خبریں

پورے اعلیٰ تعلیمی نظام پر حملہ کیا جارہا ہے : انڈین ایسوسی ایشن آف وومین اسٹڈیز

انڈین ایسوسی ایشن آف وومین اسٹڈیز نے 23 اگست کو تقریباً  تمام ریاستوں میں یونیورسٹی اور کالج میں 163 ڈبلیو ایس سی کے وجود کی غیر یقینی اور دیگر گوں حالت پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے ایک کانفرنس منعقد کیا۔

Education

سماج میں وومین اسٹڈیز سینٹر کی خدمات کو یاد دلاتے ہوئے انڈین ایسوسی ایشن آف وومین اسٹڈیز نے بتایا کہ کس طرح سے  تحریک نسواں ایسی خواتین مخالف پالیسیوں سے جدو جہد کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ اس طرح کا حملہ صرف وومین اسٹڈیز ڈپارٹمنت پر نہیں ہے، بلکہ پورے اعلیٰ تعلیمی نظام پر ہو رہا ہے۔یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یو جی سی) نے 16 جون کو ملک بھر میں 163 وومین اسٹڈیز کومالی امداد جاری رکھنے میں تذبذب کا اظہارکرتے ہوئے ایک نوٹس جاری کیا۔ یہ تمام مراکز کئی سالوں سے مرکزی اسکیموں کے بجٹ پر چل رہے ہیں۔ جملہ  خدمات کے باوجود، خواتین کے لیے مخصوص مراکز، جامعاتی نظام  میں تعصب کے شکار ہیں اور حاشیے پر پڑے ہیں۔ان  مراکز کا قیام اور اس کو جاری رکھنے کا انتظام  یو جی سی کے ذریعے دئے گئے خاص تعاون اور حمایت کے ذریعے کیا جاتا رہا ہے۔ انڈین ایسوسی ایشن آف وومین اسٹڈیز کے اس کانفرنس میں گزشتہ سالوں میں اس طرح کے مراکز کی خدمات پر گفتگو کی گئی۔

اس کانفرنس میں خطاب کرنے والوں کی  طرف سے سماج اور پالیسیوں کو بنانے میں خواتین کے کردار کے بارے میں بھی بات کی گئی اور کہا گیا کہ یونیورسٹیوں میں خواتین کے مطالعہ کے لیے مخصوص  مراکزمیں  اضافہ ان کی بڑھتی ضرورت کی بنیاد پر کی گئی تھی۔یہ کانفرنس راجدھانی دلّی کے کنسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد  کیا گیاتھا۔ کانفرنس میں ایسوسی ایشن کی صدر ریتو دیوان، دیوکی جین، کمد شرما، مالینی بھٹّاچاریہ، مینا گوپال، میری جان، پیم راجپوت سمیت ملک کے مختلف ریاستوں کے دیگر صاحب فکر اساتذہ، طالب علم اور سماجی کارکن شامل ہوئے۔

خواتین کے مسائل  پر خصوصی مطالعے کی ضرورت ہمیشہ محسوس ہوتی رہی، لیکن  پہلی بار 1974 میں ہندوستان میں خواتین کی حالت پر تحقیق کے لئے بنی کمیٹی کی رپورٹ نے دکھایا کہ ہندوستان میں خواتین کی خودمختاریت اور ترقی کے نام پر بنی مختلف پالیسیوں کے باوجود زمین پر ان کی حالت کتنی خراب ہے۔اس ایسوسی ایشن کی ممبر دیوکی جین نے بتایا کہ کس طرح سے جو مسائل  سماج میں ان کو ضروری لگے، ان  کو کتابوں میں شامل کیا گیا اور ان کا استعمال پالیسیاں بنانے میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا خواتین کے لیے مخصوص مراکز ،وقت وقت پر  کمیشن سے بات چیت کر کےان کو صلاح دیتے رہے ہیں۔

اسی سیشن میں بتایا گیا کہ مراکز نے فیملی، مالیاتی نظام اور زرعی علاقوں میں بھی خواتین کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔دوسرے سیشن میں مراکزکےکردار پر گفتگو کی گئی۔ اس میں بتایا گیا کہ کس طرح سے تعلیم سے سماج  تک یہ لہر پہنچی۔ جیسے شاہ بانو کیس یا متھرا ریپ کیس جیسے اہم مسائل  پر جب مراکز نے روشنی ڈالی تو بہت سارے لوگوں نے اس کو سمجھا اور سماج میں اور لوگوں کو خبردار‌کیا۔ بہت ساری تحریکوں کو لوگوں کی مدد سے جیت بھی ملی ہے۔

تیسرے سیشن میں مراکز اور علیٰ تعلیم پر بحث کی گئی۔ اس سیشن میں بتایا گیا کہ خواتین کو ایک الگ طبقے کی شکل میں تو دیکھا جاتا ہے پر خواتین کے اندر ذات، طبقہ یا زبان کی بنیاد پر جو تقسیم ہے، وہ خواتین مطالعہ مراکز ہی روشنی میں آئے ہیں۔میری جان کہتی ہیں، ‘ ہمارا مقصد صرف خواتین مطالعہ مراکز کی اصلاح ہی نہیں بلکہ موجودہ دور میں پورے تعلیمی نظام میں اصلاح  ہونی چاہئے۔ خواتین مطالعہ مراکز کو اعلیٰ تعلیم میں درکنار کردیا گیا ہے۔

ایسوسی ایشن کی سابق صدر سومی کرشنا کے مطابق یو جی سی کے اس نوٹس کا ان مراکزپر بہت اثر پڑے‌گا۔اس سیشن میں آزاد تحقیقی مراکز میں مطالعے کی امید ظاہر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ یونیورسٹی کے امتیازی انتظام کی وجہ سے خواتین مطالعہ مراکز حاشیے  پر  ہیں۔اس موقع پر آئی اے ڈبلیو ایس نے کانفرنس میں موجود 170 سے زیادہ لوگوں کے دستخط لےکر یو جی سی کو میمورنڈم سونپتے ہوئے امداد کی شکل  میں 163 مراکز کی حمایت جاری رکھنے کی ااپیل کی ہے۔