فکر و نظر

خوف زدہ کون: جج، گرمیت رام رحیم یا ہریانہ سرکار

انتظامیہ پر ایسا خوف ضرور طاری تھا کہ سزا سنانے کے لیے مجرم کو عدالت میں نہیں لایا  گیا بلکہ جج جگدیپ سنگھ  کو روہتک کے سوناریا جیل میں جہاں تین دن قبل مجرم قرار دیے جانے کے بعد رام رحیم کو رکھا گیا تھا جانا پڑا اور اس کے حضور پیش ہو کر اسے بتانا پڑا کہ اسے کیا سزا دی گئی ہے۔

Dera-Lawyer-PTI 

جب سے سی بی آئی کی  خصوصی  عدالت کے  جج جگدیپ سنگھ  نے  ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ  گرمیت رام رحیم کو بیس سال قید  اور تیس لاکھ روپے  جرمانے کی سزا سنائی ہے میرے ذہن میں ایک تصویر رہ رہ کر ابھر رہی ہے،اور وہ تصویر ہے صدام حسین کی جب انہیں  پھانسی دی گئی تھی۔عموماً تختہ دار پر لے جا کر لٹکانے سے پہلے مجرم کے چہرے پر نقاب ڈال دیا جاتا ہے۔مگر صدام حسین نے وہ نقاب پہننے سے انکار کر دیا اور بے خوف موت کو گلے لگا لیا۔دلچسپ منظر یہ تھا کہ دو جلاد جو یہ کام انجام دے رہے تھے انہوں نے اپنے چہروں پر نقاب پہن رکھا تھا۔رام رحیم صدام کی طرح مضبوط اعصاب کے انسان تو نہیں کیونکہ خبر ہے کہ جب انہیں سزا سنائی گئی تو وہ رو پڑے اور تھوڑی دیر کے لیے ان پر غشی طاری ہو گئی۔البتہ انتظامیہ پر ایسا خوف ضرور طاری تھا کہ سزا سنانے کے لیے مجرم کو عدالت میں نہیں لایا  گیا بلکہ جج جگدیپ سنگھ  کو روہتک کے سوناریا جیل میں جہاں تین دن قبل مجرم قرار دیے جانے کے بعد رام رحیم کو رکھا گیا تھا جانا پڑا اور اس کے حضور پیش ہو کر اسے بتانا پڑا کہ اسے کیا سزا دی گئی ہے۔

در اصل یہ انتہائی قدم پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے حکم پر اٹھانا پڑا،اور اس کی وجہ یہ تھی کہ 25 اگست کو جب  رام رحیم کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا تو ڈیرہ کے پیروکاروں نے بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ مچائی جس کے نتیجے میں اڑتیس جانیں گئیں، ڈھائی سو سے اوپر لوگ زخمی ہوئے اور کروڑوں کی سرکاری و غیر سرکاری املاک تباہ ہوئیں۔  ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جج جگدیپ سنگھ  خوف زدہ تھے  کیونکہ وہ اپنی ہمت تو پہلے ہی دکھا چکے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹّر کی قیادت والی سرکار کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ہائی کورٹ نے  یہ غیر معمولی حکم دینے سے پہلے  بہت ہی سخت لہجے میں حکومت اور بر سر اقتدار بی جے پی کی سرزنش بھی کی تھی۔عدلیہ کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومت نے اندیشہ ہونے کے باوجود مناسب بند و بست نہیں کیا کیونکہ کھٹّر اور ان کی پارٹی کی ہمدردیاں رام رحیم کے ساتھ تھیں اور نظر اپنے ووٹ پر۔جج کو مجرم کے پاس جاکر سزا سنانے کی ہر طرف سے مذمّت ہو رہی ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ  ایک ایسی روایت قائم ہوئی ہے جس کی نظیر اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئی۔

