فکر و نظر

یہ جو بھکت ہیں، یہ انہی کا وقت ہے

یہ جو بھکت  ہیں یہ ان کا ہی وقت ہے۔ ہمارا وقت ہمیں لانا ہے۔ ہمیں اس کو بچانا ہے جو اس بھکتی سے پہلے کی چیز ہے۔ جو کسی بھی سیاسی طاقت سے پہلے کی چیز ہے۔

کرناٹک کے دھارواڑ میں گوری لنکیش کے قتل کی مخالفت میں مظاہرہ (فوٹو :کےایچ پاٹل / دی وائر)

کرناٹک کے دھارواڑ میں گوری لنکیش کے قتل کی مخالفت میں مظاہرہ (فوٹو :کےایچ پاٹل / دی وائر)

گوری لنکیش کے قتل کو وہ جائز ٹھہرا رہے ہیں۔ وہ ان کے قتل کا جشن منا رہے ہیں۔ قاتلوں کو مبارک باد تک دے رہے ہیں۔ انہیں یہ ٹھیک لگ رہا ہے کہ ان سے اتفاق نہیں کرنے والی  ایک آواز کو کسی نے چپ کرا دیا۔

انہیں یہ جائز لگ رہا کہ کسی نے اس آواز کو قتل کر دیا جو ان کی زبان نہیں بول رہی تھی۔ ان کی باتوں میں قتل کرنے والوں کو حوصلہ دینا شامل ہے۔ قتل اور نفرت کو اکسانا شامل ہے۔

یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے جواس طرح کےقتل کی منشا رکھتے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں  میں جیسے  بہت سے قاتلوں کو تیار کیا گیا ہے۔ سب اپنا اپنا کرداراداکر رہے ہیں۔ اوپر بیٹھ‌کر چپ رہ کروہ اپنا کرداراداکر رہے ہیں۔

کچھ قتل کو جائز ٹھہرانے کے کردار میں ہیں۔ کچھ قتل کر رہے ہیں اور کچھ قاتلوں کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک مکمل ڈھانچہ تیار کر لیا ہے۔ الگ الگ طرح کی عقیدت اور دیوانگی نے اب ان کو یہاں لا کھڑا کیا ہے کہ وہ مجرم سے بن گئے ہیں۔

ایسے مجرم  جن کے ہاتھوں میں ہتھیار  بھلے ہی نہ ہو۔ ان کے ذہن جرم سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہاں کسی بھی طرح کی اخلاقیات نہیں بچی ہے۔ یہ خطرناک ہے اور المناک  بھی۔ یہ ان کی سیاست کے لئے بھی خطرناک ہے جنہوں نے ان کو ابھارا ہے اور جو لگاتار ان کو ابھار رہے ہیں۔

وہ جو سماج بنا رہے ہیں اس کے اندر سے وہ چیز ختم کی جا رہی ہے جو انسان کے اندر بچی رہنی چاہئے تھی۔ انسان اور انسانیت کے بعد ہی ہم کسی بھی سیاست کا تصور کر سکتے ہیں۔

جن کے خیال جرم سے بھر گئے ہیں ان کو بھی قتل کے بعد چپ ہو جانا چاہئے تھا۔ ان کو کچھ نہیں  بولنا چاہئے تھا۔ کسی کے قتل پر ان کو تکلیف نہ بھی ہو تو بھی۔ شاید ان کو اس چیز کو بچا لینا چاہئے تھا جس کی ضرورت ہمیں اور ان کو بھی ہے۔ اور وہ ضرورت ہمیشہ بنی رہے‌گی۔

وہ اس انسانیت کو بچا لیتے۔اس مانوتا کو بچا لیتے جو کسی بھی پارٹی سے پرانی ہے۔ جو کسی بھی تنظیم کی بھکتی سے پرانی ہے۔ جو کسی سیاست سے بھی پرانی ہے۔ جو ان کی حب الوطنی سے بہت ہی پرانی ہے۔ ان کو اس کو بچانے کے لئے چپ رہنا چاہئے تھا۔ لیکن وہ چپ نہیں ہوئے۔

وہ قتل کی حمایت میں دلیلیں دینے لگے۔ وہ قاتلوں کو مبارک باد دینے لگے۔ انہوں نے گوری لنکیش کے قتل کو صرف جائز نہیں ٹھہرایا۔ وہ قتل کے بعد ٹھنڈی پڑ چکی اس لاش کو گالیاں دینے لگے۔ جیسے وہ اس پر اور گولیاں چلانا چاہتے ہوں۔

وہ کس حد تک نفرت کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ قتل کے بعد پھیلائی جا رہی ان کی باتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جیسے وہ ایک قتل کے بعد اور ہلاکتوں کے لئے خود کو تیار کر رہے ہوں۔ اپنے اندر اور دیوانگی بھر رہے ہوں۔ اور عدم اتفاق کے سارے قتل کو جائز ٹھہرانے کا راستہ بنا رہے ہوں۔ جیسے ان کی گولیاں اور چلنا چاہتی ہوں۔ وہ اور چھیدنا  چاہتے ہوں اس لاش کو اور اس لاش کے آس پاس کو۔

وہ ان سب کو ختم کرنا چاہتے ہوں جو اس طرح کی ہلاکتوں کے خلاف ہیں۔ جو ان سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ ان کے اندر کی نفرت ان تین گولیوں سے ختم نہیں ہوئی ہو جیسے۔ ان کے ہاتھ اور بھی  بیقرار سے لگ رہےہیں۔ ایسا ان کی زبان کہہ رہی ہے۔ جو قتل کی حمایت میں الگ الگ طرح سے لکھ رہے ہیں۔ وہ گوری لنکیش کو عیسائی بتا رہے ہیں۔

