گراؤنڈ رپورٹ

رگھوور کے 1000دن میں جھارکھنڈ کا کتنا بھلا ہوا؟

جھارکھنڈ میں حکومت کے ہزار دن پورے ہونے پر اشتہارات کے ذریعےرگھوور حکومت اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے۔

RaghubarDas

جھارکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت ان دنوں جشن میں ڈوبی ہے۔ ہورڈنگس، زیبائش و آرائش، نعرے اور دعوے کے ساتھ تشہیرکا سلسلہ جاری ہے۔ یہ جشن، حکومت کے 1000 دن پورے کرنے کو لےکر ہے۔دراصل رگھوور داس پہلے وزیراعلیٰ ہیں، جنہوں نے کسی حکومت میں1000دن پورے کئے ہیں۔ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ان1000دنوں میں حکومت نے ترقی کے جو کام کئے، اصولی فیصلے لئے، وہ پچھلے 14 سالوں میں نہیں ہوئے۔

ان دعووں میں 14 سالوں سے لٹکی ہوئی مقامی پالیسی کااعلان کرنا بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی سرکاری تقریب اور اجلاس میں ‘ نیو انڈیا نیا جھارکھنڈ ‘ کا راگ گمان سے الاپا جا رہا ہے۔

28 ستمبر 2014 کورگھوور داس نے مکمّل اکثریت کے ساتھ اقتدار کی کمان سنبھالی تھی۔ اس سے پہلے 14 میں سے تقریباً 9 سالوں تک جھارکھنڈ میں بی جے پی کی ہی حکومت رہی۔ خود رگھوور داس تین بار وزیر کے علاوہ اپ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ویسے بی جے پی کے گھر میں1000دن بنام 14 سال کے دعوے کئی بڑے رہنماؤں کے گلے نہیں اتر رہے، مگر  وہ منھ کھول‌کر ہتھیلی جلانا نہیں چاہتے۔

11 ستمبر کو حکومت کی تقریب میں مرکزی وزیر نتن گڈکری شامل ہوئے۔ اس موقع پر5500 کروڑکی  سڑک تعمیرکے بڑے منصوبوں کا انہوں نے سنگ بنیاد رکھا اور افتتاح کیا۔مرکزی وزیر نے اپنی تقریر میں وزیراعلیٰ کی پیٹھ تھپتھپائی۔ جبکہ ریاستی حکومت نے تین سال کی کامیابیاں گنائی۔ بتایا کہ ان ہزار دنوں میں تقریباً ایک لاکھ تقرری کی گئی ہیں۔ جھارکھنڈ کی ترقی کی شرح بڑھ‌کر 8.6 فیصدہو گئی ہے، جو گجرات کے بعد ملک میں دوسرے نمبر پر ہے اور جلد ہی ریاست خوشحال ریاستوں کی صف میں کھڑی ہوگی۔اب آگے تین دنوں کے دورے پر بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ 17 ستمبر کو رانچی آ رہے ہیں۔ حکومت کے غریب فلاح و بہبود میلا میں وہ شرکت کریں‌گے۔ اس کے بعد 22 ستمبر کو دمکا میں تقریب کا اختتام ہوگا۔ وہاں مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ شامل ہوں‌گے۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ فروری مہینے میں ملک اور دنیا کے سرمایہ کار کو لبھانے کے لئے ریاستی حکومت نےمومنٹم جھارکھنڈ پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اس پروگرام کی تشہیر پر اکیلے چالیس کروڑ خرچ کئے گئے تھے۔ اب ریاست کو اس کا انتظار ہے کہ سرمایہ کاری کے نام پر 3.10 لاکھ کروڑ کی پیشکش پر ہوئے ایم او یو  کی سطح پر کب تک اترتے ہیں۔

غریبی مٹانے کا دعویٰ

وزیراعلیٰ ان دنوں کئی موقعوں پر کہتے رہے ہیں کہ اگلے پانچ سال میں جھارکھنڈ سے غریبی ختم کریں‌گے۔ کسی کو بےگھر رہنے نہیں دیں‌گے۔ 2017-18 کو حکومت غریبوں کے لیے فلاح و بہبود سال کی شکل میں منا رہی ہے۔ سرکاری دعویٰ ہے کہ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت نومبر تک گاؤں کے لوگوں کو 2.22 لاکھ گھر دے دئے جائیں‌گے، لیکن ابھی16000رہائش گاہ ہی بنائے جا سکے ہیں۔اس کے عداد و شمار بھی گنائے جا رہے ہیں کہ1000دنوں میں سات لاکھ گھروں میں بجلی پہنچائی گئی ہے۔ اگلےسال تک تیس لاکھ گھروں میں بجلی پہنچا دیں‌گے۔