ایک اور خبر جس سے ریاستی حکومت کی بے بسی اور خوف میں مبتلا ہونے کا پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ کھٹّر اور ان کے وزیروں کی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ سارے وزیر پچھلے کئی دنوں سے منظر سے غائب  ہیں کیونکہ  انہیں اپنی سلامتی خطرے  میں معلوم ہو رہی ہے۔یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ ریاست کا وزیر اعلیٰ جو ویسے ہی زبردست حفاظتی گھیرے میں رہتا ہے خود اپنی سیکورٹی کی طرف سے فکر مند ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے لیے ان کی پارٹی رام رحیم اور ان کے پیروکاروں سے جو مدد حاصل کرتی رہی ہے  اب ان کے برے وقت میں وہ  ان سے امید لگائے  بیٹھے ہیں جو عوامی دباؤ کے نتیجے میں ممکن نہیں۔ایسے میں  وزیروں کے پاس  منھ  چھپائے پھرنے کے سوا کیا  چارہ  بچتا  ہے۔

ہائی کورٹ نے ایک اور معاملے میں ہریانہ پولیس کی خبر لی ہے۔25 اگست کو جب رام رحیم کو سزا وار قرار دے کر انہیں پنچکلہ سے روہتک جیل روانہ کیا گیا تو ہیلی کاپٹر میں ان کے ساتھ ان کی گود لی ہوئی  بیٹی ہنی پریت انسان بھی تھیں۔عدالت نے پولیس سے سوال کیا ہے کہ وہ کس اختیار سے ان  کے ساتھ ہیں۔ہنی پریت کے بارے میں خبر ہے کہ جب رام رحیم پنچکلہ عدالت پہنچے تو وہ ان  کے ساتھ ہی آئیں تھیں۔ان کے ساتھ دواؤں سے بھرا ایک تھیلا تھا ،جس کو دکھا کر وہ عدالت سے یہ اپیل کر رہی تھیں کہ رام رحیم مریض ہیں لہٰذا  انہیں جیل نہ بھیجا جائے۔ان کی اس مداخلت کی وجہ سے تین ڈاکٹروں نے رام رحیم کا طبّی معائنہ کرکے عدالت کو یہ جانکاری  دی کہ وہ صحت مند ہیں۔ہنی پریت روہتک جیل پہنچ کر بھی رام رحیم کے ساتھ اس وقت تک رہیں جب تک وہ رات میں سونے نہیں چلے گئے۔اخبارات میں چھپی خبروں کے مطابق عدالت نے اس کا سخت نوٹس لیا ہے۔

رام رحیم کے بارے میں یہ طے  ہو چکا ہے کہ وہ ایک بدکار انسان ہیں۔عدالت نے انہیں ریپ کے معاملوں میں سزا سنائی ہے۔ ان پر اور بھی کئی طرح کے الزامات ہیں۔مگر ان کے پیروکاروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بہت سارے لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک مسخرہ دکھنے والا شخص جو کہ اب سزا یافتہ بھی ہے ہزاروں لاکھوں لوگ اس کے اس قدر دیوانے ہیں۔ان کے لیے عرض ہے کہ کچھ اسی طرح صدام حسین بھی بر صغیر کے مسلمانوں کے بیچ مقبول رہے ہیں۔1991  میں جس وقت کویت سے عراقی فوجوں کو نکالنے کی مہم چل رہی تھی بنگلہ دیش کا ایک الیکشن  اس نام پر لڑا گیا کہ کون سی پارٹی صدام کی زیادہ بڑی حمایتی ہے۔صدام کے ظالم،  بے رحم اور سفّاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ انہوں نے اپنے داماد تک کو موت کے گھاٹ اتارنے میں تامل سے کام نہیں لیا تھا۔اس کے باوجود ہندوستان میں بہت سارے مسلمانوں نے اپنے بچوں کا نام صدام رکھا اور مسلم علاقوں میں محلوں اور چوراہوں کے نام صدام سے منسوب کے گئے۔

( مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔ )