فکر و نظر

وہ انتخابی مہم جس نے فرقہ وارانہ سیاست کو بدل دیا

سال 2002 میں نریندر مودی کی پہلی سیاسی انتخابی تشہیر نے سب کچھ بدل دیا۔ پہلی بار کسی پارٹی کے رہنما اور اس کے اہم  انتخابی نمائندے نے مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری تشہیری مہم چلائی۔

(فوٹو :پی ٹی آئی )

(فوٹو :پی ٹی آئی )

پندرہ سال پہلے، ٹھیک انہی تاریخوں کے آس پاس، پہلی بار ہندوستان ایک ایسی انتخابی تشہیر کا گواہ بنا، جس میں ایک سیاسی پارٹی اور اس کے رہنما کے ذریعے کھلے عام اکثریتی  فخر اور پہچان کا استحصال کیا گیا ۔

1952 میں ہوئے پہلےعام انتخابات کے وقت سے ہی ہندوستانی سیاست میں مذہب کا اہم کردار رہا ہے۔ اس وقت کانگریس نے بھی اپنے قدآور مسلم رہنماؤں کو انہی سیٹوں پر کھڑا کیا، جہاں مسلموں کی ٹھیک ٹھاک موجودگی تھی۔ مثال کے لئے مولانا ابوالکلام آزاد کو اتّر پردیش کے رام پور سے کھڑا کیا گیا تھا۔

اسی طرح سے دلّی میں جہاں، مسلم آبادی 1941 کے 33 فیصد سے گھٹ‌کر 1951 میں 6 فیصدی سے کم رہ گئی تھی، کسی قومی پارٹی نے 1977 تک، یعنی انتخابات کے شروع ہونے کے قریب چوتھائی  صدی کے بعد کسی مسلمان کو اپنا امیدوار بنایا۔

تب سکندر بخت کو جنتا پارٹی کے امیدوار کے طور پر دلّی سےکھڑا کیا گیا تھا۔ 1985 سے کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی نے راجدھانی کے کسی پارلیمانی سیٹ کے لئے کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔

1977 میں دلّی کی جامع مسجد کے شاہی امام نے ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی حکومت کے ذریعے بےحدپرجوش طریقے سے جبراً نس بندی کرانے کے جواب میںمتنازعہ طریقے سے مسلموںکو کانگریس کے خلاف ووٹ دینے کی ‘ہدایت ‘ دی تھی۔

1983 میں اندرا گاندھی نے جمّوں اور کشمیر کے قانون ساز اسمبلی انتخابات میں فرقہ وارانہ چالبازیوں کا استعمال کیا تھا اور’ہندو’جمّو ں علاقے میں جیت حاصل کی تھی جبکہ’مسلم’ اکثریت والی وادی میں نیشنل کانفرنس کی بڑی جیت ہوئی تھی۔

لیکن، پھر بھی ایسے تکڑم  پہلے دبے چھپے ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ راجیو گاندھی نے 1984 میں سرحدوں کے لوگوں کے گھروں کی چوکھٹ تک آ دھمکنے کی بات کی تھی اور پارٹی کے نعرے کو پگڑی پہننے والے لوگوں کے سایے میں گڑھا تھا۔

لیکن، 2002 میں نریندر مودی کی پہلی سیاسی انتخابی تشہیر نے سب کچھ بدل دیا۔ پہلی بار کسی پارٹی کے رہنما اور اس کے خاص انتخابی نمائندے نے مسلموںکے خلاف نفرت سے بھری تشہیری مہم چلائی۔

اس سے پہلے اندرا گاندھی کے ذریعے ضرور’غیر ملکی ہاتھ ‘ کی بات کی گئی تھی، لیکن مودی نے یہ تشہیر کی کہ گجراتی مسلمانوں کا، پرویز (میاں) مشرّف، پاکستان اور دہشت گردوں کے درمیان سیدھا رشتہ ہے۔

یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ انتخاب صرف گودھرا کے بعدکے سانحات و حادثات کے  پس منظر میں نہیں ہوا تھا، بلکہ نائن الیون ،  سری نگر میں قانون سازاسمبلی اور پارلیمنٹ  پر حملے کے بعد بھی ہوا تھا۔ مودی کو بنانے  میں اہم کردار نبھانے والے 2002 کے گجرات قانون سازاسمبلی انتخاب کو ہندوستان میں انتخابی تشہیر کوفرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کے راستے کا ایک فیصلہ کن سنگ میل مانا جا سکتا ہے۔

