حقوق انسانی

اس ملک میں بچّوں کی موت کی فکر کس کو ہے؟

اگر کسی کو فکر ہوتی تو ملک میں 2008 سے 2015 کے درمیان ہرروز دو ہزار سے زیادہ نوزائیدہ بچوں کی موت نہیں ہوتی۔

علامتی تصویر۔ فوٹو : ANI

ANI : علامتی تصویر۔ فوٹو

ہندوستان میں سال 2008 سے 2015 کے درمیان ہرروز اوسطاً 2137 نوزائیدہ بچوں کی موت ہوئی ہے۔ ملک میں اب بھی بچوں کی  موت کی رجسٹرڈ تعداد اور قیاسی تعداد میں بڑا فرق دکھائی دیتا ہے کیونکہ صحت کو لے کر کیے گئے انتظامات کی زمینی حقیقت اورحکومت کے مبینہ انتظامات  کے درمیان صرف خیالی رشتہ ہے۔

ہندوستان کے جنرل رجسٹرار کی رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں ہندوستان میں 76.6 فیصد اموات کا ہی رجسٹریشن ہوا۔ بہار میں موت کے 31.9، مدھیہ پردیش میں 53.8، اتّر پردیش میں 44.2 اور مغربی بنگال میں 73.5فیصد اندراج ہوئے۔

یہ مانا جا سکتا ہے کہ رجسٹریشن کا انتظام  نہ ہو پانے کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کی موت کی حقیقی صورتحال ، نوزائیدہ بچوں کی  اموات کی شرح اور قیاس پر مبنی پیدائش کے اعداد و شمار کے مطالعے سے لگتا ہے۔

ہندوستان کے آئین کے نظریے سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ شہریوں کی زندگی کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے ریاست ذمہ دار اور قابل اعتماد کردار نبھائے‌گی۔ نجی کاری اور بازار کے حق میں لبرلائزیشن کی پالیسیوں  سے ابھی یہ ان دیکھی ،تصور میں بدل رہی ہے۔

ہماری موجودہ حالت یہ ہے کہ بچوں کی موت، ملک کی ترقی کےدوسرے تمام معیارات کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ نوزائیدہ بچوں کی موت ہندوستان میں ہوتی ہے۔

سال 2008 سے 2015 کے درمیان ہندوستان میں 62.40 لاکھ بچّے پیدا ہونے کے 28 دنوں کے اندر ہی سپردخاک ہو گئے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ یہ مطالعہ کیا جائے کہ اس کی وجوہات  کیا ہیں اور پالیسیوں کی سطح پر ہماری وابستگی کہاں کمزور پڑ رہی ہے؟

نوزائیدہ بچوں کی موت کی جڑیں جنسی امتیازی سلوک اور زندگی پر دوررس اثر ڈالنے والے عمل اور عوامی صحت کی دیکھ بھال والی خدمات کو ختم کئے جانے کی پالیسی میں دبی ہوئی ہیں۔

قومی خاندانی صحت سروے (-NFHSچار) کے مطابق ہندوستان میں 26.8 فیصد شادی 18سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہیں۔ بہار میں 39.1 فیصد، آندھرپردیش میں 32.7 فیصد، گجرات میں 24.9فیصد، مدھیہ پردیش میں 30 فیصد، راجستھان میں 35.4 فیصد اور مغربی بنگال میں 40.7 فیصد شادی قانونی عمر میں پہنچنے سے پہلے ہو جاتی ہیں۔

کم عمر میں شادی، لڑکیوں کے کم عمر میں حاملہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔اس سے بچّیاں کمزور، ناکافی خوراک کی شکار  اور غیرمحفوظ بھی ہوتی جاتی ہیں۔

قومی خاندانی صحت سروے  (چار) کے مطابق صرف 21 فیصد خواتین کو ہی ولادت سے قبل کی تمام خدمات (چار صحت جانچیں، ٹٹنیس کا کم سے کم ایک انجکشن اور 100 دن کی آئرن فولک ایسڈ کی خوراک) مل پاتی ہیں۔

