فکر و نظر

مودی کابینہ میں پھیر بدل ریاکاری سے زیادہ کچھ نہیں

یہ حکومت چھوٹی صنعتوں، بےروزگاری اورشعبہ زراعت کے حالاتوں کو لےکر شترمرغی رویہ اپنائی ہوئی ہے۔ مسائل کو قبول نہیں کرنے سے مسائل ختم نہیں ہو جاتے ہیں۔ نہ ہی کیبنیٹ میں پھیر بدل کر دینے سے ہی انہیں سلجھایا جا سکتا ہے۔

Cabinet reshuffle

یہ درج کرنا فائدہ مند ہوگا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے کیبنیٹ میں پھیر بدل کی  بہتر تشہیر کے لئے زیادہ تر مشق ورنداون میں آر ایس ایس کے دو روزہ کانفرنس میں کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں موہن بھاگوت کی رہنمائی میں سنگھ قیادت نے معیشت کی گرتی ہوئی  صورت حال کو لےکرسنگین تشویش کا اظہار کیا تھا۔

چھوٹے اور مائکرو صنعتوں کو بری طرح سے متاثر کرنے والی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی دوہری مار پر اس اجلاس میں تفصیل سے گفتگو کی گئی۔ ساتھ ہی اس میں شعبہ زراعت کے حالات پر بھی صلاح مشورہ  کیا گیا جہاں ربی کی کٹائی کے بعد منڈیوں میں تقریباً ساری فصلوں کی قیمت میں بھاری گراوٹ آئی ہے، جس کا ایک سبب منڈی انتظام میں نقد کی کمی بھی ہے۔آر ایس ایس کے رہنماؤں نے خاص طور پر اس جانب دھیان دلایا کہ مختلف شعبوں سے معیشت میں پیداوار اور روزگار کی کمی کو لےکر ‘ کافی منفی تاثرات ‘ مل رہی ہے۔

جس وقت بی جے پی کے نظریاتی قدامت پسندوںکے ذریعے  حکومت کی اقتصادی کارکردگی کا زمینی جائزہ لیا  تھا، اس وقت مودی اور امت شاہ کیبنیٹ میں بڑے پھیر بدل کی تیاری کر رہے تھے، جس کا مقصد ان لوگوں کو سزا دینا تھا جنہوں نے اچھے کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اچھے کام کرنے والے وزراء کو انعام دینا تھا۔لیکن، کیا واقعی انہوں نے ایسا کیا؟ کیا انہوں نے ان لوگوں کو سزا دی، جنہوں نے کم از کم لوگوں کی نظروں میں تو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا؟ یقینی طور پر یہ ایک بالکل الگ ہی کہانی ہے۔

کل ملاکر اس پھیر بدل کو رابطہ عامہ قواعد سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا، جس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ این ڈی اے 2014میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے نئے سرے سے خودکی دریافت کر رہی ہے۔ظاہر ہے اس پورے قواعد میں کہیں نہ کہیں یہ پیغام چھپا ہوا تھا کہ اس نے معیشت کے کئی اہم شعبوں میں امید کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، جس کے بارے میں آر ایس ایس کی کانفرنس میں تفصیل سے گفتگو کی گئی تھی۔

سب سے بڑی ناکامی روزگار کے محاذ پر دیکھنے کو ملی ہے اور این ڈی اے کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ہندوستان گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے خراب روزگار شرح نمو کی گرفت میں ہے۔ اسکل ڈیویلپمینٹ محکمہ کے وزیر راجیو پرتاپ روڈی کو کابینہ سے باہر کئے جانے کو دکھاوٹی کاروائی ہی کہا جا سکتا ہے۔یہ سچ ہے کہ اسکل ڈیویلپمینٹ کی وزارت کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے اور اس نے ایک طرح سے پانچ سالوں میں 50کروڑ ہندوستانیوں کو مہارت کی تربیت کا مقصد ترک دیا تھا۔ساتھ ہی ایک اندرونی جائزہ میں یہ کہا گیا تھا کہ جو اصل میں وزیر اعظم Skill Development منصوبہ کے تحت تربیت یافتہ تھے، ان میں سے صرف 12فیصد کو ہی اصل میں نوکری ملی۔

یہ حکومت کے اسکل ڈیویلپمینٹ پروگرام کی بہت بڑی ناکامی تھی۔ فی الحال یہ گفتگو عام ہے کہ پروگرام میں جلدہی وسیع تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔بیچارے روڈی کو تو بلی کا بکرا بنا دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نوٹ بندی کے بعد  چھوٹی صنعتی شعبےمیں نوکریوں میں آئی بھاری گراوٹ کی ذمہ داری کسی اور کو نہیں، وزیر اعظم کو لینی چاہئے۔اس نقطہ پر پھیر بدل کے اس پورے قواعد کی ریاکاری صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ چار سہ ماہیوں میں اقتصادی شرح نمو میں 2فیصدی کی گراوٹ آئی ہے۔ معیشت کی ترقی میں2فیصد پوائنٹس کی کمی قومی آمدنی میں لاکھ کروڑ روپیے کے نقصان کے برابر ہے۔