جہاں، اس سے پہلے رہنما لوگ مندر، مسجد، درگاہ یا گرودوارے میں جانے جیسی علامتوں کا استعمال کیا کرتے تھے۔  وہیں مودی نے ایسی ساری پردے داری ختم کر دی۔ وہ کوئی لحاظ کئے بغیر ایسی  زبان بولتے تھے  جو کئی بار توہین آمیز ہوا کرتی تھی۔

گجرات میں انتخاب، 2003 کی پہلی سہ ماہی میں کرائے جانے تھے، لیکن فسادات کے ٹھیک بعد مودی نے ‘ فائدوں‘ کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔

گجرات کے وزیراعلیٰ نے قانون سازمجلس کو تحلیل کرنے کی سفارش کرکے پہلے انتخاب کرانے کو کہا۔ لیکن، الیکشن کمیشن، مودی کی چال میں نہیں آیا اور یہ کہا کہ ریاست میں حالات فوراً انتخاب کرانے کے لائق نہیں ہیں۔

حالانکہ، بی جے پی کے مرکزی رہنماؤں نے اس پر احتیاط برتتے ہوئے رد عمل دیا، لیکن، مودی نے زبانی حملہ بول دیا۔ انہوں نے جس طرح سے الیکشن  کمشنر کو مخاطب کیا، اس کی گونج آج بھی اس کے پیچھے چھپی نیت کی وجہ سے  سنائی دیتی ہے :’ جیمس مائکل لنگدوہ ‘۔ ایک بار نہیں، چار چاربار۔ ان کی حمایت ایک وشوہندوپریشد رہنما نے کی، جس نے الیکشن کمیشن پر’ اپنے طبقے  کے ایک آدمی (سونیا گاندھی) کی ہدایت پر کام کرنے ‘ کا الزام لگایا۔

الیکشن کمشنر کو ان کے پورے نام کے ساتھ مخاطب کیا گیا۔ ایسا صرف عوامی اجلاس میں ہی نہیں کیا گیا تھا، جس میں تلخی کوئی غیرمتوقع چیز نہیں ہوتی، بلکہ ریاستی حکومت کے حکومتی اشتہار ات میں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا۔

لوگوں تک کھلے طور پر یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی گئی کہ الیکشن کمیشن ریاستی حکومت کی سفارش کے خلاف اس لئے کام کر رہے ہیں کیونکہ وہ عیسائی ہیں۔ لیکن تب تک انتخابات کا  اعلان نہیں ہوا  تھا۔ اس لئے مثالی ضابطہ اخلاق کے لاگو  نہ ہونے کے سبب اس بدسلوکی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

بھلے ہی فساد سے متاثر ہوئے لوگوں کی زندگی ابھی بےترتیب اور منتشر تھی، مگر مودی نے اپنی  انتخابی تشہیر جاری رکھی۔ ان کی نیت واضح تھی :اپنے اور اپنے رخ کے ارد گرد ووٹروں کو جمع کرنا، اپوزیشن اور میڈیا کے ذریعے لگائے گئے الزامات کو ٹکنے نہیں دینا۔

انہوں نے اپنی مہم کو، جس میں جلوس اور عوامی اجلاس شامل تھے، ‘ گورویاترا ‘ کا نام دیا۔ اس کا مقصد سیاسی پیغام سے زیادہ جذبات کو جگانا تھا۔

اس مہم کے ذریعے مودی نے خود کو گجراتی فخر کے اکلوتے رکھوالے/محافظ اور اس کی ‘ فرقہ وارانہ ‘ تہذیب اور  قدروں کے محافظ کے طور پر نامزدکر لیا۔ ایل کے اڈوانی کے سومناتھ سے ایودھیا رتھ یاترا کی تقلید کرتے ہوئے مودی نے ستمبر، 2002 میں ایک دوسرے اہم مندر کھیڑا ضلع کے پھاگویل گاؤں کے 200 سال پرانے بھاتھی جی  مہاراج مندر، سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔

سفر کا آغاز کرنے کے موقع پر مودی نے جو تقریر کی  اس نے ‘ہندو ہردیہ سمراٹ ‘ کی ان کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار نبھایا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے مسلمانوں کا جم کر مذاق  اڑایا اور تلخی  سے بھری کئی باتیں کی۔