Raghubar_ad

اقتصادی معاملات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جھارکھنڈ کی ترقی کی شرح کابڑھنا بے شک اچھے اشارے  ہیں۔ فی شخص آمدنی بھی قومی اوسط کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لیکن قومی اوسط کے برابر آنے میں طویل وقت لگے‌گا۔ ریاست میں 2015-16 میں فی شخص آمدنی62818 روپے رہی ہے۔

یہ فکر کم نہیں

2014 میں جھارکھنڈ میں بی پی ایل خاندانوں کی تعداد 35 لاکھ کے قریب تھی، کھانے کا حق اور غذائی تحفظ پر طویل وقت سے کام کرتے رہے سماجی کارکن بلرام بتاتے ہیں کہ یہ تعداد برقرارہے۔ اور فکر اس بات کی ہے کئی سرکاری اسکیموں اورپروگراموں کے بعد بھی ناقص غذا اور آدیواسی اور دلتوں کے درمیان ان کی غریبی اور روزگار بڑا مسئلہ ہے۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے4 کی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ جھارکھنڈ میں 48 فیصدی بچوں کی مکمل غذا نہیں مل رہی ہےاور ان میں چار لاکھ بچّوں کی جان خطرے میں ہے۔

دی وائر کے  لئے ہم رانچی سے محض بیس کلومیٹر دور پہاڑوں کی ترائی میں بسے انگڑابلاک کے ڈمرٹولی گاؤں پہنچے تھے۔ یہاں 80 قبائلی فیملی ہیں۔گاؤں کے سابق نائب مکھیا ہری منڈا بتانے لگے کہ چھے سال پہلے گاؤں کے لوگوں نے اپنے دم پر 6 کلومیٹر تک بجلی کے کھمبے گاڑے تھے۔ جس ٹھیکدار کو یہ کام ملا تھا، اس نے لوگوں کو مزدوری کی ادائیگی بھی نہیں کی۔

وہ لوگ اس بات کی فکر کئے بنا جون کی دوپہر میں پسینہ بہاتے رہے کہ گاؤں میں بجلی پہنچ جائے‌گی۔ کھمبے تو گڑے، پر تار نہیں جوڑے گئے۔ کئی دفعہ بجلی محکمہ کے بابو  صاحبوں کے پاس دریافت کرنے گئے۔ لیکن ہم آدیواسی جو  ٹھہرے، اپنا درد کس کو بتائیں۔گاؤں کے لوگ بتانے لگے کہ 22 سال پہلے بلاک سے کچھ افسر یہاں آئے تھے۔ پھر کسی نے خبر نہیں لی۔ سرکاری اسکیم کے تحت 17 بیت الخلا بنائے گئے ہیں، جن کا استعمال پانی کے فقدان کی وجہ سے  لوگ نہیں کرتے۔ پاس کے دوسرے ٹولہ ڈونبابورا تک جانے کے لئے، سڑک بنانے کے لئے کاغذ و ں میں پیمائش ہوتی رہی، لیکن کام نہیں ہوا۔

پتا چلا کہ سالوں پہلے ٹوٹے منڈا، جھپی کماری اور وجےمنڈاکے نام منریگا کے تحت کنوئیں کی اسکیم پاس ہوئی تھی۔ تیس فٹ کی کھدائی کے بعد پتھر نکلنے لگے، لہذا سرکاری بابو نے اسکیم روک دی۔ پشکر منڈا کہتے ہیں کہ آب پاشی کی سہولت مل جاتی، تو اپنے دم پر جی لیتے۔ غور طلب ہے کہ 17 سال میں اربوں خرچ کئے جانے کے بعد بھی ریاست میں 26 فیصد ہی آب پاشی کی سہولت دستیاب ہے۔

ٹوٹے منڈا کا کہنا تھا کہ روزگار ملتے نہیں، لہذایومیہ مزدوری کرنا اور لکڑی بیچنا لوگوں کی مجبوری ہے۔ اسی گاؤں میں غریبی، لاچاری، بیماری سے جدوجہد کرتے ہوئے دکھائی پڑے پوڑا منڈا۔ سرکاری ہسپتال کیوں نہیں جاتے، اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ کون ڈھوکر لے جائے‌گا۔ ان کی بیوی بتاتی ہیں کہ ہیلتھ سینٹر دس کلومیٹر دور ہے، جو اکثر بند رہتا ہے۔ پھر پیسے رہے، تب تو علاج کرائیں۔ چار بچّوں کو پالنا ہی مصیبت ہے۔

 سوال بہت سارے ہیں

گزشتہ ہفتے ہی زہریلی شراب سے رانچی میں کم سے کم 16 لوگ مارے گئے

سنگھ بھوم میں بچّہ چوری کی افواہ میں بھیڑ نے نو لوگوں کا قتل کر دیا

رام گڑھ میں ایک مسلم جوان کو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا

