے عقيدہ کی نسبتاً آسان روایت کو ایک اچھی طرح منظم مذہبی انتظام میں بدلتے ہوئے سکھ دھرم کا ایک طرح سے نئی سماجی قواعد ہی بنا ڈالی۔

اس سے پہلے پنجاب کے کسان اور عام لوگ ایک ملاوٹی اور الگ الگ عقائد پر چلا کرتے تھے، جس کو کم آنکا جاتا تھا۔ لیکن  اس  تبدیلی کے بعد ایک نئی پہچان ابھر‌کر آئی، سکھوں نے خود کو ایک ایسے مذہبی طبقہ کے طور پر دیکھنا شروع کیا، جس کے پاس فخر کرنے کو اپنی خاص تاریخ، علامت، مقام اور روایتیں تھیں۔ اس کے بعد طرح طرح کی سرگرمیوں کے ذریعے یہ  طبقہ عقیدت مندوں کے روزمرہ کی زندگی  کی نئی تعریف گڑھنے میں کامیاب رہا۔اوبیرائے کی کتاب کی کافی تنقید اس بات کے لئے کی گئی کہ یہ نوآبادیاتی وقت میں ہوئی تبدیلیوں کو کافی بڑھاچڑھاکر دکھاتی ہے۔ چند لوگوں نے اس کو مذہب اور سکھ شعور کی توہین قرار دیا ۔

کیا مورخین نے نوآبادیاتی وقت میں پنجاب کے مذہبی جغرافیہ میں آنے والی تبدیلیوں کو لےکر جو نظریہ عائد کئے، وہ غلط تھے؟ کیا تکثیری روایات ناپید ہو گئیں یا کافی حد تک ان کا زوال ہو گیا؟یا ہمیں موجودہ وقت میں باباؤں اور ڈیروں کی مقبولیت کو مابعد جدید وقت میں مقبول عام مذہبیت کے نئے نظریے اور اشارے کے طور پر دیکھنا چاہئے کہ کمیونٹی لائف کے تیزی سے بکھرنے کی وجہ سے ڈیروں کی طرف  توجہ بڑھی ہے اور یہ فیشن میں آ گئے ہیں؟

کیا ہم ڈیروں کو ایک کھلی اور ذات پات سے مبرا جگہوں کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں دلت اور کسان کئی طرح کے تشددسے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور تھوڑی راحت کی سانس لیتے ہیں؟

کسی زمانے میں محرومین کی ناآسودگی اور عزائم کو آواز دینے والے سیکولر ادارہ اور سماجی تحریک آج پنجاب کی زمین پر نہیں دکھائی دیتی۔ پنجاب میں شاید ہی کہیں آپ کو کوئی شہری تنظیم یا کوئی این جی او ملے۔ بہت  ممکن ہے کہ ان حالات کے پس پردہ ان باتوں کو بھی دخل ہو۔

(سریندر ایس  جودھکا جواہرلال نہرویونیورسٹی میں  سوشیالوجی کے پروفیسر ہیں۔ یہ مضمون 2008 میں سیمینار میں شائع ایک مضمون کا ایک  اقتباس ہے۔)