ان کو دفنائے جانے کو لےکر طرح طرح کا جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔ وہ دشہرہ سے پہلےلنکیش کا قتل بتاکر اس کا جشن منا رہے ہیں۔ وہ اور بھی بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ وہ سب اس قتل کے ساجھےدار سے بننے کو تیار ہیں۔ اس کو جائز ٹھہرانے کی بنا پر۔ وہ اس خیال کے پیرو کار ہیں۔ جہاں ان سے کوئی متفق نہ ہو۔

ان کو یہ ہمت کہاں سے مل رہی ہے۔ وہ کون سی سیاسی عقیدت ہے جو ان کو یہ طاقت دے رہی ہے۔ شاید پرانی ہلاکتوں  پر نہ ہونے والے انصاف ان کو جوش دے رہے ہیں۔ کلبرگی، دابھولکر اور پنسارے کا قاتل ابھی تک کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ کسی کو ابھی تک کوئی سزا نہیں ملی ہے۔ کسی کو پکڑا نہیں گیا ہے۔ ان کو ابھی تک تلاش بھی نہیں گیا ہے۔

موجودہ اقتدار کی ناکامی یا ناچاہی  نےہی ان کو یہ ہمت دی ہے۔ اقتدار کے اداروں نے قاتلوں کو نہ تلاش پانے کی ناکامی سے ان کو مہلت دی ہوئی ہے۔ یہ مہلت ہی ان کو اور قتل کر نےکی ہمت دے رہی ہے۔

rakesh-kumar

ضروری نہیں ہے کہ وہ کوئی ایک انسان ہو جس نے ان سارے قتل کو انجام دیا۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ یہ سارے لوگ کسی ایک تنظیم کے ہوں۔ لیکن یہ ایسے تمام خیالات کےقاتل ہیں جو ان کے خیالات سے میل نہیں کھاتے۔ اس لحاظ سے یہ ایک خیال کے لوگ ہیں۔ سب کے سب قتل نہیں کر سکتے۔ قتل کا جشن منا سکتے ہیں۔

یہ قاتلوں کے لئے طاقت کی طرح ہیں۔ ان کو قتل کرنے کا خیال یہیں سے مل رہے ہیں۔ جہاں ایک ملک میں ایک خیال کو ہی سب سے اچھا خیال بنایا جا رہا۔ یہ جمہوریت کا خیال نہیں ہے۔ جمہوریت کا خیال اور زیادہ خیالات کو جگہ دینے اور پھلنےپھولنے کا خیال ہے۔ ان کو سن لینے کا خیال ہے جو آپ سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔

وہ کہنے کی فکر ہے جس کو آپ مانتے ہیں۔ اس لئے ان کو شہ دینے والے جمہوریت کے خلاف لوگ ہیں۔ وہ یہ سب کچھ کہتے ہوئے، اتنے سارے جھوٹ کو پھیلاتے ہوئے صرف قتل کو صحیح بتانا چاہتے ہیں۔

وہ ایک الگ فکر ہے جو ان سارے قتل سے غمگین ہے۔ وہ ایسے ہر قتل کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ جبکہ قاتل پکڑا جائے اس سے پہلے ایک اور قتل کر دیاجا رہا ہے۔

کسی کی گرفتاری ممکن نہیں ہو پا رہی۔ کیونکہ اس کو گرفتار کرنے اور سزا دینے والے اداروں کو اسی فکرکے مکھیاؤں نے جکڑ رکھا ہے۔ اس لئے قتل پر جشن منانے والے ہی نہیں بلکہ ہمارا اقتدار ان ہلاکتوں کو اکسا رہا ہے۔ وہ ہر روز نئے طرح کا قتل کروا رہا ہے۔

گوری لنکیش پر گولیاں کسی ایک نے چلائی ہوں‌گی۔ گالیاں دینے والوں کی پوری فوج سی آ گئی ہے۔ یہ وندےماترم اور ترنگے کی فوج ہے۔ یہ ان بھکتوں کی فوج ہے۔ جو عدم اتفاق کی ایک آواز کے چپ کرنے کا جشن منا رہی ہے۔ وہ ملک اور جمہوریت دونوں کو ایک تنگ گلی میں لے جا رہی ہے۔ وہ اس سے پہلے گوری لنکیش کو نہیں  جانتے تھے۔

وہ جو گالیاں دے رہے ہیں، جو قتل کو جائز ٹھہرا رہے ہیں ان کاکوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف نظریات کا  ہی تھا کہ گوری بھکت صحافی نہیں تھی۔ گوری کسی اور نظریہ کو مانتی تھی۔ یہ وقت ایسا بنا دیا گیا ہے۔ جہاں الگ خیال رکھنا ہی جرم بنتا جا رہا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے جو جمہوریت کو کمزور کر رہا ہے۔

یہی وہ چیز ہے جو اس سے بھی ہمارا بھروسہ اٹھا رہا ہے جو جمہوریت اور کسی دوسرے نظام میں پہلے کی چیز ہے۔ انسانیت کے بعد کوئی بھی نظام پیدا ہوا ہے۔ فی الوقت وہ ساری چیزیں مٹائی جا رہی ہیں۔ جس کو ہمیں بچانا تھا، جس کو ہمیں معاشرے میں اور بڑھانا تھا۔ ان کا سیاسی عقیدہ انسانیت تک  پر بھاری پڑ رہا ہے۔

یہ جو بھکت  ہیں یہ ان کا ہی وقت ہے۔ ہمارا وقت ہمیں لانا ہے۔ ہمیں اس کو بچانا ہے جو اس بھکتی سے پہلے کی چیز ہے۔ جو کسی بھی سیاسی طاقت سے پہلے کی چیز ہے۔

(مصنف جے این یو میں فیلو ہیں)