حقوق انسانی

کیا مودی کو سردار سروور باندھ کا افتتاح کرتے وقت بےگھروں کی یاد آئی ہوگی؟

جس نرمدا پر بنے باندھ کا وزیر اعظم نے افتتاح کیا، اسی ندی میں اپنی بازآبادکاری کو لےکر مدھیہ پردیش کے سیکڑوں لوگ جل ستیہ گرہ کر رہے ہیں۔

AppleMark

17ستمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کا یوم پیدائش تھا۔ اس کو منانے کے لیے  ان کی آبائی ریاست گجرات میں نرمدا کے کنارے ایک عظیم الشان انعقاد کیا گیا۔سیکڑوں بھگوادھاری سادھو سنتوں کی موجودگی میں نرمدا ندی کا پانی گجرات لایا جا رہا ہے۔

پڑوس کے مدھیہ پردیش میں کچھ لوگ مودی کی سالگرہ  کو اپنے یوم وفات کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔نماڑ علاقے کی ہزاروں دیہی فیملی اپنے گھروں اور روزگار کی موت دیکھنے کو مجبور کئے گئے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے صدیوں سے ماں نرمدا ایک رحمدل دیوی رہی ہیں۔ ندی کے کنارے پر، ان کی عقیدت  میں، سیکڑوں مٹھیا، مندر، مسجد اور مزار بنائے گئے ہیں۔گاؤں اور چھوٹی آبادیوں کے لوگوں نے گھاٹوں کی تعمیر کی ہے اور بڑے پیار کے ساتھ ان کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ ان گھاٹوں پر روز آرتی ہوتی ہے اور نرمدا کے نام  پوجا ارچنا کی جاتی ہے۔یہی نہیں، ان گھاٹوں پر تمام کشتیاں بندھتی اورکھلتی رہتی ہیں۔ یہ بےشمار ماہی گیروں کے گھر ہیں جن کی زندگی کشتی پر، لوگوں کو ایک گھاٹ سے دوسرے تک پہنچانے اور مچھلی کا شکار کرنے  پر منحصر ہے۔

نرمدا کے کنارے بسے اس علاقے کے گاؤں اور قصبے کافی خوش حال ہیں۔اسی ریاست کے وہ علاقے جو  قحط زدہ رہتے ہیں اور وہ علاقے بھی جو ندی کے اوپری حصہ کے دونوں طرف بسے ہوئے ہیں جن کو اس ندی کے پانی سے ہی محروم رکھا جا رہا ہے،ان سب کے مقابلے میں نماڑ کا یہ علاقہ نرمدا میاکی مہربانی سے خوشحال ہے۔اوپری علاقے کا پانی اب وہاں رہنے والوں سے جبراً لےکر دور دور پہنچایا جا رہا ہے، بڑے  سرمایہ والے  اداروں کو بھی دستیاب کروایا جا رہا ہے۔پانی کے اس منتقلی کی حمایت میں یہ کہا گیا تھا کہ اس کا استعمال بجلی گھروں کو بنانے اور ان میں پیدا کی جانے والی بجلی یہاں کے کسانوں کے کام آئے‌گی۔ لیکن جو بجلی گھر بنے وہ ذاتی مالکان کے ہیں۔

ان کی بجلی اونچی قیمتوں پر حکومت  خریدتی ہے۔ یہ مہنگی بجلی ان کسانوں کے، جو پانی کی کمی کی وجہ سے سوکھے کھیتوں کے مالک بن گئے ہیں، پہنچ‌ کے باہر ہے۔ آج نماڑ میں رہنے والے دیہاتی لوگوں کے سامنے ان کی خوشحالی ہی نہیں بلکہ ان کے وجود کو ہی نگل جانے والی آفت منھ کھولے کھڑی ہے۔

اس علاقے کی زرخیزکالی زمین نرمدا کے پانی میں نہاکر کپاس، دور دور تک مشہور پپیتا، مختلف طرح کی سبزیاں اور تمام اناج پیدا کرتی ہے۔ لیکن یہی وہ علاقہ ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے ‘ ڈوب ‘ کے ڈر سے گھری زندگی گزرا رہا ہے اور اس کے خلاف مسلسل آزادی پانے کی لڑائی بھی لڑ رہا ہے۔2006 میں ہی اس علاقے کو ڈوب جانا چاہئے تھا لیکن آخری لمحوں میں سپریم کورٹ کی  مداخلت نےاس کو بچا لیا۔ عدالت باندھ کی اونچائی پر روک نہیں لگا رہا تھا لیکن وہ ڈوب سے متاثر ہونے والے لوگوں کی بازآباکاردی کو لےکر فکرمند تھی۔

 سماجی کارکن میدھا پاٹکر کے ساتھ سیکڑوں لوگ مدھیہ پردیش کی بڑوانی ضلعے کا چھوٹا باڑدا گاؤں میں سردار سروور باندھ‌کے بےگھروں کی مناسب بازآبادکاری کی مانگ کو لےکر نرمدا میں جل ستیہ گرہ کر رہے ہیں۔ فوٹو : پی ٹی آئی