عوام کی آمدنی میں یہ نقب زنی گھٹتے ہوئے روزگار، کم مانگ اور اس سے بھی کم پیداوار کے کئی دائروں کو جنم دینے والی ہے۔ آخر نوٹ بندی کے بعد دیہی مزدوری میں تقریباً صفر کی سطح کا اضافہ کے ذمہ دار کون ہے؟ اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہے۔اگر کسی لاگ-لپیٹ‌کے بغیر کہا جائے، تو ان حالاتوں میں قیادت کو پھیر بدل کی دکھاوٹی قواعد کی پناہ لینے کی جگہ اپنی غلطی قبول کرنی چاہئے۔ آخر  وزیر ریل سریش پربھو کیا کر سکتے تھے اگر صنعت کی کارکردگی اپنی صلاحیت سے کہیں نچلی سطح پر ہے جس کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں سے ریلوے کی مال ڈھولائی سے ہونے والی آمدنی میں ٹھہراؤ آ گیا ہے۔

پہلے ریلوے بجٹ میں پربھو نے ایک پانچ سالہ ویزن کو سامنے رکھتے ہوئے مال ڈھولائی سے ہونے والی آمدنی کو 1بلین ٹن سے بڑھاکر 1.5ملین ٹن کرنے کی بات کی تھی۔ صنعتوں میں چھائی سستی کی وجہ سے آج یہ کسی خواب کی ۔طرح دکھتا ہے۔یہ ایک وسیع ساختہ مسئلہ ہے، جس سے پربھو بھی واقف ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ریلوے میں حال کے دنوں میں ایک کے بعد ایک ہوئے حادثوں کے بعد انہوں نے استعفیٰ دینے کی پیشکش کی تھی

حالانکہ، ان کو شاید ریلوے کے انتظام وانصرام میں اصلاح کی کوششوں کے چلتے وزیر اعظم کے ذریعے انعام سے نوازا گیا ہے۔ وزیر تجارت کے طور پر ان کی نئی ذمہ داری عام طور پر مشکل ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ پربھوکے ہی لفظوں میں ‘ میک ان انڈیا ‘ منصوبہ کو آگے بڑھاکرمینوفیکچرنگ کے شعبے میں نوکریاں پیدا کرنا ‘ ایک بڑا چیلنج ہے۔

ذاتی سرمایہ کاری میں ٹھہراؤ آ جانے کی وجہ سے 1ارب امریکی ڈالر کے قریب کی گرین فیلڈ اسکیمیں (نئی اسکیمیں) زمین پر اترتی نہیں دکھ رہی ہیں۔یہ یاد رکھنا ہوگا کہ این ڈی اے دور اقتدار کے صرف 18مہینے ہی بچے ہیں۔ ایسی صورت حال میں صرف قیاس ہی لگایا جا سکتا ہے کہ میک ان انڈیا کے تحت  کتنی نئی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے،، کیونکہ ابھی تک یہ ایک نعرے سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔سچائی یہ ہے کہ تجارت اور صنعت کے وزیر نرملا سیتارمن گزشتہ دو سالوں سے برآمد میں آئی سستی کو دور کرنے کے لئے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھا پائی۔ فی الحال ہمارا سالانہ برآمد 2014-15کے مقابلے 30ارب ڈالر سے زیادہ کم ہے۔ ہندوستانی تبادلے کی شرح کے غیر مسابقتی ہونے کی وجہ سے چین اور دوسرے بازاروں کے مقابلے میں ہمارے برآمدکے امکانات میں کمی کی آگئی ہے۔

نرملا سیتارمن کو انعام کے طور پر ترقی دیتے ہوئے وزرات  دفاع میں کیبنیٹ وزیر بنایا گیا ہے۔ حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ ہندوستان کی پہلی کل وقتی  خاتون وزیردفاع  ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسی مودی حکومت  نے غیر معمولی طریقے سے طویل وقت کے لئے  کل وقتی  وزیردفاع تقرر نہ کرنے کا بھی رکارڈ بنایا ہے۔سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں میں وزیر زراعت رادھاموہن سنگھ کا نام نمایاں ہے۔ زرعی بحران مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس حالت کو بہتر بنانے  کے لئے وزرات کی طرف سے ٹھوس کاروائی کے نام پر کہنے کے لئے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

اس کے برعکس حکومت کسانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے یہ کہہ رہی ہے کہ وہ کسانوں کی کُل لاگت پر 33فیصد رٹرن متعین کر رہی ہے۔ شاہ اور سنگھ، دونوں ہی پورے ملک میں بڑی تعداد میں ہوئی کسان خودکشی کے مدنظر حکومت کے دامن کو بچانے کے لئے کسانوں کی لاگت کافرضی حساب کر رہے ہیں۔زراعتی وزیر کی وداعی کو زراعت کے محاذ پر ناکامیوں کو قبول نےکے طور پر نہ دیکھا جائے، اس ڈر سے شاید ان کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا۔یہ حکومت چھوٹی صنعتوں، بےروزگاری اور زراعتی شعبے کے حالاتوں کو لےکر شترمرغی رویہ اپنائی ہوئی ہے۔ مسائل کو قبول نہیں کرنے سےمسائل ختم نہیں ہو جاتے ہیں۔ نہ ہی کیبنیٹ میں پھیر بدل کر دینے سے ہی ان کو سلجھایا جا سکتا ہے۔