فکر و نظر

رویش کمار کا بلاگ : اب کی بار ایو نٹ سرکار

یہ ایونٹ سرکار ہے۔آپ کو ایونٹ چاہیے ایونٹ ملے‌گا۔ کسی بھی چیز کو میک ان انڈیا سے جوڑدینے کا فن سب میں آ گیا، جبکہ میک ان انڈیا کے بعد بھی مینیوفیکچرنگ کا اب تک کا سب سے خراب رکارڈ ہے۔

Make-in-india-Modi-Reuters

2022 میں بلیٹ ٹرین کی آمد کو لےکر امید بنائے رکھنے اور اس  کی ترسیل میں برائی نہیں ہے۔ نتیجہ پتہ ہےپھربھی امید ہے تو یہ اچھی بات ہے۔مودی حکومت نے ہمیں ان گنت ایونٹ دیے ہیں۔ جب تک کوئی ایونٹ یاد آتا ہے کہ ارے ہاں،وہ بھی تو تھا،اس کا کیا ہوا، تب تک نیا ایونٹ آ جاتا ہے۔ سوال پوچھ‌کر مایوس ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔

عوام کو ‘آشاآشا’ کا کھوکھو کھیلنے کے لئے ترغیب دے دی جاتی ہے۔ ترغیب کی تلاش میں وہ بھی راغب ہو جاتےہیں۔ ہونا بھی چاہیے۔ پھربھی ایمانداری سے دیکھیں‌گے کہ جتنے بھی ایونٹ لانچ ہوئے ہیں،ان میں سے زیادہ تر فیل ہوئے ہیں۔اکثرکے پورا ہونے کی ڈیٹ 2019 کی جگہ 2022کر دی گئی ہے۔ شاید کسی  نجومی نے بتایا ہوگا کہ 2022 کہنے سے اچھا ہوگا!

کاش کوئی ان تمام ایونٹ پر ہوئے خرچ کا حساب جوڑ دیتا۔ پتا چلتا کہ ان کے ایونٹ بازی سے ایونٹ کمپنیوں کا کاروبار کتنا بڑھا ہے۔ ٹھیک ہے کہ حزب اختلاف نہیں ہے،2019 میں مودی ہی جیت حاصل کریں‌گے، مبارکباد،ان دو باتوں کو چھوڑ‌کر تمام ایونٹ کا حساب کریں‌گے تو لگے‌گا کہ مودی حکومت کئی ناکام منصوبوں کی کامیاب حکومت ہے۔

اس لائن کو دو بار پڑھیے۔ ایک بار میں نہیں سمجھ آئے‌گا۔

2016-17 کی ریل بجٹ میں بڑودرا میں ہندوستان کی پہلی ریل یونیورسٹی بنانے کی تجویز تھی۔اس کے پہلے دسمبر 2015 میں منوج سنہا نے وڑودرا میں ریل یونیورسٹی کا اعلان کیا تھا۔اکتوبر 2016 میں خودوزیر اعظم نے وڑودرا میں ریل یونیورسٹی کا اعلان کیا۔سریش پربھو جیسے مبینہ طور پر قابل وزیر نے تین سال وزرات ریلوے چلایا لیکن آپ پتا کر سکتے ہیں کہ ریل یونیورسٹی کو لےکر کتنی ترقی ہوئی ہے۔

اسی طرح 2014 میں ملک بھر سے لوہا جمع کیا گیا کہ سردار پٹیل کا عظیم الشان مجسمہ بنے‌گا۔2014سے 17 آ گیا۔17بھی گزر رہا ہے۔لگتا ہے اس کو بھی 2022کے کھاتے میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔اس کے لیے تو بجٹ میں کئی سو کروڑ کی سفارش بھی کی گئی تھی۔

2007 میں گجرات میں گجرات انٹرنیشنل فائی نینس ٹیک سٹی (گِفٹ)اور کیرل کی کوچی میں اسمارٹ سٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ گجرات کے گفٹ کو پورا ہونے کے لیے70-80ہزار کروڑ کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ دس سال ہو گئے دونوں میں سے کوئی تیار نہیں ہوا۔ تحفے میں ابھی تک قریب 2000کروڑ ہی خرچ ہوئے ہیں۔دس سال میں اتنا، تو باقی پورا ہونے میں بیس سال لگ جائے‌گا۔

اب اسمارٹ سٹی کا مطلب بدل دیا گیا ہے۔اسے ڈسٹ بن لگانے، بجلی کا کھمبا لگانے، وائی فائی لگانے تک محدود کر دیا گیا۔ جن شہروں کو لاکھوں، کروڑوں سے اسمارٹ ہونا تھا وہ تو ہوئے نہیں،اب سو دو سو کروڑ سے اسمارٹ ہوں‌گے۔ گنگا نہیں نہا سکے تو پانی ہی چھڑک لیجیے جج مان۔

