حقوق انسانی

اعظم گڑھ کے دل میں ناسور ہے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر

9سال گزرچکے ہیں، گرفتاری کے بعد انصاف کا عمل بہت اہمیت کاحامل نہیں ہے۔ جیلوں کے اندر اور باہر سازشوں کاسلسلہ جاری ہے۔ متاثرہ خاندان گو گرفتاریوں کے اس ناگہانی صدمے سے باہر آچکے ہیں لیکن انکی دشواریوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

Azamgarh_BH

نو سال قبل دہلی کی سڑکوں پر ہی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی تھی بلکہ ارترپردیش کاضلع اعظم گڑہ بھی سراپا احتجاج بنا ہوا تھا۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر ہر طرف سے سوالوں کی بوچھار تھی۔جواب میں پولیس کی کہانی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ ہر سوال کے جواب کو داخلی سلامتی کے نام پر فرقہ پرستی اور اندھی قوم پرستی کی چادر میں چھپانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ آخر میں وہ اقتدار بھی اسی فرقہ پرستی اور اندھی قوم پرستی کی بھٹی میں خاک ہو گیا اور آج تک خوف کے سائے میں اپنے وجود کی تلاش میں بھٹک رہاہے۔

 بٹلہ ہاؤس مبینہ مڈ بھیڑ میں طالب علم عاطف امین اور محمد ساجد عرف چھوٹا ساجد لقمئہ اجل بن گئے اور اسکے بعد شروع ہونے والی گرفتاریوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ صرف اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے 14 نوجوانواں کو انڈین مجاہدین کادہشت گرد کہہ کر گرفتار کر ملک کے کئ دہشت گردانہ واقعات سے جوڑ دیاگیا۔  اسکے علاوہ 7 نوجوانوں کو مفرور قرار دےدیا گیا۔ حالانکہ پانچ سال بعد اس فہرست میں شاداب احمد، محمد راشد اور شرف الدیں کے ناموں کے اضافے کے ساتھ یہ تعداد 10 ہو جاتی ہے۔۔ این آئی نے آخرالذکر تینوں کے خلاف 2012 میں ایک ایف آئی آر درج کی تھی جسمیں انسداد غیرقانونی سرگرمیوں کی دفعات لگائی گئی تھیں لیکن کسی واقعے کا ذکر نہیں تھا۔

9 سال گزرچکے ہیں، انڈین مجاہدین میں میڈیا کی دلچسپی پہلے جیسی نہیں رہی، مقدمات میں اب تک کی پیش رفت سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ استغاثہ کو اسے انجام تک پہنچانے میں دلچسپی کم ہے۔ گویا گرفتاری کے بعد انصاف کا عمل بہت اہمیت کاحامل نہیں ہے۔ جیلوں کے اندر اور باہر سازشوں کاسلسلہ جاری ہے۔ متاثرہ خاندان گو گرفتاریوں کے اس ناگہانی صدمے سے باہر آچکے ہیں لیکن انکی دشواریوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

 احمد آباد میں میں زیر سماعت مقدمےمیں گواہوں کی کل تعداد 3500 کے قریب ہے جن میں استغاثہ اب تک صرف 950 گواہوں کو ہی عدالت میں پیش کر سکا ہے۔ اسی طرح دہلی میں کل 1000 میں سے 400 کے قریب اور جے پور میں مجموعی اعتبار سے 1200 گواہوں میں سے نصف سے بھی کم کی گواہی عمل میں آئی ہے۔ ارناکلم میں گواہوں کی تعداد 122 ہے اور اب تک 65 نے ہی اپنے فرائض انجام دئے ہیں۔ ان مقدامات میں گواہوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کی حیثیت صرف نمائشی اور مقدمات کی ذینت بڑھانے کی ہے لیکن وہ استغاثہ کے ترکش میں طوالت کے تیربھی ہیں۔ اسکے علاوہ کئی مقامات ایسے ہیں جہاں ابھی تک مقدمات کی کاروئی شروع ہی نہیں ہو سکی ہے۔

سلمان کو گورکھپور گول گھر دھماکوں کا ملزم بنایا گیاہے۔ گورکھپور اسے لایا بھی گیا تھا لیکن دوسرے مقدمے کے سلسلے میں جے پور واپس بھیج دیا گیا لہذا یہاں سماعت التوا کا شکار ہے۔ گورکھپور دھماکوں کے وقت نابالغ تھا۔ سپریم کورٹ کے مطابق ہائی اسکول کی سند میں درج تاریخ پیدائش ہی عمر کا معیار ہوگی لیکن استغاثہ کے اعتراض پر جےپور سیشن کورٹ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کسی نابالغ کو زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے اور اسکی عمر کا مقدمہ قریب پانچ سالوں سے جے پور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔عارف نسیم پر احمدآباد کے علاوہ لکھنئو کچہری دھماکے کا بھی الزام ہے لیکن اب تک اسے لکھنؤ نہیں لایا گیا ہے جسکی وجہ سے اسے چارج شیٹ تک نہیں مل سکی ہے۔

 محمد سیف کو گورکھپورمیں بھی ملزم بنایا گیا ہے۔ عدالت کے سمن کے باوجود اسے اب تک گورکھپور نہیں لایا گیاہے۔ اسی طرح سلمان کانام احمدآباد دھماکوں میں شامل ہے مگر اسے اب تک وہاں گرفتار نہیں دکھایا گیاہے۔ لکھنؤ کچہری دھماکے کے تفتیشی افسر راجیش کمار سریواستوا کے ذریعہ2011 میں نمیش جانچ کمیشن میں داخل کئے گئے حلف نامے میں کچہری دھماکوں میں سیف الرحمان انصاری کے ملوث ہونے کا تذکرہ ہے لیکن اب تک اسکے اہل خانہ تک کو اسکی جانکاری نہیں دی گئی ہے۔ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اعظم گڑھ کے کتنے اور نوجوانوں کو دیگر مقامات پر ملزم بنایا گیا ہو اور اسے راز رکھا گیا ہو۔

 درج بالا حقائق سے یہ واٖضح ہوتاہے کہ تحقیقاتی اداروں بشمول استغاثہ کی دلچسپی ان نوجوانوں کو قانون کے مطابق سزا دلوانے سے زیادہ انھیں طویل عرصے تک جیلوں میں بند رکھنے کی ہے اور اگر زیر سماعت مقدموں سے انھیں بری کیاجاتا ہے تو اگلے مقدمات کے نام پر انکی عمر کے کچھ اور قیمتی سال ضائع کرنے کا قانونی جواز ان کے پاس موجود ہوگا۔

عام مقدمات کے برعکس دہشت گردی کے معاملات میں ایک بارگرفتاری ہو جانے کے بعد سب کچھ عدالت کے حوالے نہیں ہو جاتا بلکہ جیلوں کے اندر قیدیوں کے خلاف تشدد اور سازشیں ہوتی رہتی ہیں اور باہر متاثرہ خاندانوں کو نفسیاتی جنگ کا سامنا ہوتا ہے۔ ہندوستان کی سب سے محفوظ مانی جانے والی جیل تہاڑ میں سلمان پر قتل کا ایک ملزم قاتلانہ حملہ کرتا ہے اور جیل کا عملہ خاموش تماشائی بنا کھڑا رہتا ہے۔ محمد سرور اور دیگر قیدیوں پر جےپور سنٹرل جیل میں لاٹھیاں صرف اس جرم میں برسائی جاتی ہیں کہ انھوں نے حکام سے جیل میں ہی عید کی نماز ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

 احمدآباد کے سابرمتی جیل میں اچانک جیل اہلکار دھماکے کے ملزمان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور24 زیر سماعت قیدیوں کو بری طرح پیٹتے ہیں۔ ساجد منصوری کے فوت ہوجانے تک کی افواہ گردش کرنے لگتی ہے۔ اعظم گڑھ کے مفتی بشر اورعارف نسیم بھی کو زخمی کر دیا جاتا ہے۔ اسکےبعد جیل حکام انھیں مظلومین کے خلاف مقدمہ بھی قائم کراتے ہیں۔ چھوٹی موٹی وارداتیں اور بھپتیاں کسنا تو روز کے معمول میں شامل ہے۔ متاثرہ خاندان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب سے بھوپال اور وارنگل میں زیر سماعت قیدیوں کو فرضی مڈبھیڑ میں قتل کیا گیا ہے، انکے بچوں کو جیل میں شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ جیل اہلکار ان سے معنی خیز انداز میں ان واقعات کا تذکرہ کرنے سے بلکل گریز نہیں کرتے۔

