فکر و نظر

موجودہ سیاسی حالات اور عید قرباں

ملک کے موجودہ حالات کے مدنظر تشویش اس بات کی ہے کہ کیا ماضی کی طرح مسلمان آسانی سے فریضہ قربانی ادا کرسکیں گے؟

indian_muslim_jama-masjid

اس وقت امت محمدیہ کے لئے سنت ابراہیمی کے ادا کرنے میں جو خدشات اور خطرات نظر آرہے ہیں وہ اس بات سے زیادہ اہم ہیں کہ اللہ بندے نے اللہ بندی کو طلاقِ حسنہ دی ہے یا طلاقِ بدعت! طلاق نکاح میراث ان سب کا تعلق مسلمانوں کی عائلی زندگی سے ہے عام مسلمانوں میں قرآن شریف اور حدیث کی روشنی میں وضع گئے اسلامی فقہی اصولوں میں بھی بہت زیادہ اختلاف نہیں ہے مگر عید الاضحی پر قربانی واجبات میں سے ہے اور ایک عبادت ہے اس پر کسی کو اختلاف نہیں ہے!

ملک کے موجودہ حالات کے مدنظر تشویش اس بات کی ہے کہ کیا ماضی کی طرح مسلمان آسانی سے فریضہ قربانی ادا کرسکیں گے؟جس وقت تحریکِ خلافت شباب پر تھی اور مہاتما گاندھی اور مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی شوکت علی  ہندو مسلم اتحاد کے لئے دن رات محنت کررہے تھے اس وقت کسی عقلمند نے گاندھی جی کو یہ بات سمجھائی کہ مسلمانوں کو ہندو بھائیوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ہر قسم کے بڑے جانور کی قربانی ترک کردینی چاہئے ۔اندنوں گاندھی جی بہار میں بکسر میں ایک جلسہ میں گئے ہوئے تھے مولانا محمد علی جوہر بھی ان کے ساتھ تھے۔ وہاں امارت شریعہ بہار کے بانی اورمولانا منت اللہ رحمانی کی پرورش کرنے والے مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحب بھی موجود تھے۔محمد علی جوہر نے گاندھی جی کے اس خیال کا تذکرہ مولانا ابو المحاسن سے کیا اور ان کی رائے مانگی۔مولانا مرحوم نے فرما یا قربانی مباح ہے اور سنت بھی ہے اور استطاعت رکھنے پر فرض کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔بڑا جانور کرنا مباح ہے (اس وقت  گئوکشی کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا) اور اگر نہیں کرنے پر اصرار کیا جائے تو پھر یہ مباح واجب ہو جائے گا۔ اس پر مولانا محمد علی جوہر نے گاندھی جی کو سمجھا یا کہ بڑے جانور میں سات لوگ شریک ہو کر قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں جب کہ اتنی ہی قیمت کے چھوٹے جانور بکرے وغیرہ میں صرف ایک کی ہی قربانی ہوتی ہے۔ اس طرح اگر بڑے جانور کی قربانی روکی گئی تو مسلمانوں کی کمزورمعیشت پر اور زیادہ بھار پڑے گا۔ یہ بات سن کر گاندھی جی نے اس خیال کا مزید پرچار نہیں کیا!

بہر حال آج گئو کشی کے خلاف قانون بنے سالوں گزرگئے ہیں۔ مسلمان اب صرف ان ہی صوبوں میں گائے کی قربانی کرتا ہے جہاں عام دنوں میں بھی گائے کاٹی جاتی ہے ورنہ سارے ملک میں بیل اور بھینس کی قربانی کی جاتی ہے کیونکہ سات لوگ مل کر بڑا جانور خریدتے ہیں اس طرح وہ سب کے سب استطاعتِ قربانی میں داخل ہو جاتے ہیں ہے چنانچہ ان کےلئے قربانی کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔ لیکن اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بجرنگ دل اور ہندو یوا واہنی کے ممبران کے تیوریاں ہم دیکھ رہے ہیں ۔ خاص طور پر اترپردیش میں وہ ہر قیمت پر مسلمانوں کو ہراساں کرنا چاہتے ہیں انہیں عبادت سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔مجھےاندیشہ ہے کہ عید الاضحی کے دن جہاں ان کا بس چل سکے گا وہ تناؤ پیدا کرنے اور جھگڑا کرنے کی کوشش ضرور کریں گے صرف اس لئے کہ پولیس اور سرکار کے ریکارڈ میں یہ اندارج ہو سکے کہ فلاں جگہ قربانی ہونے کے سبب فرقہ وارانہ تناؤپیدا ہو گیا تھا اس لئے مستقبل میں وہاں قربانی پر روک لگا دی جائے۔