انہوں نے جو باتیں رکھیں، وہ سب سنگھ کی جھوٹ فیکٹری سے لی گئی تھیں۔ اس میں سب سے اہم یہ تھا کہ مسلم زیادہ تیزی سے ‘ بچّے پیدا کرتے ہیں ‘ اور جلدہی مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے آگے نکل جائے‌گی۔

مودی نے شروعات کی، ‘ ہم خاندانی منصوبہ بندی کو سختی سے لاگو کرنا چاہتے ہیں، ‘ اور اول مرد میں بولتے ہوئے، ‘ مسلم کی طرح ہم پانچ، ہمارے پچیس ‘ کہہ‌کر مذاق  اڑانے کے انداز میں ہنسنے لگے۔ انہوں نے پوچھا کیا گجرات میں خاندانی منصوبہ بندی ضروری نہیں ہے، جس کا سیدھا مطلب تھا کہ مسلم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

اسی تقریر میں مودی نے فساد متاثرہ کے لئے راحت کیمپ کو ‘بچّے پیدا کرنے کی فیکٹری ‘ کہا تھا اور مسلمانوں کو ‘ پنکچر چپکانے والے ‘ بتاکر ان کا مذاق بنایا تھا۔

اس انتخابی مہم کے دوران مسلموں کو  غدار وطن، پاکستان اور  دہشت گردوں کے تئیں ہمدردی رکھنے والے کے طور پر پیش کیا گیا۔ انھوں نے یہ دعویٰ کیا تھا ان پر مسلم اور ان کے مخالف، جن میں ‘سیدھے اٹلی جانے والے اور الیکشن کمیشن سے انتخاب روکنے کی دہائی دینے والے’ شامل ہیں۔ اس لیے حملہ کرتے ہیں، کیونکہ، ہم بیچارہ جی کے لیے فنڈ فراہم کرتے ہیں، اور اگر ہم ساون کے مہینے میں نرمدا کا پانی لاتے ہیں، تو یہ بات بھی انہیں ناگوار گزرتی ہے، تو ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟ کیا ہم راحت کیمپ چلائیں؟۔۔۔۔  بچے پیدا کرنے کی فیکٹریاں کھول لیں؟

2002 کا گجرات فساد

قومی اقلیت کمیشن نے اس اشتعال انگیز تقریر کی وجہ سے اس کی ایک کاپی سپرد کرنے کو کہا۔ ریاستی حکومت  نے یہ کہتے ہوئے اس کو اس کی کاپی دینے سے انکار کر دیا کہ ‘ سرکار کے پاس وزیراعلی کی تقریر کا کوئی ٹیپ یا ٹرانسکرپْٹ نہیں ہے ‘یہ اعلان مودی کے چیف سکریٹری  پی کے مشرا نے کیا تھا، جو فی الحال وزیر اعظم دفتر میں معتمد خاص ہیں۔

اس تقریر کے کئی سالوں کے بعد سپریم کورٹ کے ذریعے تشکیل شدہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی)  نے سیدھے سوال پوچھا : ‘ کیا یہ باتیں  مسلمانوں کو لےکر کی گئی تھیں؟ 

اپنے جواب میں مودی نے اپنی باتوں کے اصلی مقصد کو قبول نہیں کیا اور کہا :’یہ تقریر کسی خاص طبقہ یا مذہب  پر انگلی نہیں اٹھاتی۔ یہ ایک سیاسی تقریر تھی، جس میں، میں نے ہندوستان کی بڑھتی آبادی کی طرف دھیان دلانے کی کوشش کی۔۔۔  کچھ عناصر کے ذریعے میری تقریر کو توڑ مروڑ‌کر پیش کیا گیا ہے۔

Gujrat genocide

سنہ 2002 میں ہوئے گجرات فساد کی فائل فوٹورائٹرس

اس پر ایس آئی ٹی نے پلٹ‌کر ایسا کوئی سوال نہیں پوچھا کہ تقریر کے کس حصے کو توڑ مروڑ‌کر پیش کیا گیا اور کس حصے کا غلط معنی نکالا گیا۔