سماجی کارکن میدھا پاٹکر کے ساتھ سیکڑوں لوگ مدھیہ پردیش کی بڑوانی ضلعے کا چھوٹا باڑدا گاؤں میں سردار سروور باندھ‌کے بےگھروں کی مناسب بازآبادکاری کی مانگ کو لےکر نرمدا میں جل ستیہ گرہ کر رہے ہیں۔ فوٹو : پی ٹی آئی

اس کا کہنا تھا کہ بازآبادکاری اور معاوضہ کا انتظام پہلے کرو پھر علاقے کو پانی کے حوالے کرو۔ یہ مداخلت علاقے کے لوگوں کے مسلسل جدو جہد کا نتیجہ تھا ؛ ایک ایسی جدو جہد جس کی اگلی قطاروں میں کسان، مزدور اور ماہی گیر گھروں کی عورتیں تھیں۔اپنی زمین، اپنا کاروبار، اپنے سماج اور اپنی تہذیب کو بچانے کے لئے انہوں نے جو  اپنی کمر کسی تو پھر وہ دہائیوں تک کسی ہی رہی ہے۔ اس تحریک کی رہنمائی نرمدا بچاؤ تحریک اور اس کے لیے وقف،  نڈر رہنما میدھا پاٹکر کر رہی تھی۔ یہ جدو جہد آج تک چل رہی ہے لیکن آج اس کا وجود خطرہ میں ہے۔ بازآبادکاری اور معاوضہ آج تک دن میں خواب دیکھنے جیسا ہی ہے۔ ان کی جگہ لوگوں کو جھوٹے وعدے،جھوٹے دعوے، سراسر جھوٹ اور زمینی سچائیوں کی جھوٹی تعریف ہی ہاتھ لگی ہے۔

ریاست اور مرکز ی حکومتوں کے دعوے سے عدالت بھی غیرمطمئن ہے۔ انہوں نے بار بار دئے گئے معاوضے اور بازآبادکاری کا ثبوت مانگا ہے۔اس بات کی مسلسل امید کی گئی کہ لوگوں کو ان کی  جدو جہد اور اس کے ساتھ جاری ان کی سخت جان محنت کا جائز  پھل ملے‌گا، اس کے بعد ہی ان کو ڈوب کا مقابلہ کرنا پڑے‌گا۔لیکن ہمارے وزیر اعظم جلدی میں رہتے ہیں۔ یہی نہیں ان کے یوم پیدائش کو منانا ضروری ہے۔ساتھ ہی مدھیہ پردیش کا پانی گجرات میں نومبر میں ہونے والے انتخابات سے پہلے لوگوں کو دکھانا بھی ضروری ہے۔اس لئے، ندی کے اوپری حصے میں باندھ‌کے  پھاٹکوں کو کچھ دن پہلے کھولا گیا۔ جس پانی کی وہاں بہت زیادہ ضرورت تھی اس کو نماڑ کا ڈوب شروع کرنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔

اس ڈوب‌کے بعد ہی گجرات میں معجزہ ممکن ہوتا،لیکن اس پانی کا فائدہ گجرات کے کسانوں کو بھی نہیں ہونے والا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی گجرات کے سابق وزیراعلیٰ سبھاش مہتہ جو بی جے پی کے ہی ہیں، نے اس بات کا خلاصہ کیا کہ اب تک وہ نہریں بنی ہی نہیں ہیں جو کسانوں کے کھیتوں کو پانی پہنچانے کے لئے ضروری ہیں۔تو یہ پانی گجرات کے کسانوں کے سوکھے کھیتوں کو ہرا بھرا بنانے کا کام نہ کرکے کئی سرمایہ  داروں اور ٹھنڈے مشروب کی مصنوعات کو مالامال بنانے کے لئے استعمال میں لایا جائے‌گا۔یوم پیدائش پر ہونے والے چمتکار کی تیاری کے دوران نماڑ میں ندی کا پانی کچھ دن پہلے لبالب ہو نے لگا ہے۔ 15 ستمبر کو موسلادھار بارش ہو گئی۔ اس سے حالت اور سنگین ہوئے۔ اسی دن ڈوب‌کے خلاف مزاحمت  پورے علاقے میں پھوٹ پڑی۔

14 ستمبر کی شام سے ہی چکھالدا گاؤں میں پانی گھروں میں آنے لگا اور وہاں پورا گاؤں دھرنے پر بیٹھ گیا۔ 15 ستمبر کو  پو  پھٹتے ہی بارش شروع ہو گئی لیکن اس کا ذرا بھی اثر ان بہادر عورتوں اور مردوں پر نہیں پڑا جو انجڑ شہر میں ریلی اور  جلسہ کے لئے یکجا  ہوئے تھے۔انجڑ ایک قدیم اور اہم قصبہ ہے جو علاقے کی  اہم بڑی منڈی بھی ہے۔ یہاں کے کاروباری زمانے سے بی جےپی کے حامی ہیں لیکن 15 ستمبر کو تحریک کے تئیں ان کی وفاداری بے مثال تھی۔

