حقوق انسانی

کشمیر : پیلٹ گن کے استعمال پر جلد از جلد پابندی عائد ہو : ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا

واضح ہو کہ پیلیٹ فائرنگ کی وجہ سے جہاں بہت سارے لوگ جاں بحق ہوچکےہیں  ،وہیں کئی لوگوں کی بینائی چلی گئی ہے۔ بہت سے لوگ اب تک اس کے خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

PelletGun_Insha Mushtaq

نئی دہلی : عالمی حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی جانب سےپیلٹ گن کے مضر اثرات کو لے کر ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے ۔ اس رپورٹ میں پیلٹ گن کی وجہ سے کشمیرمیں بنیائی سے محرومی اور دیگر اثرات کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے اپنی اس رپورٹ کو پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پیلٹ گن کے استعمال پر کشمیر میں جلد از جلد پابندی عائد کر دینی چاہیے ۔  سری نگرمیں ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی طرف سےمنعقدپریس کانفرنس میں پیلٹ گن سے نکلنےوالے چھروں کی وجہ سے زخمی ہونے والوں کے حالات اور اس کےمضر اثرات سے متعلق  109 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی۔

واضح ہو کہ پیلیٹ فائرنگ کی وجہ سے جہاں بہت سارے لوگ جاں بحق ہوچکےہیں  ،وہیں کئی لوگوں کی بینائی چلی گئی ہے۔ بہت سے لوگ اب تک اس کے خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے لوگ صرف اپنی بینائی سے محروم نہیں ہوئے  ہیں،ان کی آنکھیں شدید طور پر متاثر ہوئی ہیں  ۔رپورٹ کے مطابق 88لوگو ں کی آنکھیں اس سے متاثر ہوئی ہیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  پیلٹ گن کا استعمال مقامی پولیس اور سی آر پی ایف کےذریعے کیا جاتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے پندرہ اگست کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ کشمیر میں تبدیلی  بندوق سے آئے گی اور نہ ہی گالی سے ۔ وزیر اعظم نے یہ نعرہ دیا تھا کہ “نہ گولی سے نہ گالی سے”۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سچ مچ اس نعرے میں  یقین رکھتی ہے تو فوری طور پر پیلیٹ گن کے استعمال پر پابندی عائد کرے ۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے مقامی نمائندہ ظہور وانی نے کہا کہ کچھ کیس ایسے بھی ہیں جن میں یہ پایا گیا ہے کہ زخمیوں کی آنکھ کے نزدیک ہڈیوں میں اب تک پیلٹ گن کے عناصر موجود ہیں ۔ڈاکٹر اس کو نکالتے ہوئے ڈر رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے بینائی اور زیادہ متاثر ہوگی ۔اور یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ یہ کتنے دنوں تک اور کس طرح بنیائی کو متاثر کرے گی ۔پریس کانفرنس میں اس بات کا بھی اظہار کیا گیا کہ اتفاق سے مرکزی حکومت نے اس سلسلے میں سر دمہری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ریاستی  حکومت بھی  متاثرین کی مد د کرنے میں فراخ دل نہیں  ہے ۔آرٹی آئی کے تحت اس سلسلے میں جانکاری حاصل کی گئی ہے ۔اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لیے ریاستی پولیس اور سی آرپی ایف کو بھی لکھا گیا ہے ،لیکن ان کی طرف سے ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے ۔

دریں اثنا رپورٹ  میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کشمیر میں88ایسے کیس سامنے آئے ہیں جو گزشتہ برس مظاہروں کے دوران کلی اورجزوی طورپربینائی سےمحروم ہوئے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا انڈیا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آکار پٹیل،ایمنسٹی کے مقامی مہم کار ظہور احمد وانی، ایمنسٹی کےانٹرنیشنل لاء و پالیسی ڈائریکٹر سلیش رائے اور پیلٹ سے زخمی ہونے والے پلوامہ کے منظور احمدوغیرہ  نے اس رپورٹ کوپریس کانفرنس کے دوران جاری کیا۔اس pelletguns_amnestyموقع پر آکار پٹیل نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پر زور مطالبہ کیا کہ حکام فوری طور پیلٹ گن پر پابندی عائد کرے۔

