فکر و نظر

لڑکیوں کے لیے پورے یوپی کا سچ BHUجتنا ہی کڑوا ہے

یوگی حکومت سے پوچھنا چاہئے کہ یہ بیٹیوں کا تحفظ ہے یا ان سے دھوکا؟ لیکن کون پوچھے؟ جس میڈیا کو پوچھنا چاہئے اس نے تو سماجوادی پارٹی کی اکھلیش حکومت کی اقتدار سے بے دخلی کے ساتھ ہی ریاست میں جنگل راج ختم ہوا مان لیا ہے۔

Modi-Yogi-BHU1

بنارس کے انتظامیہ کے لئے بنارس ہندو یونیورسٹی میں برسوں سے چلے آ رہے ظلم وستم کے خلاف طالبات کے ذریعے شروع کئے گئے احتجاج سے نمٹنا مشکل ہو گیا ہے تو اس میڈیا کو بھی، ان کی نوٹس لینی پڑی ہے، جس نے ریاست کے گزشتہ اسمبلی انتخاب میں اکھلیش یادو کی ‘ سماجوادی ‘ حکومت کی بے دخلی کے ساتھ ہی ریاست میں جنگل راج ختم ہوا مان لیا تھا۔

طالبات کے اس احتجاج پر بحث اس لئے بھی کچھ زیادہ ہو رہی ہے کہ جب وہ مشتعل ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی وہیں ہیں-اپنے انتخابی حلقہ کے دورے پر۔ لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ اس اصلیت کو چھپانے کی کوششیں ابھی بھی کم نہیں ہوئی ہیں کہ بیٹیوں کے لحاظ سے باقی اتّر پردیش کا سچ بھی بنارس جتنا ہی کڑوا ہے۔

بنارس میں یہ طالبات مشتعل ہیں تو ریاست کی شراوستی ضلع کے اکونا تھانہ علاقے کے بھلوہیا دسوندھی گاؤں میں درندوں نے راجدھانی دلّی کے 2012 کے نربھیا سانحہ کو بھی شرمندہ کرتے  ہوئے نابالغ شادی شدہ بندو یادو کو دھان کے کھیت میں لے جاکر دھاردار ہتھیاروں سے گلے سے شرمگاہ  تک بےرحمی سے کاٹ ڈالا ہے۔اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے گھر سے تھوڑی دور واقع اپنے مویشیوں کو  سریا میں ان کو چارا دینے گئی تھی۔ بےبس پولیس اور انتظامیہ اس کے ساتھ درندگی کو لےکر ابھی تک اندھیرے میں ہی ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔

بہر حال، بیٹیوں کا حال پورے اتّر پردیش میں، اگر وہ ہائی پروفائل نہیں یعنی عام ہیں، یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے چھے مہینوں میں بھی اتنا ہی برا بنا ہوا ہے، جتنا اکھلیش حکومت کے دوران تھا۔اسمبلی انتخاب میں ان کے تحفظ کے مدعے کو بھرپور بھنانے والی بی جے پی کی یہ حکومت ایک کے بعد ایک مسلسل ان کا بھروسا توڑ رہی ہے۔ ان کے تئیں ہونے والے جرائم پر شرمانا یا ان کی ذمہ داری لینا بھی یہ نہیں سیکھ پائی ہے۔اس کے سبب ریاست میں بیٹیوں کے خلاف غنڈوں اور مسٹنڈوں کا ہی نہیں، پولیس اہلکاروں کی بےشرمی بھی کس قدر بڑھ گئی ہے، اس کو ان کے ذریعے انجام دی گئی کچھ وحشیانہ واردات سے سمجھا جا سکتا ہے۔

پہلے پولیس کی بات کریں تو کانپور دیہات سے گزشتہ 11 ستمبر کو تین لڑکیاں یوگتا، ہمانی اور لکشمی لاپتہ ہوئیں تو معاملے کی تفتیش میں پولیس کی کارکردگی کا عالم یہ تھا کہ اس نے اٹاوا میں چنبل کے بیہڑوں میں کواری ندی کے کنارے ملی دو لاشوں کو یوگتا اور ہمانی کی لاشیں بتا دی اور کہا کہ تیسری لڑکی لکشمی کا پتا نہیں چل رہا۔اس نے اس کو لےکر لکشمی کے دوست کلدیپ پر اغوا اور قتل کا مقدمہ بھی درج کر لیا۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ تینوں لڑکیاں صحیح سلامت ہیں اور کانپور دیہات سے کنّوج، جھانسی اور گوالیار ہوتے ہوئے گھومنے کے لئے اٹارسی پہنچ گئی تھیں۔

اب پولیس کے پاس اس سوال تک کا جواب نہیں ہے کہ جن لڑکیوں کی لاشیں چنبل میں ندی کے کنارے ملی تھیں، آخر وہ کون تھیں؟ المیہ  یہ ہے کہ شناخت کے بعد ان لڑکیوں کی لاشوں کو ندی میں بہایا جا چکا ہے۔ ایسی حالت میں بیٹیوں کا یقین کیسے برقرار رہ سکتا ہے؟

گزشتہ 24 اگست کو ریاست کی لکھیم پور کھیری ضلع کے لکھیم پور میں بابوصراف نگر میں اندھی ماں اور بیمار باپ کی بیٹی سے یکطرفہ ‘ عشق ‘ میں پاگل ہوئے روہت نام کے بددماغ نے پہلے اس کو بہانے سے گھر بلاکر اس پر موبائل چوری کا الزام لگایا، پھر بیچ سڑک پر تلوار سے اس کا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا۔