بہار میں یہ تعداد3.3 فیصد، مدھیہ پردیش میں 11.4 فیصد، مہاراشٹر میں 32.4 فیصد اور مغربی بنگال میں 21.8 فیصد ہے۔ ایسے میں محفوظ ولادت کیسے ہو اورنوزائیدہ کی حفاظت کی ان دیکھی  کیسے ہو؟

یہ خدمات خواتین اور بچے کی زندگی کی تحفظ کےنظریے سے بہت اہم ہیں، کیونکہ خون کی کمی اور صحیح دیکھ ریکھ کے فقدان میں ہی زچہ بچہ میں موت کاامکان بڑھ جاتا ہے۔

این ایف ایچ ایس (چار) کے مطابق ہندوستان میں 50.3 فیصد حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ بہار میں اس کا فیصد58.3 ہے۔ گجرات میں 51.3 فیصد، جھارکھنڈ میں 62.6 فیصد، مدھیہ پردیش میں 54.6 فیصد، اترپردیش میں 51 فیصداور مغربی بنگال میں 53.6 فیصد خواتین اس حالت میں خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں۔

غریبی کا صحت کے اوپر گہرا اثر ہوتا ہے اور صحت کا غریبی سےگہرا رشتہ بھی ہے۔ یہ ایک ضرورت رہی ہے کہ زچہ اور بچہ کی صحت کو لے کر کیے گئے  انتظام بہتر ہوں، مگر ایسا ہو نہیں پایا ہے۔

ہندوستان میں زچگی کے لئے ایک فیملی کو ذاتی طور پر3198روپےخرچ کرنا پڑتا ہے۔ مغربی بنگال میں یہ 7782روپے اور مہاراشٹر میں3487روپے ہیں، لیکن یہ خرچ مدھیہ پردیش میں 1387روپیے اور بہار میں 1724روپے یعنی بہت کم ہے۔ چونکہ صحت کے لیے سرکاری خدمات کی ترقی کے لئے سرکاری سرمایہ کاری بہت کم رہی ہے، اس لئے صحت پر ذاتی خرچ بہت بڑھتا گیا ہے۔ ایسے میں مدھیہ پردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں لوگ غریبی کی وجہ سے اچھی خدمات حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔

شہری –دیہی  عدم مساوات

حمل کے دوران، ولادت کے لئے اور نوزائیدہ بچہ کی حالت میں کچھ خاص قسم کی صحت سے متعلق خدمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہندوستان میں یہ ضروری خدمات شہروں میں زیادہ  حاصل ہیں اور گاؤں میں ان کی کمی ہے۔ نوزائیدہ  بچوں کی موت کی شرح کےمتناسب مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ ہندوستان کی سطح پر شہروں میں نوزائیدہ بچوں کی موت کی شرح 15 ہے، جبکہ گاؤں میں 29 ہے یعنی گاؤں میں موت کی شرح 1.9 گنا زیادہ ہے۔

مدھیہ پردیش میں یہ 1.8 گنا (شہروں میں 21 اور گاؤں میں 37)، اترپردیش میں 1.7 گنا (شہروں میں 20 اور گاؤں میں 34) اور بہار میں 1.5 گنا (شہروں میں 20 اور گاؤں میں 29) ہے۔سب سے زیادہ گہری کھائی آندھرپردیش میں ہے، جہاں گاؤں (29) میں نوزائیدہ بچوں کی موت کی شرح شہروں (12) سے 2.4 گنا زیادہ ہے، اسی طرح راجستھان میں گاؤں میں (34) یہ شرح شہروں سے (15) 2.3 گنا زیادہ ہے۔

قومی خاندانی صحت سروے (NFHSچار) سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں میں ہر پانچ میں سے صرف ایک حاملہ خاتون کو ہی زچگی سے قبل  مکمل طور پر صحت سے متعلق خدمات مل پاتی  ہیں۔ اسی طرح عنفوان شباب میں غذا اور تعلیم سے محرومی اور کم عمری  میں شادی کے سبب زچگی کے عدم تحفظ کے ساتھ  نوزائیدہ کی موت کی وجہ بھی بن جاتی ہے۔

