ادبستان

یوم وفات پر خاص : عشقیہ شاعری کے ممتاز شاعر میر تقی میر

عشقیہ شاعری میں میرؔ صاحب نے جو لطیف پر اثر اور دلفریب فضا خلق کی ہے اس میں ان کے مدھم اور دلنشیں لہجے کی بڑی اہمیت ہے۔

meer-taqi-meerمیر تقی میراُردو کی عشقیہ شاعری کے ایک ممتاز شاعر ہیں، ان کی حیثیت منفرد ہے، انھوں نے عشقیہ کیفیتوں کو انسان کے تمام احساسات اور جذبات پر فوقیت دی ہے اور باطن کے سانحے کو انتہائی پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں غالبؔ کی طرح پیچیدہ اور بھرپور شخصیت کی کیمیا گری نہیں ہے، اس کے باوجود شخصیت کی لطافت اور سرمستی متاثر کرتی ہے۔ عشقیہ کیفیات میں یہ لطافت اور سرمستی لطف پیدا کرتی ہے۔ میرکی شاعری کا امتیاز یہ نہیں ہے کہ اس میں بلاغت، گہرائی اور بلندی ہے بلکہ یہ ہے کہ اس میں جو احساسات ہیں ان میں سچی چاندی کی چمک ہے۔ ایک بڑی واضح عمومی شاعری ہے کہ جس کی جمالیات مشاہدات کو محسوس بناتی ہے۔

عشقیہ شاعری میں میرؔ صاحب نے جو لطیف پر اثر اور دلفریب فضا خلق کی ہے اس میں ان کے مدھم اور دلنشیں لہجے کی بڑی اہمیت ہے، اس لہجے میں کبھی کبھی برق کی سی جو لہر ملتی ہے وہ شخصیت کے سوز و گداز کی دین ہے، شرنگار رس لیے یہ شاعری عشقیہ تجربوں کا عرفان بخشتی ہے۔ میرؔ کی عشقیہ شاعری میں فراق کی اذیتیں ہیں، تمنّاؤں کے کچل جانے کے احساسات ہیں، سوز و گداز اور درون بینی ہے۔ خودفراموشی کی کیفیت ہے، وارداتِ قلب کا بیان ہے، ایسے تمام حسّی تجربوں میں عام انسانی تجربے ملتے ہیں، جمالیاتی عشقیہ تجربوں میں اکثر ایسی جدّت ملتی ہے جس کی تازگی متاثر کرتی ہے۔

شرنگار رَس کے اس شاعر نے محبوب کے بدن کو پہلے اس طرح دیکھا:

کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا

اُگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام

پھر اس طرح:

جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے

کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ

پہلے شعر میں جو مسرّت اور انبساط (Pleasure and Delight) ہے وہ محبوب کے بدن کے حسن کے مشاہدے کی وجہ سے ہے۔ محبوب نے ایسا لباس پہنا ہے کہ اس کا تمام بدن ’اُگلا پڑے ہے‘، دلفریب گداز بدن اپنے حسن کے ساتھ جامے سے باہر اُگل پڑا ہے۔ انتہائی خوب صورت اور پیارا منظر ہے۔ حسن کاری غضب کی ہے، جنسی لذّت اندوزی کی یہ کیفیت بصری حسن کے تاثرات کو بڑی شدّت سے اُبھارتی ہے۔

meer couplet 3

شعر پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے جامے اور بدن کے اس دلکش اور دلنواز نظارے کو دیکھ کر عاشق میں سرمستی سی پیدا ہو گئی ہے۔ دوسرے شعر میں منظر یہ ہے کہ محبوب کے بدن کے ساتھ تنگ جامہ لپٹا ہوا ہے، جامہ بدن پر چسپاں ہے۔ اب جذبے کا رنگ کچھ اور ہو جاتا ہے، جنسی لذّت اندوزی کی کیفیت اور ہو جاتی ہے، خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ خود محبوب کا تنگ جامہ بن کر اس لباس کی طرح اس کے جسم سے چسپاں ہو جائے! آرزو کی شدّت متاثر کرتی ہے، لذّت آمیز مسرّت اور انبساط پانے کی یہ آرزو غیر معمولی ہے۔ رشک کا اتنا خوب صورت مضمون خود میرؔ کے یہاں شاید ہی کہیں اور نظر آئے۔ یہ بھی بصری حسن کے دلکش تاثرات ہیں، یہ تاثرات جذباتی جنسی ہم آہنگی یا وصل کی آرزو تک پہنچا دیتے ہیں۔ پہلے شعر کے پیشِ نظر دوسرے شعر میں جنسی آرزومندی اور لذّت اندوزی کے تاثرات گہرے ہو گئے ہیں پھر شرنگار رس کے اس فنکار نے یہ جمالیاتی تجربہ پیش کیا ہے:

