فکر و نظر

طلاق ثلاثہ پر فیصلہ جمہوری قدروں کی بحالی ؟

 اس فیصلے میں تمام فریقوں کے ایشوز، مسائل اور شکایتوں کو بے حد دانشوری سے  جگہ دی گئی ہے ،جیسا کہ پانچوں ججوں نے ایک رول پلے طریقہ کار کی طرح اپنے خیالات کا اظہار کیا  ہے چنانچہ اس پورے  فیصلے کو  ہم دقیانوسیت بنام لبرل اور   ایک  ثالث  کے تناسب سے سمجھ سکتے ہیں۔

TripleTalaq_SupremeCourt

سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی ایک بنچ نے  395 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں  ایک نشست  کی  تین طلاق  (طلاق ثلا ثہ)  پرروک لگادی ہے۔اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہےکہ پانچ  ججوں کی بنچ میں شامل معزز حضرات الگ الگ مذاہب کے  ماننے والےتھے ۔فیصلہ2: 3 کی اکثریت سے سامنے آیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئےیہ حقیقت بھی پیش نظر  رہے کہ طلاق سے متعلق  گزشتہ فیصلوں کی طرز پر ہی یہ فیصلہ بھی کیا گیا۔اس ضمن میں ایک بات  تو بالکل صاف رہنی چاہیے  کہ ججوں کی اس بنچ نے طلاق ثلا ثہ کی قانونی معنویت کوچیک کرنے  کے بجائے  سپریم کورٹ کی ایک عام بنچ کی طرح یہ فیصلہ بھی سنایا ہے۔

سپریم کورٹ نے ایک بار پھر سے1932کے راشد احمد بنام انیسہ خاتون کیس میں ہونے والے    اس عدالتی فیصلے کو رد کر دیا  ہے، جس میں پریوی کونسل نے طلاق ثلا ثہ کو جائز قرار دیا تھا   اور جس کی بنیاد 1906کے سارا بائی بنام رابعہ بائی کیس میں جسٹس بیچلر  کا مشاہدہ  “قانونی طور پر ٹھیک مگر دینیات میں خراب “ تھی-

حالانکہ پریوی کونسل کے اس فیصلے کو مختلف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے یکے بعد دیگرے  فیصلوں میں رد کر دیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر ضیاء الدین بنام انورہ بیگم  (1981)اور رقیہ خاتون بنام عبد الخالق   (1981) کیس میں مناسب وجوہات نہ ہونے کی وجہ سے  گوہاٹی ہائی کورٹ  نے ثالث کا  کردار نبھاتے ہوئے طلاق ثلا ثہ کو یکسر غیر موزوں قرار دیا تھا۔

2008میں مسرور احمدبنام ریاست کیس میں دہلی ہائی کورٹ نے طلاق ثلا ثہ کی قانونی حیثیت کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ایک ہی سانس میں تین طلاق بنیادی طور پر ایک ہی طلاق ہے ،اس لیے اس کو حتمی نہیں مانا جا سکتا ہے۔اسی طرز پر 2017کے نظیر بنام شمیمہ کیس میں کیرالا ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں طلاق ثلاثہ کی روایت کی سفارش کو رد کرنے کے  ساتھ  ساتھ مقننہ سے  بھی طلاق ثلا ثہ پر ایک  قانون بنانے کی اپیل کی تھی۔گزشتہ فیصلوں کی یکجائی در اصل 2002 کے شمیم آرا بنام ریاست کیس میں ہوئی جب سپریم کورٹ نے کہا کہ طلاق ثلا ثہ میں قانونی پہلو کی کمی  پائی جاتی ہے۔

بہر کیف، حالیہ فیصلہ کئی اعتبار سے اہمیت کا  حامل ہے۔ایک طرف تو سپریم کورٹ نے   بہت ساری سیاسی پارٹیوں کے لیے طلاق ثلا ثہ کے  اس فیصلے پر  سیاسی بساط بچھا نے کے امکانات کو ہی ختم کردیا ہے، کیونکہ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب مستقبل قریب میں لوک سبھا یا صوبائی اسمبلی الیکشن متوقع نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ اس فیصلے کے ذریعہ سپریم کورٹ نے جمہوری اقدار کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔

اس سلسلے کا  آخری نکتہ  یہ ہے کہ گزشتہ چھ دہائیوں میں  بالعموم  یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ کسی  بنچ  کا رکن ہوتے ہوئے خال ہی کوئی چیف جسٹس سنائے گئے فیصلے میں کسی قسم کا اختلاف کرتا ہے  ۔مزید قابل غور  بات یہ ہے کہ اب سے قبل  ہندوستان کے کسی بھی  چیف جسٹس نے کبھی بھی اپنا  اختلاف رائے  نہیں لکھا ہے۔ مگر ماضی کی اس  روایت کے بر عکس ، حالیہ فیصلہ اس اس اعتبار سے  ممتاز ہے کہ چیف جسٹس نے اس فیصلہ پر اپنا احتجاج درج کیا ہے۔