 اسی طرح سے 9 فروری 2013 کو تہاڑ جیل میں افضل گرو کو پھانسی دی جاتی ہے اور 10 فروری کوسابرمتی جیل میں سرنگ کا معاملہ سامنے آتا ہے۔ ابتدا میں سرنگ کی لمبائی 26 فٹ بتائی جاتی ہے لیکن تحقیات میں وہ بڑھکر 214 فٹ ہو جاتی ہے۔ جیل کے ہائی سکیورٹی زون میں 7 فٹ اونچی اور 4 فٹ چوڑی اس سرنگ کی کھدائی کیسے ممکن کیسے ممکن ہو سکی، اسکی مٹی کہاں چھپائی گئی اسکا کوئی جواب تو نہیں ملا لیکن 22 نوجوانوں پر جیل توڑ کر فرار ہو جانے کی کوشش کرنے کا مقدمہ قائم کر دیاگیا۔

بٹلہ ہاؤس سانحہ اہل اعظم گڑھ پر اچانک آن پڑی آفت کی طرح تھا۔ متاثرہ خانداوں کا برا حال تھا۔ غم سے نڈھال مردوں کے لئے عورتوں اور بچوں کو سنبھالنا دشوار تھا۔ اوپر سے پولیس کی چھاپہ ماری، افسران کی پوچھ تاچھ اور میڈیا کی یلغار کے ساتھ کچھ مخفی طاقتیں انکی مشکلات میں مسلسل اضافہ کر رہی تھیں۔ سیف اور عاطف کے بینک کھاتوں سے تین ماہ میں تین کروڑ روپیوں کے لین دین کی جھوٹی خبر بہت منظم طریقے سے شائع اور نشر کروائی گئی عارف بدر کو ممبئی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اسکے والد بدرالدین اپنے بیٹے کی گرفتاری کی خبر سن کر بستر پر پڑے تو پھر صحتیاب نہیں ہو سکے۔ انکی والدہ کا زہنی توازن خراب ہو گیا جو ہنوزبرقرار ہے۔

 شوہرکے غم میں نڈھال عارف کی بیوی پر انکے ساتھ دو کمسن بیٹیوں اور ایک بیٹے کی کفالت کا بوجھ آ گیا۔ ساجد چھوٹا کے والد ڈکٹر انصار نے اپنے بیٹے پر الزامات اور موت کی خبر سنی تو بت بن گئے۔ بالکل خاموش اس چلتی پھرتی لاش کی بھی سانسیں اکھڑ گئیں۔ عارض خان کے والد ظفر عالم کوامید تھی کہ کسی دن انکا بیٹاضرور واپس آئیگا۔ لیکن امید مایوسی میں بدلتی گئی اور آخر میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ ابو راشد کے والد اخلاق احمد بیٹے کے غم میں چھپ چھپ کر روتے تھے لیکن گھر کی عورتوں کےلئے باعث تقویت تھے۔ آخر اس بوجھ کوبرداشت نہیں کر پائے اورانتقال کر گئے۔۔ ڈاکٹر جاوید صاحب کو جب انھوں نے بظاہر پریشان نہیں پایا تو انکی خود کشی کی منظم افواہیں کئی بار پھیلائی گئیں۔ لیکن غم کے اس دریا کو عبور کرتےہوئے متاثرہ خاندانوں کے لوگ ہر سازش ویلغار کا پورے حوصلے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔

سیاسی تبدیلی سے جمہوریت کا کوئی بھی شعبہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مرکز میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد مالیگاؤں دھماکہ کیس میں سرکاری رہی محترمہ روہنی سالیان نے باقائدہ پریس کو بتایا کہ این آئی اے کے ایک افسر نے ہندونواز مبینہ دہشت گردوں کے مقدمات کی پیروی میں نرمی برتنے کےلئے ان پر دباؤ بنایا تھا اور کہا تھا کہ مذکورہ ہدایت اوپر سے ہے۔ جیلوں میں مارپیٹ یہاں تک کہ قتل کی وارداتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن اجتماعی قتل اور انکو انکاؤنٹر کے نام پر جائز ٹھہرانے کی کوشش بغیر سیاسی پشت پناہی کے ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔

 وارنگل میں عدالت میں پیشی پر لے جاتے ہوئے ہتھکڑی بند زیر سمایت پانچ قیدیوں کاقتل ہو یا بھوپال میں زیر سماعت سیمی کے آٹھ نوجوانوں پر جیل سے فرار ہونے کا الزام لگا کر پولیس اہلکاروں کے ذریعہ گولیاں مارتے ہوئے وائرل ہونے والا ویڈیو اور انھیں وارداتوں کے حوالے سے دیگر زیر سماعت قیدیوں کو خوفزدہ کرنے کامعاملہ، عدلیہ کا اپنے زیر حراست قیدیوں کے تحفظ انحصار بھی اقتدار کی منشا کے مطابق رنگ بدلے کی مشاق ایجنسیوں پر ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح عدالتوں پر حکومت کی پیروی کی ذمہ داری بھی سرکاری وکیل کی ہوتی ہے اور ہر کسی سے روہنی سالیان ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ تعجب نہیں کہ کسی کرنل پروہت کی ضمانت عرضی کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل ڈائرکٹوریٹ جنرل آف ملٹری انٹیلی جنس کی جانچ رپورٹ کا حوالہ کیوں نہیں دیتا جسمیں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ مالیگاؤں دھماکے کے ملزم راکیش دھاوڑے کے کرنل پروہت سے رابطے تھے اور کرنل نے اسے غیر قانون طور پر اسلحے بیچے تھے۔

 دوسری طرف گلزار وانی جو اپنے اوپر قائم کئے گئے 11 مقدمات میں سے 10 میں بری ہو چکا تھا صرف جیل میں سڑائے رکھنے کے لئے کس طرح تفتیشی افسر نے جال بنے تھے اسکا انکشاف خود بارہ بنکی عدالت کے فیصلے سے ہوتا ہے جسمیں تستیشی افسر کی سرزنش کی سرزنش گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے گلزار وانی اور کرنل پروہت کو ضمانت دینے کے فیصلے میں ملزمان کو عدالتی فیصلوں کے انتظار میں طویل عرصے تک زیر حراست رکھنے کو بھی جواز بنایا ہے کرنل پروہت کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت عظمی نے کہا “اے ٹی ایس اور این آئی اے کی چارج شیٹ میں تضاد ہے۔ مقدمے کی کاروائی لمبی چل سکتی ہے۔ اپیل کنندہ نے پہلے ہی جیل میں 8 سال 8 مہینہ کا طویل وقت جیل میں گزارا ہے۔ یہ چیزیں پہلی نظر میں اسے ضمانت کا حقدار بناتی ہیں”۔  گلزار وانی کے معاملے میں چیف جسٹس جےایس کھیہر نے واضح طور پر کہا ہے کہ “کتنی شرم کی بات ہے! 11 میں سے اس پر تھوپے گئے 10 مقدمات میں وہ بری ہو چکاہے۔ ٹرائل میں اسکے خلاف کوئی قابل اعتماد ثبوت نہیں پایاگیا۔

 پولیس ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو جیل میں ڈال دیتی ہے اور عدالت کے سامنے ثبوت پیش نہیں کرتی”۔  مقدمات کی سماعت میں پیش رفت اور مسلسل ہوتی رہنے والی سازشوں کے پیش نظر دہشت گردی کے مقدمات کی تاریخ میں طوالت کے ریکارڈ کی طرف بڑھتے ہوئے ان معاملات میں بھی جیلوں میں قید کے لئے یہ فیصلہ عدلیہ کا معیار ہوگا یا سلمان کی عمر کے معاملے کیطرح استغاثہ کی عیاریوں سے معیار بدل جائےگا وہ بھی اس صورت میں جبکہ ان مقدمات کا سامنا کرنے والوں میں اکثریت طالب علموں کی ہے۔

(مضمون نگار حقوق انسانی کی تنظیم رہائی منچ کے رکن ہیں۔)