گفٹ سٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے بتایا جاتا تھا کہ دس لاکھ روزگار پیدا ہوگا مگر کتنا ہوا، کسی کو پتا نہیں۔ کچھ بھی بول دو۔گفٹ سٹی تب ایک بڑا ایونٹ تھا،اب یہ ایونٹ کباڑ میں بدل چکا ہے۔ایک دو ٹاور بنے ہیں، جس میں ایک بین الاقوامی اسٹاک ایکس چنج کا افتتاح ہوا ہے۔

آپ کوئی بھی بزنس چینل کھول‌کر دیکھ لیجئے کہ اس ایکسچینج کا کوئی نام بھی لیتا ہے یا نہیں۔ کوئی 20-25 فائی نینس کمپنیوں نے اپنا دفتر کھولا ہے جس میں دو ڈھائی سو لوگ کام کرتے ہوں‌گے۔ ہیرانندانی کے بنائے ٹاور میں زیادہ تر دفتر خالی ہیں۔

لال قلعے سے سانسدآدرش گرام یوجنا کا اعلان ہوا تھا۔ چند استثنا ئی مثالوں کو چھوڑ دیں تو اس منصوبے کی دھجیاں اڑ چکی ہیں۔ آدرش گرام یعنی مثالی گاؤں کو لےکر باتیں بڑی بڑی ہوئیں،امیدیں جگائی گئیں مگر کوئی گاؤں مثالی نہیں بنا۔ لال قلعے کے اعلان کی بھی کوئی قیمت نہیں رہی۔

جیاپور اور ناگےپور کو وزیر اعظم نے مثالی گاؤں کی شکل میں منتخب کیا ہے۔ یہاں پر پلاسٹک کے بیت الخلا لگائے گئے۔ کیوں لگائے گئے؟ جب سارے ملک میں اینٹ کے بیت الخلا بن رہے ہیں تو آلودگی کا عنصر پلاسٹک کے بیت الخلا کیوں لگائے گئے؟ کیا اس کے پیچھے کوئی کھیل رہا ہوگا؟

بنارس میں کیوٹو کے نام پر ہیرٹیج پول لگایا جا رہا ہے۔ یہ ہیرٹیج پول کیا ہوتا ہے۔ منقش مہنگے بجلی کا پول  ہیرٹیج پول ہو گئے؟ ای کشتی کوکتنے زور شور سے لانچ کیا گیا تھا۔اب بند ہو چکا ہے۔ وہ بھی ایک ایونٹ تھا،امیدیں جگائی گئی تھیں۔شنجو آبے جب بنارس آئے تھے تب شہر کے کئی جگہوں پر پلاسٹک کے بیت الخلا رکھ دیے گئے۔ پاخانہ پیشاب کے نکلنے کاکوئی انتظام نہیں ہوا۔ جب بدبو پھیلی تو میونسپل کارپوریشن نے پلاسٹک کے بیت الخلا اٹھاکر ڈنپ کر دیا۔

جس سال صفائی مہم لانچ ہوئی تھی تب کئی جگہوں پر صفائی کے نورتن اگ آئے۔ سب نورتن چنتے تھے۔ بنارس میں ہی صفائی کے نورتن چنے گئے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ نورتن آج کل صفائی کو لےکر کیا کر رہے ہیں۔

بنارس میں جس کو دیکھیے کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی کا بجٹ لےکر چلا آتا ہے اور اپنی مرضی کا کچھ کر جاتا ہے جو دکھے اور لگے کہ ترقی ہے۔ گھاٹ پر پتھر کی بینچ بنا دی گئی جبکہ لکڑی کی چوکی رکھے جانے کی روایت ہے۔ سیلاب کے وقت یہ چوکیاں ہٹا لی جاتی تھیں۔ پتھر کی بینچ نے گھاٹ کی سیڑھیوں کا چہرہ بدل دیا ہے۔ سفیدروشنی کی فلڈ لائٹ لگی تو لوگوں نے مخالفت کی۔اب جاکر اس پر پیلی پنّی جیسی کوئی چیز لگا دی گئی ہے تاکہ پیلی روشنی میں گھاٹ خوبصورت دکھے۔

وزیر اعظم کی وجہ سے بنارس کو بہت کچھ ملا بھی ہے۔ بنارس کے کئی محلّوں میں بجلی کے تار زمین کے اندر بچھا دئے گئے ہیں۔فوج کی زمین لےکر پلوریا کا راستہ چوڑا ہو رہا ہے جس سے شہر کو نفع ہوگا۔ ٹاٹا میموریل یہاں کینسر اسپتال بنا رہا ہے۔ رنگ روڈ بن رہا ہے۔ لال پور میں ایک ٹریڈ سینٹر بھی ہے۔

کیا آپ کو  جل مارگ وکاس پروجیکٹ یاد ہے؟ آپ جولائی 2014 کے اخبار اٹھاکر دیکھیے، جب مودی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں پانی کے راستہ کے لئے 42000 کروڑ کا اہتمام کیا تھا تب اس کو لےکر اخباروں میں کس کس طرح کے سبزباغ دکھائے گئے تھے۔ریلوے اور سڑک کے مقابلے میں مال ڈھلائی کی لاگت21سے 42 فیصد کم ہو جائے‌گا۔ ہنسی نہیں آتی آپ کو ایسے اعداد و شمار پر۔