ایک حیران کن نکتہ یہ بھی  ہے کہ اس فیصلے میں تمام فریقوں کے ایشوز، مسائل اور شکایتوں کو بے حد دانشوری سے  جگہ دی گئی ہے ،جیسا کہ پانچوں ججوں نے ایک رول پلے طریقہ کار کی طرح اپنے خیالات کا اظہار کیا  ہے چنانچہ اس پورے  فیصلے کو  ہم دقیانوسیت بنام لبرل اور   ایک  ثالث  کے تناسب سے سمجھ سکتے ہیں۔

مثلا جسٹس کھیہر اور ایس عبدا لنظیر نے مسلم مولویوں اور دوسرے  دقیانوسی حلقوں کے لیے فکر مندی ظاہر  کی اور دلیل یہ  فراہم کی  کہ سپریم کورٹ ناروا سلوک،من مانی اور قانونی  اخلاقیات کی عقلی دلیل کو بنیاد بنا کر کسی  مذہبی رسم و رواج پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی ہے۔ اس طرح  دفعہ 25کے تحت مذہبی آزادی کے بنیادی حق کوہر صورت حال میں  برتر اور مکمل تسلیم کیا ۔مزید انہوں نے پارلیمنٹ کو  یہ مشورہ دیا  کہ  وہ قانون کے ذریعہ سماجی اصلاح کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے صرف اور صرف طلاق ثلا ثہ سے متعلق قانون بنائے۔

جسٹس روہنٹن  ایف نریمن اور جسٹس ادے یو للت نے اپنے فیصلے میں لبرل موقف اختیار کرتے ہوئے یہ بحث کی کہ طلاق ثلا ثہ نہ صرف دفعہ 14 کے تحت انسان کے بنیادی حق کا وائلیشن ہے بلکہ  1937کا ایکٹ،   دفعہ (1) 13 میں  “قانونی نفاذ” کے دائرے میں آتا ہے  اور اسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے کیونکہ  یہ طلاق ثلا ثہ کو تسلیم کرنے  اور عملی زندگی کو متاثر کرتاہے۔

درمیانی راستہ

دقیانوسی اور لبرل کی اس ‘جنگ’ میں  جسٹس کورین جوزف نے ایک ثالث کا کردار نبھایا  اور انہوں نے نہ صرف درمیانی رول ادا کیا بلکہ فیصلے کو   اکثریت میں تبدیل کرنے میں مددگار بھی  ثابت ہوئے ۔جسٹس جوزف نے دونوں گروپ کے کچھ مخصوص  خیالات کی تائید کی۔

 جہاں ایک طرف جسٹس جوزف نے جسٹس کھیہر کے خیالات کی طرفداری کی اور کہا کہ 1937کا شریعت  ایپلی کیشن ایکٹ طلاق کو چلانے والا قانون نہیں ہے اور یہ کہ دفعہ 25کے تحت مذہبی آزادی کے بنیادی حق کوہر  حال میں  برتری حاصل ہے۔وہیں دوسری طرف  جسٹس جوزف نے  شمیم آرا  کیس کے فیصلے کو بھی  ترجیح  دی ہے ،جس کے اندر طلاق ثلا ثہ میں قانونی پہلو کی کمی  کو بتایا گیا تھا اور اس طرح انہوں نے جسٹس نریمن کے موقف کی بھی  تائید و تصدیق کی۔

دوسرے الفاظ میں مذہبی آزادی کے حق کی مکمل برتری طلاق ثلا ثہ کے حامیوں کے لیے محافظ ثابت ہوئی ہے۔ اسی طرز پر طلاق ثلا ثہ کو ناجائز قرار دے کر  2: 3 کی اکثریت سے آنے والے فیصلے نے نہ صرف مسلم خواتین کو فتح اور حفاظت کا احساس دیا ہے بلکہ اس رسم کو  غلط سمجھنے والے تمام افراد  کو بھی یک گونہ سکون فراہم کیا ہے۔نتیجتاً شاہ بانو  فیصلے کے بر عکس، حالیہ فیصلہ  نہ صرف بنیاد پرست عوام کی بے اطمینانی کو ٹھنڈا  کرنے میں کامیاب ہے  بلکہ ملک کو عوامی بد امنی سے بھی محفوظ رکھا ہے۔  دوسری طرف اس فیصلہ پر  مسلم پرسنل لا بورڈ کا حالیہ  موقف یقینا قابل ستائش ہے۔ 10ستمبر بروز اتوار بورڈ نے بھوپال میں منعقدہ میٹنگ  کے دوران مسلم  پرسنل لا میں حکومت کی دخل اندازی کی مذمت کی ہے  مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کا  استقبال کیا ہے  – ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس فیصلے کی روشنی میں طلاق ثلا ثہ سے متعلق  عوامی بیداری کی مہم چلانے کا بھی وعدہ  کیا ہے-

اب دیکھنا یہ  ہے کہ  عورتوں کو ‘سبق سکھانے’کے لیے   طلاق کے نام پر’خوف’ کا پدرانہ رواج ہندوستانی سماج سے ختم ہوگا یا نہیں؟  کیا مسلم علما  طلاق ثلا ثہ سے متعلق “فتویٰ” جاری کرنے سے باز آئیں گے؟

(مضمون نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد ، میں اسوسیئٹ پروفیسر اور صدر ، شعبہ سیاسیات ہیں)