یہ بالکل ویسا ہی جیسا محرم کے تعزیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ تعزیہ جلوس کے روایتی راستے پر جھگڑا کروا دیا جاتا ہے اور پھر پولیس امنِ عامہ کی دہائی لگا کر اس روایتی راستے سے محرم کے تعزیے گزرنے پر روک لگادیتی ہے۔یا دوردراز کے علاقوں کا استعمال ہونے والے قبرستانوں میں تدفین پر جھگڑا کرکے زمین کومتنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان کس طرح اس صورتحال کا سامنا کریں؟حال ہی میں چنائی ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ آیا تھا جس میں حکومت کو کھانے کی اشیاءپر قانونی روک لگا نے سے منع کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر اسٹے دینے سے انکار کردیا چنانچہ اس فیصلہ کو لیکر بعض حلقوں میں گائے کی قربانی پر روک پربحث چھڑی مگر ہمیں اب اس قضیہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ بلکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ فریضہ کو پر امن طور پر ادا کریں اور شرپسند عناصر کو کامیاب نہیں ہونے دیں ۔ اس لئے گائے کی قربانی قطعاً نہ کریں۔ ملکی قوانین کی پاسداری کرنا چاہئے اور دفع شر کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔

پہلی احتیاط تو یہ کیجئے کہ مشترکہ آبادی والے گاؤں میں اگر بیل یا بھینس کی قربانی کرنی ہے تو دس جگہ کے بجائے دو تین مقامات طے کر کے وہاں قربانی کی جائے تا کہ ہجوم کی کثرت رہے اور شرپسندوں کے حوصلے پست رہیں۔اگر بڑے قصباتی مکان ہوں تو اپنی چہار دیواری کے اندر نہ صرف اپنی قربانی کریں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی قربانی کی اجازت دیں۔ کسی بھی حالت میں سڑک کے کنارے اور چوراہوں پر قربانی نہ کریں ۔ بڑے قصبات اور شہروں میں بھی آبادی کے لحاظ سے اسی قسم کا نظم کریں۔

قربانی کی تمام جگہوں پر موبائل سے جانور کا فوٹو اور اس کی قربانی کے وقت کا فوٹو اور ویڈو ضرور بنالیں تا کہ آپ نے کوئی ممنوع جانور قربان نہیں کیا ہے آپ کے پاس اس کا ثبوت رہے۔ اگر کسی جگہ قربانی سے روکنے کے لئے شرپسندوں کی دھمکیاں مل رہی ہوں تو قربانی سے چند روز قبل تحریری طور پر دھمکیاں دینے والوں کے نام اور پوری نوعیت تحریر کر کے علاقہ کو پولیس تھانے ایس پی کے دفتر اور کلکٹر یا ڈ سٹرک مجسٹریٹ کے دفتر میں دے کے مہر شدہ نقل لے لیں تا کہ پولیس لا علم ہونے کا بہانہ نہ کرسکے! ایسا کرنے سے شرپسند وں کی ہمت بھی پست ہوگی۔لیکن کہیں بھی پولیس سے قربانی کرنے کی اجازت نہ مانگیں یہ آپ کا مذہبی حق ہے کہ قربانی کریں ۔ ایک دفعہ دفع شر کے لئے پولیس انتظامیہ سے اجازت مانگنا ہمیشہ کے لئے ان کی مرضی کا محتاج بنادے گی۔سنا ہے لونی میں بعض گاوؤں میں پولیس والے مسلمانوں سے قربانی کرنے کے لئے اجازت نامہ کی درخواست مانگ رہے ہیں۔

تاہم خاص طور پر جہاں کسی طرح بھی بڑے جانور کی قربانی نہ ہو سکے وہاں مسلمان بکرے کی قربانی کریں تا کہ اس گاؤں میں کسی بھی قیمت پر قربانی کا سلسلہ موقوف نہ ہو۔کیونکہ اگر ایک دو سال قربانی نہیں ہوئی تو پولیس اپنی رپورٹ میں دکھلادیتی ہے کہ اس گاؤں  میں کبھی قربانی نہیں ہوئی اس لئے اب آگے بھی قربانی کی اجازت نہ دی جائے! دیہات کے مسلمان بکریوں کی پرورش کو اپنے اوپر لازم کرلیں۔ آج کل بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس قسم کی باتیں کرنے لگے ہیں کہ قربانی کے بجائے اس رقم سے غریب کی مدد کرو۔یہ سراسر شریعت کی خلاف ورزی ہے جس میں صاحب استطاعت پر قربانی فرض کی گئی ہے صاف کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی کا گوشت یا خون نہیں جاتا بلکہ تمہارا تقویٰ جاتا ہے۔ البتہ اصرافی یانمائشی قربانی کے ہم سب خلاف ہیں جو لوگ لاکھوں اور ہزاروں کے کئی کئی بکرے خریدتے ہیں اور ان کی نمائش کرتے ہیں وہ خدا کے مجرم ہیں قربانی کے جانور کی جو شرائط ہیں ان کے مطابق جانور خریدیں اور زیادہ رقم سے غریبوں کی مدد کریں۔ اسلام میں تاکید صرف ایک جانور قربان کرنے کی ہے اصراف مت کرو۔