زمین کے سوال پر تین جگہوں پر پولس فائرنگ، سات لوگوں کی موت

تین مہینے کے دوران چھ کسانوں نے خودکشی کی

گئورکشا کے نام پر لاتیہار میں دو مسلم کو مارا گیا

گریڈیہہ میں مری گائے ملنے پر بزرگ مسلم پر حملہ، گھر پھونکا

عام آدمی کہاں؟

آدیواسی موضوعات اور گاؤں کے حالات پر لکھتے رہے جوان صحافی کورنیلیوس منج کا کہنا ہے : یہی فرق ہے۔ 656 ایکڑ زمین پر اسمارٹ سٹی رانچی بنانے یا ہزاروں لاکھوں کروڑ کی سڑک پل تعمیر منصوبوں میں آدیواسی، دلت، کسان اور مزدور کہاں شامل ہیں۔اسی ریاست میں قبائلی اپنے بچّے کی لاش پیٹھ پر لاد‌کر پیدل آٹھ کلومیٹر چلتا ہے۔ کیا یہی نیا جھارکھنڈ ہے؟حال ہی میں چائی باسا کے ایک دوردراز گاؤں کے برسئیت آدیواسی فیملی (بیرسا منڈاکےاصولوں کو ماننے والے) بلاک کے ہسپتال میں ڈاکٹر اور دوا نہیں ملنے کےشبہ پر اپنے معصوم بچّے کو لےکر علاج کے لئے پاس کے ضلع کھونٹی صدر ہسپتال پہنچے تھے۔ لیکن راستے میں ہی معصوم نے دم توڑ دیا۔

سیاسی ہتھکنڈا

ادھر حزب اختلاف،حکومت کے دعووں پر سوال کر رہی  ہے۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ایگزیکٹو صدر اور سابق وزیراعلیٰ ہیمنت سورین نے کہا ہے کہ جس ریاست میں زہریلی شراب سے پولیس کے جوان، عام آدمی کی موتیں  ہو رہی ہو، کسان خودکشی کر رہے ہوں، ہسپتالوں میں سیکڑوں کی تعداد میں بچّے دم توڑ رہے ہوں وہاں حکومت تقریب پر کروڑوں خرچ‌کر کےسیاسی فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

کانگریس اس بات پر نشانے لگا رہی ہے کہ وزیراعلیٰ، وزیر اعظم کو کاپی کرنے میں مصروف ہیں، سابق نائب وزیراعلیٰ بابولال مرانڈی نے میڈیا سے کہا ہے کہ حکومت عوام کے پیسے کا غلط استعمال کرنے میں لگی ہے۔۔جبکہ بی جے پی کے وزیر نیل کنٹھ سنگھ منڈا کا کہنا ہے کہ حکومت کی مضبوطی اور کام کرنے کی خواہش نے حزب اختلاف کی بےچینی بڑھا دی ہے۔ وزیر سی پی سنگھ اس پر زور دیتے ہیں کہ جو کام 14سالوں میں نہیں ہوئے اس کو ایک ہزار دنوں میں کر دکھایا گیا۔

دم توڑتے بچّے

اگست مہینے میں ریاست کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال راجیندر آیوروید انسٹی ٹیوٹ میں 103اور ایم جی ایم کالج اور ہسپتال جمشیدپور میں 64 بچّوں کی موت پر جانچ بٹھاکر دامن بچانےکی کوششیں جاری ہے۔ ابتدائی طور پر یہ باتیں سامنے آئی ہیں کہ ناقص غذا اورمعالجاتی سہولیات کی کمی سے یہ حالت بنی ہے۔

غور طلب ہے کہ اقتدار میں آنےکے بعد حکومت نے 2015 کے بجٹ  سے متعلق تقریر میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہرایک ضلع علاقائی ہسپتال میں ایک ایک یونٹ اور میڈیکل کالجوں میں دودو یونٹ ڈائلسس سینٹر کے قیام کے علاوہ فزیو تھراپی قائم کی جائے‌گی۔ یہ کام اب تک نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ ہسپتالوں میں بڑے پیمانے پر ڈاکٹروں اور نرسوں کے عہدے خالی ہیں۔

حکومت نے اس سال 23 جنوری کو بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ دو سال میں تمام سرکاری اسکولوں میں بجلی کی سہولت فراہم ہو جائے‌گی، لیکن اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ابھی 80 فیصدی اسکولوں میں بجلی نہیں ہیں۔ 96 فیصدی سرکاری اسکولوں یعنی 39 ہزار اسکولوں میں کمپیوٹر نہیں ہیں۔

تعلیمی حقوق پر کام کرتے رہے ڈاکٹر اےکے سنگھ کا کہنا ہے کہ پرائمری سطح پر استاد کی تقرری ، عمارت اور بیت الخلا بننے سے حالات سدھرے ضرور ہیں، لیکن معیاری تعلیم کے معاملے میں جھارکھنڈ پچھلی قطار میں شامل ہے۔ ہائی اسکولوں کے لئے 18 ہزار اساتذہ کی تقرری کا عمل بھی پورا نہیں ہو سکا ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں)