فکر و نظر

پاکستان کو ٹیررستان کہنا کتنا صحیح ؟

پاکستان صرف ایک اسٹیٹ نہیں ہے ؛وہاں لوگ بستے ہیں،نااہل،تنگ ذہنی اور فرقہ پرست سرپرستوں کے خلاف وہاں لوگ بولتے ہیں،جیل جاتے ہیں ،جان دیتے ہیں ، وہاں بھی سماج ہے ،شہریوں کے  حقوق کے لیے لڑ رہے حوصلے رکھنے والے نوجوان ہیں،اچھے دنوں کی امید میں بڑے ہورہے بچے ہیں ،قلمکار اور اداکار ہیں۔

pakistan-reutersپاکستان کو ہندوستان نے اقوام متحدہ میں’ٹیررستان’ کا نا م دے دیا۔اس سے ہمارے یہاں اکثر جشن و مسرت کا ابلاغ ہورہا ہے۔جیسے یواین کے منچ پر ہم نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لی ہو۔

مجھے لگتا ہے ہم نے خام  ڈپلومیسی کی ہے ۔ڈپلومیسی میں ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں دہشت گردی کوپاکستان کی شہ ملتی ہے ۔دہشت گرد وہاں تربیت حاصل کرتے ہیں ،انہیں وہاں سے پیسہ ملتا ہے،ہماری کرنسی وہیں سے پھر دہشت گردوں کی جھولی میں آگرتی ہے۔اس کے وافر ثبوت بھی ملتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔دہشت گرد وہاں بستے ہیں ،پناہ پاتے ہیں ،لیکن پاکستان محض دہشت گردوں کا ملک نہیں ہے ۔

پاکستان صرف ایک اسٹیٹ نہیں ہے ؛وہاں لوگ بستے ہیں ،سبھی پاکستانی دہشت گرد نہیں ہوسکتے ،نہ وہاں رہنے والے سب لوگ دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں ۔پاکستان میں اپنے ہی ملک کی حکومت میں دہشت گردی کو سر پرستی دینے ،جمہوریت کو بیکار بتانے ،دقیانوسی سماج کو بنانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف غصہ رکھنے اور جب تب اس کا اظہار کرنے والے لوگ بھی اچھی خاصی تعداد میں وہاں موجودہیں۔

نااہل،تنگ ذہنی اور فرقہ پرست سرپرستوں کے خلاف وہاں لوگ بولتے ہیں،جیل جاتے ہیں ،جان دیتے ہیں ، وہاں بھی سماج ہے ،شہریوں کے  حقوق کے لیے لڑ رہے حوصلے رکھنے والے نوجوان ہیں،اچھے دنوں کی امید میں بڑے ہورہے بچے ہیں ،قلمکار اور اداکار ہیں۔بھلے ہم نے اسٹیٹ کو نشانہ بنایاہو،پر گالی شہریوں کو بھی پڑی ہے۔گویا بلا وجہ انہیں بھی اندھیرے میں دھکیل دینا۔یہ اتنا ہی غلط ہوگا جتنا ہر مسلمان کو دہشت گرد قرار دیناہوتا ہے،یا ہر ہندو سنت کو ریپسٹ کہنا۔

مسئلہ پیدا کرنے والے پڑوسی سے بھی سارے رشتے ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہوتے ۔ہمارے تجارتی رشتے اب بھی ٹھاٹ سے قائم ہیں۔ڈپلومیٹ بنتے بگڑتے رہتے ہیں ۔پاکستان کا ادب ،موسیقی ہندوستان میں بڑی عزت سے بسا ہوا ہے۔جیسے علامہ اقبال کا’ سارے جہاں سے اچھا’۔مستقبل میں دونوں ملکوں میں سہل آمد و رفت،دوستی کی امید رکھنی چاہیے ۔جیسا کہ منموہن سنگھ نے کہا تھا،سرحدوں کو اپنے بہتر رشتوں سے ہم بے معنی بنادیں گے۔

مودی جی نے بھی نواز شریف کے گھر اچانک پہنچ کر کچھ ویسی ہی منشا ظاہر کی تھی ۔ایک آدھ مجلس میں بھی انہوں نے رشتے سدھارنے میں بھروسہ جتایا تھا۔ممکن ہے پاکستان کا نظام اس کے لیے ابھی تیار نہیں ،لیکن ہم کیوں راستے بند کرنے لگے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں ۔)