لگاتار برستے پانی میں ‘نرمدا بچاؤ، انسانیت بچاؤ ‘کے نعرے لگاتے ہوئے ہزاروں خواتین و مرد شہر کی گلیوں سے جلوس نکال رہے تھے اور پورا شہر، گھر سے نکل‌کر ان کے ساتھ بھیگنے اور ان کا ساتھ دینے کا کام کر رہا تھا۔دکاندار، کاروباری، ان کی عورتیں اور نوجوان، سب گھروں کے باہر تھے۔ بیچ  شہر میں جلسہ کیا گیا۔ اس کو میدھا  اور تحریک کے کارکنان نے خطاب کیا۔ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی (مارکسی) کی طرف سے میں نے بھی ان کے ساتھ اپنا بھائی چارہ اور حمایت کا اظہار کیا۔ پانی تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا لیکن کسی ایک آدمی نے اس سے بچنے کی کوشش نہیں کی۔

اس کے بعد،ریلی چھوٹا بڑدا کے لئے نکلی۔ یہ گاؤں بھی ڈوب کا شکار بنایا جا رہا ہے۔گاؤں کے باہر لوگوں نے بڑا بینر ٹانگ دیا ہے، ‘یہاں صرف بھوت پریت رہتے ہیں ‘کیونکہ حکومت کے مطابق گاؤں خالی ہو چکا ہے، گاؤں کے باشندے کی بازآبادکاری ہو چکی ہے۔ لیکن گاؤں کے لوگ تو وہیں موجود تھے اور وہ بھی ریلی میں شامل ہو گئے۔

جلوس گاؤں میں نعرے لگاتے ہوئے گھاٹ پہنچا۔ گھاٹ پر پانی پہنچ چکا تھا۔ اس سے نیچے کی طرف جانے والی سیڑھیاں کبھی دکھتی کبھی چھپتی تھیں۔ گھاٹ پر بڑا جلسہ ہوااور پھر اعلان کیا گیا کہ 3.30 بجے دوپہر کو 24 گھنٹے کا ‘ جل  ستیہ گرہ ‘ شروع ہو جائے‌گا۔سارے لوگ گھاٹ کی طرف بڑھے۔ وہ ماں نرمدا کی تعریف میں نغمہ گا رہے تھے۔ ان کی آواز  اس امید سے بھرے ہوئے تھے  کہ ان کی نرمدا ماں ان کو بچائے‌گی،ان کو زندہ رکھے‌گی،ان کی موت کا سبب نہیں بنے‌گی۔وہ لمحہ کتنا جذباتی تھا، بتانا مشکل ہے۔اس کے بعد،میدھا40عورتوں کے ساتھ گھاٹ پر بیٹھ گئیں۔ان کے پاؤں  پانی میں تھے۔ ان میں سے کچھ خواتین کافی عمر دراز ہیں۔ کچھ کافی کمزور ہیں۔ منجلا اپنے بیمار شوہر کو گھر چھوڑ‌کر آئی تھیں۔

شوہر نے کہا، جدو جہد ہے تو زندگی ہے ورنہ مرنا تو لکھا ہی ہےتو تم جاؤ جدو جہد کرو۔وہ خود بھی ٹھٹھر رہی تھیں لیکن بڑی مضبوطی کے ساتھ،پانی میں بیٹھ گئیں۔شیاما، بھگوتی اور ان کے جیسی دیگر تمام عورتیں جو تمام جدو جہد کی سپاہی ہیں، جن کے جسم پر تمام زخموں کے نشان ہیں، وہ سب بھی پانی میں بیٹھ گئیں۔ان جدو جہد نے نہ جانے کیسے معمولی لوگوں کو غیر معمولی مہم جو عورت بنا دیا ہے۔ندی کا پانی ستیہ گرہ پر بیٹھنے والوں کی کمر سے اوپر چلا گیا۔ حکومت کی ہٹ دھرمی کو توڑنے کے لئے انہوں نے اپنا ستیہ گرہ بڑھا دیا۔اور ستیہ گرہ پر بیٹھنے والی خواتین کی تعداد 129 ہو گئی۔حمایت کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں یکجا ہو گئے۔ گزشتہ سنیچر کو مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے کہہ دیا کہ وہ مودی جی کی سالگرہ منانے گجرات نہیں جائیں‌گے۔ شاید ان کی سمجھ میں آ رہا ہے کہ اپنے ہی لوگوں سے بے وفائی کرنا کتنا مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔

بارش بھی رک گئی ہے۔ پانی کا بڑھنا بھی دھیما ہو گیا ہے۔ شاید ڈوبنے کا خطرہ ایک بار پھر ہٹ جائے‌گا۔ایک فصل اور بوئی جائے‌گی، کاٹی جائے‌گی۔جدو جہد کے اگلے سیشن کی پھر نئی طاقت سے تیاری کی جائے‌گی۔ان کے اس جدو جہد نے لیکن وزیر اعظم کا یوم پیدائش اپنے موت کا دن بننے نہیں دیا۔

(مضمون نگار سابق رکن پارلیمنٹ اور ماکپا کی پولت بیورو رکن ہیں۔)