جل مارگ وکاس کو لےکر گوگل سرچ میں دو پریس ریلیز ملی ہے۔ایک 10 جون 2016 کو پی آئی بی نے جاری کی ہے اور ایک 16 مارچ 2017 کو۔ 10 جون 2016 کےپریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں الہ آباد سے لےکر ہلدیہ کے درمیان ترقی کا کام چل رہا ہے۔ 16مارچ 2017 کے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ بنارس سے ہلدیہ کے درمیان پانی کاراستہ بن رہا ہے۔ الہ آباد کب اور کیسے غائب ہو گیا، پتا نہیں۔

2016 کے پریس ریلیز میں لکھا ہے کہ الٰہ آباد سے بنارس کے درمیان مسافروں کے لے جانے کی سروس چلے‌گی تاکہ ان شہروں میں بھیڑ کا مسئلہ کم ہو۔اس کے لئے 100 کروڑ کی سرمایہ کاری کی اطلاع دی گئی ہے۔ نہ کسی کو بنارس میں پتا ہے اور نہ الٰہ آباد میں،کہ دونوں شہروں کے درمیان 100 کروڑ کی سرمایہ کاری سے کیا ہوا ہے۔

یہی نہیں 10جون 2016 کی  پریس ریلیز میں پٹنہ سے بنارس کے درمیان کروز سروس شروع ہونے کا ذکر ہے۔ کیا کسی نے اس سال پٹنہ سے بنارس کے درمیان کروز چلتے دیکھا ہے؟ ایک بار کروز آیا تھا، پھر؟ ویسے بنا کسی تشہیر کے کولکاتا میں کروز سروس ہے۔ کافی مہنگا ہے۔

جولائی 2014 کے بجٹ میں 4200کروڑ کا اہتمام کیا گیاہے۔کوئی نتیجہ نظر آتا ہے؟بنارس کےرام نگر میں ٹرمنل بن رہا ہے۔ 16 مارچ 2017 کے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبہ پر5369کروڑ خرچ ہوگا اور چھ سال میں منصوبہ پورا ہوگا۔ 2014 سے چھ سال یا مارچ 2017 سے چھ سال؟

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ راشٹریہ جل مارگ کا تصور 1986 میں کیا گیا تھا۔ اس پر مارچ 2016 تک 1871کروڑ خرچ ہو چکے ہیں۔اب یہ صاف نہیں کہ 1986سے مارچ 2016 تک یا جولائی 2014سے مارچ 2016کے درمیان 1871کروڑ خرچ ہوئے ہیں۔ وزیر  مملکت آبی نقل وحمل نے پارلیمنٹ میں تحریری شکل میں یہ جواب دیا تھا۔

نمامی گنگے کو لےکر کتنے ایونٹ رچے گئے۔ گنگا صاف ہی نہیں ہوئی۔ وزیر بدل‌کر نئے آ گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھا جائے۔ آپ کو بھی پتا ہے کہ این جی ٹی نے نمامی گنگے کے بارے میں کیا کیا کہا ہے۔

13 جولائی2017کے انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق نیشنل گرین ٹربیونل نے کہا ہے کہ دو سال میں گنگا کی صفائی پر7000کروڑ خرچ ہو گئے اور گنگا صاف نہیں ہوئی۔ یہ 7000 کروڑ کہاں خرچ ہوئے؟ کوئی سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا تھا کیا؟یا سارا پیسہ بیداری مہم میں ہی پھونک دیا گیا؟آپ اس آرڈر کو پڑھیں گے تو شرم آئے‌گی۔گنگا سے بھی کوئی دھوکا کر سکتا ہے؟

اس لئے یہ ایونٹ سرکار ہے۔آپ کو ایونٹ چاہیےایونٹ ملے‌گا۔کسی بھی چیز کو میک ان انڈیا سے جوڑ دینے کا فن سب میں آ گیا جبکہ میک ان انڈیا کے بعد بھی مینیوفیکچرنگ کا اب تک کا سب سے خراب ریکارڈ ہے۔

نوٹ :اس پوسٹ کو پڑھتے ہی آئی ٹی سیل والوں کی شفٹ شروع ہو جائے‌گی۔ وہ ان میں سے کسی کا جواب نہیں دیں‌گے۔ کہیں‌گے کہ آپ اس پر اس پر کیوں نہیں لکھتے ہیں۔ٹائپ کئے ہوئے میسیج الگ الگ ناموں سے پوسٹ کئے جائیں‌گے۔ پھر ان کا سرغنہ میرے کسی لکھے ہوئے یا بولے ہوئے کو توڑمروڑ کر ٹوئٹ کرے‌گا۔ ان کے پاس اقتدار ہے، میں بےبس ہوں۔ داروغہ،انکم ٹیکس محکمہ اور سی بی آئی بھی ہے۔ پھر بھی کوئی ملے تو کہہ دینا کہ چھینو آیا تھا۔