حقوق انسانی

مظفر نگر فسادات : چار سال کے بعد بھی متاثرین بے گھر اور بے حال

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی رپورٹ: بہت سارے خاندان عارضی طور پر بنائی گئی کالونیوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں انہیں بنیادی سہولتیں مہیّہ نہیں۔ دو سو خاندانوں کو معاوضہ بھی نہیں ملا ۔

Refugee camp, Muzaffarnagar. December 2013.

نئی دہلی : آج مظفر نگر اور شاملی میں ھوۓ فسادات کی چوتھی برسی ہے۔ اگست  2013 میں ہوئی خوں ریزی میں ساٹھ سے زیادہ جانیں گئی تھیں اور 150 گاؤں سے دسیوں ہزار مسلم خاندان اپنے گھروں سے بھاگنے اور ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ تین دنوں تک چلے ان فسادات نے ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار مسلمانوں کو سڑک پر لا دیا تھا جو آج تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکے ہیں۔ ارباب اختیار ان کی طرف سے غافل ہو چکے ہیں اور اب ان کا کوئی پرسان حال نہیں سواۓ اس کے کہ سول سوسائٹی انہیں ریلیف پہنچاتی رہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے آج ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ابھی تک فساد میں متاثر ھوۓ بہت سارے خاندان عارضی طور پر بنائی گئی کالونیوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں انہیں بنیادی سہولتیں مہیّہ نہیں ہیں۔ کم از کم دو سو خاندان ایسے ہیں جنہیں معاوضے کی وہ رقم جو اتر پردیش کی ریاستی حکومت نے وعدہ کیا تھا نہیں ملی ہے۔ ایمنسٹی نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ انہیں معاوضے کی رقم فوراً ادا کی جائے اور بنیادی سہولتیں پہنچائی جائیں۔ رپورٹ کے ساتھ جو تصویریں شایع ہوئی ہیں وہ دل دہلا دینے والی ہیں۔ ان سے فساد زدگان  کی حالت زار کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کے تاریک مستقبل کا اندیشہ بھی۔

جب یہ فساد بھڑکا تھا تو اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کی سرکار تھی۔ اس وقت حکومت نے اعلان کیا کہ150 گاؤں میں سے 9 گاؤں کے 1800خاندانوں کو، جو حکومت کے مطابق  سب سے زیادہ متاثر ھوۓ تھے،  5 لاکھ روپیہ معاوضہ دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ان خاندانوں کو جن کے یہاں موت ہوئی تھی 3 لاکھ روپئے،  جو زیادہ زخمی ھوۓ تھے انہیں50 ہزار روپئے اور جنہیں کم چوٹیں آئی تھیں ان کو 20 ہزار روپئے۔ ان  تمام معاوضوں کے ساتھ یہ شرط جڑی ہوئی تھی کہ فساد زدگان آئندہ کوئی اور دعویٰ نہیں کریں گے اور نہ ہی واپس اپنے گھروں کو جائیں گے۔ اس کام کے لئے ایک قرار نامہ پر ان سے دستخط بھی  کر واۓ گئے تھے۔ اس کی خوب مذمت ہوئی تھی  یہاں تک کہ سماجی کارکنوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا کیوںکہ ریلیف کمپوں میں فساد زدگان انتہائی کسم و پرسی کی حالت میں رہ رہے تھے جس کی وجہ سے پچاس بچے بھی فوت ہو گئے تھے۔

سپریم کورٹ نے اس کا سخت نوٹس لیا  اور حکومت سے فوری طور پر ان کی مدد کی مانگ کی۔ مگر حکومت پر اس پھٹکار کا الٹا ہی اثر ہوا۔ انتظامیہ نے ریلیف کمپوں کو اجاڑ پھینکا۔ یہ دوسرا سانحہ تھا جو مظفر نگر اور شاملی کے فساد زدگان پر گزرہ۔ دسمبر کی شدید ٹھنڈ میں  وہ ایک بار پھر سے کھلے آسمان کے نیچے آگئے۔ اس وقت مسلم تنظیمیں اور حقوق انسانی کے ادارے آگے آئے اور تیس ہزار متاثرین کے لئے مظفر نگر میں اٹھائیس اور شاملی میں سنتیس عارضی کالونیاں بنوائیں۔

اگست 2016 اور اپریل 2017کے درمیان ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا اور افکار انڈیا فاؤنڈیشن، جو کہ شاملی میں واقع ایک این جی او ہے، نے 12  کالونیوں کا دورہ کیا۔ کارکنوں نے65 خاندانوں سے ملاقات کی اور 190 خاندانوں کے دستاویزات کا تجزیہ کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اب تک معاوضہ نہیں ملا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ  اپنی زندگی کی تعمیر نو کرنے سے قاصر ہیں۔ سرکاری ریکارڈوں کے مطابق، اب تک نو شناخت کردہ گاؤں میں سے مظفر نگر میں 980 خاندانوں اور شاملی میں 820 خاندانوں نے معاوضہ وصول کیا ہے۔ جن خاندانوں کو معاوضہ نہیں مل سکا ہے اس کی وجہ، ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق، سرکاری ملازمین کی لاپرواہی اور بدعنوانی ہے۔

“کتبی گاؤں میں میں اپنے والد سے الگ اپنے گھر میں رہتا تھا۔ میرا اپنا راشن کارڈ تھا اور ووٹر آئی ڈی بھی۔ جب سروے کرنے والے اہل کار آئے تو مجھ سے پچاس ہزار روپیہ رشوت مانگا۔ میں نے نہیں دیا تو معاوضہ صرف میرے والد کو ملا۔ مجھے اور میرے تین بھائیوں کو جو کہ الگ الگ خاندان تھے معاوضہ نہیں ملا،” یہ کہنا ہے شاملی کی عارضی کالونی میں رہنے والے مہتاب محمود کا۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں ایسی کئی کہانیاں ہیں جن میں سرکاری اہل کروں نے رشوت نہ ملنے کی وجہ سے معاوضہ نہیں ملنے دیا۔ کچھ ایسے بھی معاملے ہیں جن میں خاندان کی تشریح اپنے طور پر کر لی یا ان ہندو پڑوسیوں سے تحقیق کی جنہوں نے فساد کے دوران ان پر حملہ کیا تھا اور بعد میں گاؤں واپس آنے نہیں دیا تھا۔ کچھ ایسے بھی خاندان ہیں جن سے کہا گیا کہ تمہارے باپ یا تمہارے شوھر کو معاوضہ مل چکا ہے جب کہ ان لوگوں کا انتقال فساد سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی پروگرام ڈائریکٹر اسمتا بسو نے کہا ہے کہ” ریاستی حکومت نے سب سے پہلے تو  فسادات کے متاثرین کو اپنے گاؤں واپس جانے میں مدد کرنے کے لیے سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ پھر مکمل اور مناسب معاوضہ فراہم نہ کر کے انھیں مزید مایوس کیا گیا ہے۔ اس  وجہ سے ان خاندانوں نے غیر سرکاری تنظیموں اور مذہبی اداروں کی مدد سے عارضی  کالونیوں میں پناہ حاصل کی۔ لیکن اترپردیش حکومت نے بنیادی سہولیات فراہم نہ کر کے ان خاندانوں کو اور بھی زیادہ پریشان کیا ہے۔

ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق مظفر نگر میں تقریبا 82 فی صد کالونیوں اور شاملی میں 97 فی صد کالونیوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے۔ مظفر نگر میں 61فی صد  اور شاملی میں 70 فی صد کالونیوں میں آب نکاسی کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے محققین کی طرف سے دورہ کی جانے والی کالونیوں میں بہت سے خاندان غیر صحت بخش اور خطرناک حالات میں رہتے ہیں۔ ہر بیت الخلاء، جن میں ہمیشہ مناسب آب نکاسی کا فقدان ہوتا ہے، اکثر تین یا چار گھرانوں کے ذریعہ شیئر کیے جاتے تھے۔

ضلع مظفر نگر میں فساد کے متاثرین کے انصاف کی کمیٹی کے صدر محمد سلیم نے کہا کہ بہت سی کالونیوں میں جہاں فسادات کے متاثرین رہتے ہیں وہاں پانی، بجلی یا مناسب بیت الخلاء کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ رات کے وقت عورتیں تنہا بیت الخلاء جانے سے گریز کرتی ہیں۔ وہ گروپ میں ایک ساتھ جاتی ہیں۔