گورو یاترا سے شروع ہونے والے قریب دو مہینے چلی انتخابی تشہیر میں مودی نے انتخابی جدو جہد کو نظریات کی لڑائی میں تبدیل کر دیا۔ اسی اصول کا استعمال مودی نے بی جےپی کی کمان سنبھالنے کے بعد ہر انتخاب میں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے مخالف گجرات کے فخر و غرور کو برباد کر رہے ہیں اور خود اس کا محافظ ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس لڑائی میں مودی نے زور دےکر یہ اعلان کیا کہ ان کا مشن کسی مذہبی جنگ سے کم نہیں ہے۔ ‘میں شکتی پیٹھ پر بیٹھا ہوں، ماں   بیچاراجی کے قدموں میں سرنگوں ہوں۔۔۔۔ میں موت کے سوداگروں کو یہاں بسنے نہیں دوں‌گا، جو گجرات کو برباد کرنا چاہتے ہیں اور معصوموں کو ستانا چاہتے ہیں۔ 

2002 میں ماں کی اس فریاد  کا موازنہ 2014 میں وارانسی میں مودی کی ‘ ماں گنگا نے مجھے بلایا ہے ‘ والے ڈرامائی تقریر سے کی جا سکتی ہے۔ مودی پر کسی بھی چیز  کا  الزام لگایا جا سکتا ہے، لیکن شخصیتوں اور علامتوں کا چالاکی کے ساتھ استعمال کرنے کے معاملے میں کسی بھول یا تسلسل میں کمی کا الزام ان پر نہیں لگایا جا سکتا۔

خود کو ملک  اور قومی پہچان‌کے برابر لا کھڑا کرنے کی ان کی قوت کی تاریخ بھی 2002 سے شروع ہوتی ہے۔ اس وقت ان پر اور ان کی حکومت کی تنقید کو گجرات اور اس کے (ہندو) لوگوں پر کئے جانے والے حملوں کے طور پر پیش کیا گیا۔

انہوں نے حزب مخالف پر گجرات کو  آبروریزیوں  اور قاتلوں کی ریاست کے طور پر بدنام کرنے کا الزام لگایا۔ اس طرح مودی کا بچاؤ کرنا اور ان کے لئے ووٹ کرنا رائےدہندگان کے لئے ایک ذیلی قومی فریضہ بن گیا۔

انہوں نے کانگریس اور دوسری پارٹیوں پر گجراتیوں کو ہاتھ میں چھری لئے شدت پسند لوگوں کے طور پر دکھانے کا الزام لگایا اور عوام کو اس مہم کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے ان کے پاس موجود واحد ہتھیاران کے ووٹ، کا استعمال کرنے کی فریاد کی۔

15 سال پہلے شروع ہوئی گورو یاترا بنا کسی رکاوٹ کے انتخابی مہم میں بدل گئی۔ حالانکہ، اس کا اصلی مقصد فسادات کا انتخابی فائدہ اٹھانا تھا، لیکن اس کا مقصد اس سے کہیں بڑا تھا۔

اس سفر نے ایک ایک ایسی ‘ یکجہتی ‘ اور ‘ عزت نفس ‘ کےجذبات کو جنم دیا، جو اس مقصد سے کہیں آگے نکل گیا۔ مودی کا  اقتدار میں بنے رہنے کو، لوگوں کی خاصیت اور عظمت کی علامت کے طور پر دیکھے جانے میں اس کا اہم رول رہا۔

وقت کے ساتھ ایک کے بعد ایک شاطرانہ چال کے ذریعے مودی نے اس ‘ذیلی قومی ‘ فخر کو ہر چیز پر چھا جانے والے قومی منصوبے  میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس حکومت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو لےکر لوگوں کا اندازہ چاہے جیسا بھی ہو، اس بات کو لے کر تقریباً  ایک رائے کی حالت ہے کہ وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے ہندوستانی وقار کو بڑھایا ہے۔

گورو یاترا کے خیال نے بنیادی ماڈل کا کام کیا ہے۔ اس مہم کی اور گہرائی سے جانچ کرنے سے ہمیں مودی کی انتخابی  اور سیاسی حکمت عملی اور لفظ کے ذخائر کے بارے میں اور زیادہ بصیرت حاصل ہوگی۔

(نیلانجن مکھوپادھیائے مصنف اور صحافی  ہیں۔ انہوں نے ‘ نریندر مودی : دی مین، دی ٹائمس ‘ اور ‘ سکھس : دی انٹولڈ ایگنی آف 1984 ‘ جیسی کتابیں لکھی ہیں۔)