تنگیِ جامہ ظلم ہے اے باعثِ حیات

پاتے ہیں لطف جان کا ہم تیرے تن کے بیچ

محبوب کے بدن سے لذّت پانے کا یہ احساس بھی غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ محبوب کو تنگ لباس میں دیکھ کر کہا جا رہا ہے کہ یہ ظلم ہے۔ تیرے نازک اور لطیف جسم پر تنگ لباس کا دباؤ بڑا ظلم ہے، تیرے تن کے بیچ اپنی جان کو پاتے ہیں لہٰذا یہ سمجھ کہ تو ہے، تیرا جسم ہے، تیرا بدن ہے تو میں بھی ہوں، بدن اس طرح پوشیدہ رہے گا تو میری جان نکل جائے گی، تیرے تن کے بیچ میرے وجود کا آہنگ ہے، ظاہر ہے اگر محبوب یہ تنگ لباس اُتار دے اور بدن کے حسن کے ساتھ جلوہ گر ہو جائے تو میری جان بچ جائے۔ محبوب کے بدن کو دیکھنے کی آرزو سے یہ جمالیاتی تجربہ خلق ہوا ہے۔ اس شعر میں بھی وہی سادگی اور پرکاری ہے جو میرؔ کے بیشتر اچھے اشعار میں ہے۔ تجربوں کی زرخیزی کلامِ میرؔ کی ایک بڑی جمالیاتی خصوصیت ہے۔ اس شعر کا حسن اس جمالیاتی تاثر میں سمٹ آیا ہے کہ عاشق محبوب کے وجود میں جذب ہے اور وہ اس کیفیت کو پوشیدہ رکھنا نہیں چاہتا۔ محبوب بے لباس ہو جائے تو اس کے تن کے بیچ عاشق بھی نظر آنے لگے، غور کرتے جائیے تجربے کی زرخیزی متاثر کرتی جائے گی۔

meer couplet

میرؔ اگر شرنگار رَس کے ممتاز شاعر ہیں تو اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کا عاشق ان اشعار کے جمالیاتی تجربوں سے اور بھی آگے بڑھ کر محبوب کے جمال سے قریب تر ہو جاتا ہے۔ محبوب کا بدن، شرنگار رَس لیے، احساسِ جمال کا موضوع اس طرح بنا ہے:

بدن میں اس کے تھی ہرجائے دلکش

بجا بے جا ہوا ہے جا بجا دل

محبوب کا انگ انگ حسن کا دلکش نمونہ ہے، حسن کو محسوس کرنے، دیکھنے، ٹٹولنے اور چکھنے کی باتیں جیسے یکجا ہو گئی ہیں۔ ’دل‘ عاشق کا علامیہ ہے۔ محبوب کے ہر عضو یا ہر انگ کو دیکھنے، چھونے، ٹٹولنے، چکھنے کے لیے دل کی بے قراری حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔ عاشق بے قابو ہو جاتا ہے، کبھی ایک انگ یا عضو کے حسن کو دیکھتا، محسوس کرتا اور ٹٹولتا ہے اور کبھی دوسرے انگ یا عضو کو۔

’شرنگار رَس‘ کے ایسے تجربوں میں جہاں بصری حسن اور بصری تاثرات کے ساتھ حسِ حرکت اور حسِ حرارت کی اہمیت ہے وہاں لمسیت اور جنسی لذّت اندوزی کی اہمیت بھی کم نہیں ہے، ان سے بھی حسن کے تئیں بیداری پیدا ہوتی ہے اور جمالیاتی انبساط ملتا ہے، ان خصوصیتوں سے بھی اُردو غزل میں میرؔ کی جمالیات کو ممتاز درجہ حاصل ہوتا ہے۔

(شکیل الرحمن اردو میں جمالیاتی تنقید کے ممتاز نقاد تھے ۔میرتقی میر پر یہ اقتباس ان کی معروف کتاب ” میر تقی میرؔ کی جمالیات”سے نقل کیا جارہا ہے۔)