سرکاری پروگرام کا سچ

ہم سوچ رہے ہیں کہ ہندوستان میں لاکھوں بچّے پیدا ہوکر ایک مہینے کے اندر یا کم عمر میں فوت ہو جا رہے ہیں، لیکن متعلق نظام بازاراور نجی نظام پر مبنی  معیشت میں پھنس گیا ہے۔

سال 2014-15 سے 2016-17 کے درمیان بچّوں اور خواتین کی صحت کے لئے حکومت ہند کے ذریعے 31890کروڑ روپے دیے گئے ؛ لیکن اس میں سے 7951کروڑ روپے خرچ ہی نہیں ہوئے۔  کہیں کوئی شوروغل نہیں ہوا! یہ رقم حکومتیں دیگر مقاصد مثلاً مذہبی پروگراموں یا سیاسی فائدوں کے لئے باستعمال کر رہی  ہیں۔

بچے کی صحت اور ان کی زندگی کا امکان براہ راست خواتین کی صحت اور ان کی سماجی حیثیت  سے منسلک ہے۔ پھر بھی حکومت کی صحت سے متعلق پالیسی اور پروگرام بچوں کی زندگی کو محفوظ بنانے میں بڑا کردار ادا کرسکتی ہیں۔

حکومت ہند، ہندوستانی نوزائیدہ منصوبہ بندی پرعمل کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آر ایم این سی ایچ+ اے پر عمل بھی کیا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ حکومت تمام بچے کی پیدائش کی جگہوں پرصحت سے متعلق  ضروری دیکھ ریکھ اور علاج و معالجے کا انتظام کر رہی ہے، خاص طور سے نوزائیدہ بچوں کے علاج کے لیے یونٹ  بنائے جا رہے ہیں مگر ان سب کا سچ کیا ہے؟

ہم سال 2014-15 سے 2016-17 کے بجٹ کا تخمینہ لگاتے ہیں۔ نوزائیدہ بچّوں کی زندگی اور زچہ کی صحت کے لئے ان تین سالوں میں بہار کو2947 کروڑ روپے دیے گئے، ان میں سے 838 کروڑ روپے خرچ ہی نہیں ہوئے۔

مدھیہ پردیش نے 2677 کروڑ روپے میں سے 445 کروڑ روپے خرچ نہیں کئے، راجستھان نے2079کروڑ میں سے 552 کروڑ روپے، اترپردیش نے4919کروڑ روپے میں سے 1643کروڑ روپے اور مہاراشٹر نے2119کروڑ روپے میں سے 744 کروڑ روپے خرچ نہیں کئے۔

صحت سے متعلق سرکاری خدمات  ضروری ہیں

اکثر دیہاتی ماحول سے آئے خاندانوں اور قبائلی سماج کو ‘ضعیف الاعتقاد’ کہہ‌کر ان کو دوئم درجے کا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تقریبا ًتین دہائیوں کی عوامی صحت خدمات کے تجزیے میں یہی نتیجہ نکالا گیا ہے کہ پسماندہ لوگ صحت سے متعلق خدمات کا استعمال نہیں کرنا چاہتے ہیں ، لیکن مدھیہ پردیش کے تمام ضلعوں میں چل رہے54اکائی (ایس این سی یو) کا تخمینہ بتاتا ہے کہ سماج بہت حد تک صحت خدمات کا استعمال کرتا ہے، بشرطیکہ خدمات صحیح معنوں میں  دستیاب ہوں۔

جس طرح سے صحت خدمات کی نجی کاری کی جا رہی ہے، اس کا سب سے گہرا منفی اثر زچہ کی صحت اور نوزائیدہ بچوں کی عمر  پر پڑے‌گا۔ مدھیہ پردیش میں نوزائیدہ بچوں کی صحت خدمات کا تجربہ بتاتا ہے کہ سماج میں سرکاری خدمات کی بہت مانگ ہے۔

وہ مجبوری میں پرائیویٹ  صحت مراکز کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔ منظم طریقے سے سرکاری ہسپتالوں کے معیار  کو خراب کیا جا رہا ہے، تاکہ لوگ نجی ہسپتال جانے پرمجبور ہوں۔

