حقوق انسانی

اب سیکولر دلیلوں سے مسلمانوں کو مارنے کی کوشش ہورہی ہے: پروفیسر اپوروانند

گجرات فساد (2002) میں منہدم عبادت گاہوں کے معاوضے کو لے کر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر پروفیسر اپوروانند کا تبصرہ

Apoorvanand

گجرات فساد (2002) میں عباد ت گاہوں اور مقبروں کے انہدام کے سلسلے میں ایک معاملے کی سماعت میں سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ سنایا ہے کہ سرکار منہدم مساجد اور مقبروں کی تعمیر نہیں کرائے گی ۔اس کی وضاحت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت ٹیکس دہندوں کا پیسہ معاوضہ کے لیے استعمال نہیں کر سکتی ۔حکومت اگر معاوضہ دینا چاہتی ہے تو وہ مذہبی مقامات کو عمارت مان کر نقصان کی تلافی کر سکتی ہے۔

کورٹ کے اس فیصلے پر دی وائر کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ کل کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سب کا دھیان جانا چاہیے۔اس فیصلے  میں عبادت گاہوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کو پھر سے بنانے کے لیے سرکار پیسہ نہیں دے گی ۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ آئین کے مطابق ٹیکس دہندوں کا پیسہ کسی ایک مخصوص مذہب کے لیے  خرچ نہیں کیا جاسکتا ۔یہ بہت عجیب و غریب فیصلہ ہے ۔

اس پر بات ہونی چاہیے ۔گجرات فساد میں تقریباً 500عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو تباہ کیا گیا ۔عبادت گاہیں  قدرتی آفات کی وجہ سے تباہ نہیں ہوئیں بلکہ اس کو لوگوں نے تباہ کیا۔گجرات فساد میں مسلمان مارے گئے گھر سے بے دخل ہوئے ،اسی سلسلے میں ان کی عبادت گاہوں پر بھی حملہ ہوا۔یہ سب گجرات حکومت کی کی نگرانی اور دیکھ ریکھ میں ہوا۔اسے روکنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ان مقدس مقامات  کو جب ڈھایا جارہا تھا تب صرف یہ عمارتیں  نشانے پر نہیں تھیں ،کہیں نہ کہیں ان کے ماننے والے زیادہ نشانے پر تھے۔

پروفیسر اپوروا نند نے بہت صاف لفظوں میں کہا کہ عبادت گاہیں نشانہ نہیں تھیں،ان میں عبادت کرنے والے مسلمان نشانہ تھے۔اس طرح کی عمارت کو گرانے کے پس پردہ نیت یہ ہوتی ہے کہ آپ اس کے ماننے والوں کو بے عزت کر رہے ہیں ۔ایک مسلمان یا ہندو خود ذاتی طور پراپنے لیے جتنی بے عزتی محسوس کرتا ہے شاید اس سے زیادہ اس کواس وقت بے عزتی کا احساس ہوتا جب ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا جاتا ہے۔1992 میں جب بابری مسجد گرائی گئی تھی۔اس وقت بھی ایک مسجد کو گرانے کے لیے نہیں گرائی گئی تھی یا ایک مندر بنانے کے لیے نہیں گرائی گئی تھی بلکہ اس ملک کے مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھانے کے لیے گرائی گئی تھی ۔یہی کام گجرات میں کیا گیا اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ جو آپ کے لیے پاک ہے وہ میرے لیے نہیں ہے ۔ان کا نشانہ دو تھے ایک عبادت گاہیں جن کو عمارت اور ڈھانچہ کہا جارہا ہے ،اور دوسرا مسلمان جو زندہ لوگ ہیں،وہ اس ملک کے اور گجرات کے معزز شہری ہیں ۔ جب یہ کہا گیا کہ ٹیکس دہندوں  کا پیسہ ان عبادت گاہوں کے لیے نہیں دیا جاسکتااوراس کے لیے جس طرح سے ایک سیکولر منطق مہیا کرائی گئی ،وہ ایک عجیب سی بات ہے ۔سیکولر منطق سے اب مسلمانوں کو مارا جارہا ہے ۔سپریم کورٹ نے اس پر دھیان نہیں دیا کہ ابھی کچھ وقت پہلے کیدارناتھ میں جو تباہی ہوئی تھی اور مندر کو بھی نقصان پہنچا تھا۔اس کو بنانے میں ٹیکس دہندوں  کا ہی پیسہ لگا تھا۔

گجرات (2002)کی ہی بات کر لیجیے تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے گھوم گھوم کر یہ بیان دیا تھا کہ انہوں نے بیچر جی مندر کے لیے جو پیسہ دیا ہے اس پر بہت لوگوں کو اعتراض ہے ۔اس میں وہ صاف طور پر کہہ رہے تھے کہ بیچر جی کے مندر کے لیے تو ٹیکس دہندوں  کا پیسہ لگایا جاسکتا ہے لیکن کسی مخصوص مذہب کے لیے اس پیسے کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔اب سپریم کورٹ نے کہہ دیا ہے کہ آپ معاوضہ دے سکتے ہیں، لیکن عمارت کے نام پر عبادت گاہوں کے نام پر نہیں ۔یہی سب سے بڑی پریشانی ہے ۔ہندوستانی سیکولر ازم میں مذہب کو باہر نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہندوستان اور ہندوستانی ریاستیں ہر دھرم کو یکساں طور پر عزت کے ساتھ دیکھا جائے گا۔

گجرات 2002 میں جو ہوا وہ صرف مسلمان مرد عورت اور بچوں کا قتل عام نہیں تھا بلکہ ان کو بے عزت کرنا اور سماج کی نظروں میں گرانا تھا،اور اس کے لیے ایک طریقہ یہ تھا کہ جن جگہوں کو وہ پاک سمجھتے ہیں ان کو تباہ کر دو۔سپریم کورٹ کو اس فیصلے پر پھر سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ فیصلے پر نظر ثانی کے لیے درخواست دی جائے۔اور اس سیکولر دلیل  کے خلاف دلیل پیش کی جائے ۔کیونکہ یہ بہت اہم ہے کہ اب اگر یہ ہونے لگا کہ آئین سے اس طرح سیکولر دلیلیں نکال کر  مسلمانوں کو بے عزت کیا جائے ،تو اس پر سب کو بات کرنے کی ضرورت ہے۔