پریس کانفرنس میں یہ بات بھی کہی گئی کہ انتظامیہ عوام میں نظم و ضبط بنائے رکھنے کے لیے ضروری اقدام کر سکتی ہے ،لیکن پیلٹ گن مسئلے کا حل نہیں ہے۔آکر پٹیل نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ سیکورٹی فورسیز پتھر پھینکنے والوں سے ضرور نپٹے لیکن اس طرح کے ہتھیار کا استعمال نہیں ہونا چاہیے جس سے لوگ شدید طور پر متاثر ہورہے ہیں ۔تنظیم نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت سے اپیل کی ہے کہ پیلٹ گن پر پابندی عائد کی جائے اور دوسرے اسلحہ جات کا استعمال بھی عالمی انسانی حقوق کے دائرے میں کیا جائے ۔واضح ہو کہ سیکورٹی فورسیز پیلٹ گن کا استعمال کشمیر وادی میں 2010سے کیا جارہا ہے ۔کشمیر میں سینکڑوں لوگ اس کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔

 ایمنسٹی کے ایگزیکٹیوڈائریکٹر نے کسی بھی قسم کےتشدد آمیز واقعہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا’’سنگبازی بند ہونی چاہیے‘‘،لیکن اس بات کا بھی کوئی جواز نہیں ہےکہ سنگبازوں کے خلاف پیلٹ گن کا استعمال کیا جائے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ بھیڑ سے نپٹنے کیلے بین الاقوامی حقوق انسانی کے معیار کا  خیال کیا جانا چاہیے۔آکار پٹیل نے کہا کہ پیلٹ فائرنگ سے زخمی ہونے والے افراد نفسیاتی صدمے کا شکار ہوئے ہیں۔بہت سے لوگ اپنےکنبوں کے واحد کفیل تھے۔انہیں اس بات کا خوف ہے کہ وہ کا م نہیں کر پائیں گے ۔بار بار کی سرجری کے بعد بھی کئی متاثرین بنیائی سے محروم ہیں ۔پٹیل نے کہا کہ جن88کیسوں کا  جائزہ لیاگیا ہے ان میں سے31کی دونوں آنکھیں متاثرہوئی ہیں۔اس میں 14خواتین بھی ہیں۔ان واقعات سے متعلق کیسوں کا اندراج بھی عمل میں نہیں آیا ہے۔صرف ایک خاتون نے ہی فورسز کے خلاف کیس درج کیا ہے،جبکہ بیشتر متاثرین کے خلاف پولیس نے ہی کیس درج کئے ہیں۔مسٹر پٹیل نے سی آر پی ایف کے اس جواب کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا کہ اگر وہ پیلٹ گن کا استعمال نہیں کرینگے،تو گولیوں کا استعمال کرنا پڑے گا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا لاء و پالیسی ڈائریکٹر سلیش رائے نے پیلٹ سے متاثر ہوئے لوگوں کی باز آبادکاری اور سول سطح پر تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ متاثرین کو معاوضہ بھی فراہم کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ مقامی سرکار کے ساتھ بھی اٹھایا گیا۔سلیش رائے نے کہا کہ اس بات کی جانکاری دستیاب نہیں ہے کہ حکومت ابھی بھی کس مقدار میں پیلٹ گن کا استعمال کرتی ہے۔رائے کے مطابق اس گن کے استعمال کرنے کے دوران فورسز اور پولیس کا اس پر قابو نہیں رہتا،اور نہ ہی اس کا ہدف متعین ہوتا ہے،جس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی زخمی ہوتے ہیں۔

آرٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق کپوارہ میں16پولیس اہلکار بھی پیلٹ سے زخمی ہوئے۔پریس کانفرنس کے دوران آنکھوں کی بنیائی سے متاثر ہوئی پلوامہ کی طالبہ سبر وز اورمنظور احمد نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ کس طرح انہیں پیلٹ کا نشانہ بنایا گیا۔