یہ ایک قابل ذکر حقیقت ہے کہ قبائلی اکثریت والے علاقے  کی سمیت28 ضلعوں میں ایس این سی یو میں بستروں کے استعمال / قبضے کی شرح 100 فیصد سے زیادہ رہی۔ یہ بالاگھاٹ میں 240 فیصد، بڈوانی میں 204 فیصد، چھتر پور میں 166فیصد، گنا میں 193 فیصد، جبل پور میں 164 فیصد، بھوپال میں 262 فیصد اندور میں 215 فیصد، گوالیار میں 247 فیصد اور شیوپوری میں 156 فیصد  رہی۔

ریاست کی سطح پر بستروں کے استعمال کا اوسط 119 فیصد رہا۔ اس کا مطلب ان یونٹس میں ضرورت کے مقابلے میں بستروں کی تعداد بہت کم ہے۔ وسائل کی کمی کا اندازہ ان حقائق سے بھی لگتا ہے کہ ان یونٹس میں 209 ریڈینٹ وارمر، 243 انفوژن پمپ، 155 پلس آکْسی میٹر کی بھی کمی ہے۔

آخر میں یہ پھر ثابت ہوتا ہے کہ ایس این سی یو میں بھی بحران تو ہے، کیونکہ وہاں ابھی پورے انتظامات نہیں ہیں۔ مدھیہ پردیش میں سال 2016-17 میں ان اکائیوں میں93395 نوزائیدہ بچّے داخل کرائے گئے، جن میں سے 12865کی موت ہو گئی۔

اسی طرح حکومت ہند کے ذریعے 1 جنوری 2017 سے نافذ کی گئی زچگی مفاداسکیم (زچگی امداد پروگرام) بھی ملک کے غیرمنظم علاقے کی 70 فیصد خواتین کو حق مادریت سے محروم کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ حاشیے پر رہنے والی خواتین حمل کی حالت کے دوران آرام نہیں کر پاتی ہیں، ان کو مزدوری کرنی ہوتی ہے، ان کو محدود غذاملتی ہے اور کام میں مصروف رہنےکی وجہ سے وہ صحت سے متعلق جانچ نہیں کروا پاتی ہیں ۔ ان وجوہات  سے حمل میں بچے کا مکمل ارتقا نہیں ہو پاتا ہے۔

یہی سبب ہے کہ 35.9 فیصد بچوں کی اموات کا سبب ان کا وقت سے پہلے پیدا ہونا اور پیدا ہوتے وقت ان کا وزن کم ہونا ہے۔ جب ان کو ماں کا دودھ نہیں ملتا ہے، تو وہ بہت جلدی انفیکشن کے شکار ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے جنرل رجسٹرار کے مطابق  انفیکشن (نمونیا-16.9 فیصداور ڈائریا-6.7 فیصد) کی وجہ سے 23.6 فیصد بچّوں کی موت ہوتی ہے۔

اس پس منظر میں بھی حکومت ہند نےحق زچگی (مادریت) پروگرام کو صرف ایک نقد رقم کی منتقلی کے پروگرام کی شکل میں جانا اور سمجھا ہے، جو ان کے خزانے کو کم کر رہا ہے۔ جوڑتوڑ کرکے سال 2017 کے لئے 16.4 ہزار کروڑ روپے کی بنیادی ضرورت کے مقابلے میں اس کے لئے صرف 2700 کروڑ روپےدیے گئے۔

اگر ہم زچہ کےتحفظ اور نوزائیدہ بچوں کی زندگی کو ایک سنجیدہ سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کےنظریے سے نہیں دیکھتے ہیں، تو اس مسئلے کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

جب تک اس موضوع پر انتخابی بحث نہیں ہوگی اور اس کے لئے ترجیح کی بنیاد پراقتصادی وسائل مختص نہیں ہوتے، تب تک حالات نہیں بدلیں ‌گے۔ مذہب کی سیاست میں، جب امتیازی سلوک کے بجائے اصول اور اقدار  شامل ہو جائیں‌گے، تب بھیڑوالی  تشدد نہیں ہوگی، بلکہ بچوں کی زندگی کے تحفظ کے لئے  کمیونٹی متحرک ہوگی۔

(مضمون نگار سماجی محقق اور اشوکا فیلو ہیں)