بچاؤ کی کوشش میں بیٹی کے دوسرے ہاتھ اور جسم کے دیگر حصوں میں بھی چوٹیں  آئیں۔ اس دوران نہ سڑک پر آنےجانے والوں نے اس کو بچانے کے لئے کچھ کیا اور نہ ہی ریاستی حکومت کی مشہور اینٹی رومیو اسکواڈ یا ‘ خاتون محافظ دستہ ‘ ہی نظر آیا۔آدھے گھنٹے بعد پولیس جائے واردات پر پہنچی بھی تو یوں ہاتھ کھڑے کئے ہوئے کہ وہ اور محکمہ صحت مل‌کر بھی ستم رسیدہ بیٹی کو لکھنوکے ٹراما سینٹر بھیجنے کے لئے ایمبولینس کا انتظام نہیں کر پائے۔ شہریوں نے چندہ کرکے ایمبولینس منگاکر اس کو لکھنؤ بھیجا، جہاں ڈاکٹروں نے انتھک کوشش سے اس کا ہاتھ تو پھر سے جوڑ دیا، لیکن اس کے آگے کی زندگی گزر بسر کی ابھی بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔

اس سے پہلے گزشتہ آٹھ اگست کو غنڈوں نے بلیاضلع کے ایک گاؤں کی، کالج جا رہی طالبہ کے ذریعے غنڈوں کی بدتمیزی کی مخالفت میں اس کی جرات کو ہی اس کا قصور بنا ڈالا۔ چاقوؤں سے گودگود‌کر بےرحمی سے اس کا قتل کر دیا اور بھاگ نکلے۔ کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے، جن میں سے دو کو پولیس نے پکڑ لیا ہے، جبکہ تیسرے نے عدالت میں خود سپردگی کر دی ہے اور دو ابھی فرار ہیں۔

واردات سے سست پڑی پولیس کہتی ہے کہ وہ ان سب کے خلاف قومی تحفظ قانون کے تحت کاروائی کر رہی ہے، لیکن یہ نہیں بتا پا رہی کہ جب غنڈے طالبہ کے جسم پر اپنے چاقو آزما  رہے تھے، اس کا وہ مشہور اسکواڈ کہاں تھا، جس کا نام پہلے اینٹی رومیو رکھا گیا تھا اور اب ‘ناری سرکشا بل’ کر دیا گیا ہے؟یوں تو یہ دستہ بیٹیوں کے تحفظ کے نام پر بھائیوں تک کے ساتھ ان کا نکلنا دشوار کئے رہتا ہے لیکن جب ان کو واقعی اس کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا کچھ پتا نہیں چلتا۔

دوسری طرف غیرسماجی سماج کی بزدلی کہیں یا ہوشیاری کہ جب طالبہ بچاؤ کے لیے چیخ رہی تھی، مبینہ طور پر بیٹیوں کی عزّت کو برتر ماننے اور کئی بار اس کو ناک کا سوال بناکر خون خرابہ تک پر اتر آنے والے چشم دید گواہ کی آنکھوں میں جیسے موتیابند ہو گیا تھا اور وہ طالبہ سے بھی زیادہ ڈرے ہوئے اپنی جان کا خیر منا رہے تھے۔اس کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ریاست کے عام لوگ ابھی بھی یوگی حکومت کے ‘ عام آدمی ہی ہمارے لئے سب سے بڑا وی آئی پی ‘ جیسی عوام کو لبھانے والےاعلان پر اعتبار نہیں کر پا رہے۔

ان کو یقین نہیں کہ کسی غنڈہ یا مسٹنڈے کا منھ لگنے یا اس کی خواہش مندی میں رکاوٹ ڈالنے کے باوجود ریاست میں امن کے ساتھ ان کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک متاثرہ بیٹیوں کی بات ہے، وہ کسی طرح ‘ بچ ‘ جا رہی ہیں تو یہ تک نہیں مان پا رہی ہیں کہ ان کو کسی بھی سطح پر  خوددار بنائے رکھنے لائق انصاف مل سکتا ہے۔اس کی ایک مثال دیوریا ضلع کے صدر کوتوالی علاقے کی وہ دوشیزہ بھی ہے، جو ایک غنڈے کے ذریعے اس کے ساتھ کی گئی بدتمیزی کی اذیت ڈھوتی ہوئی چھے مہینوں تک انصاف کے لئے حاکموں اور حکاموں کے دروازے کھٹکھٹاتی رہی اور پھر بھی اس کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ نہ پولیس سے اور نہ پنچایت سے۔

پولیس نے اس کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی۔ فقط تحریر لےکر جانچ‌کے بہانے اس کو لٹکائے رکھا۔ پھر پنچایت میں جو کچھ ہوا، اس کو بھول جانے اور معاملے کو رفع دفع کر دینے کی نصیحتیں ملنے لگیں تو اس دوشیزہ کی آنکھوں کے آگے ایسا اندھیرا چھایا کہ اس کو لگا کہ اس رات کی کوئی صبح ہی نہیں ہے۔مجبور ہوکر اس نے زہر کھا لیا۔ اس بات سے انجان کہ اس کے باوجود اقتدار یا سماج میں کوئی اس کے ساتھ ہوئی ناانصافی کی شرم محسوس کرے‌گا یا نہیں۔

چوبیس جولائی کو فیض آباد ضلع کے روناہی تھانہ علاقے کے ایک گاؤں میں ایک بدمعاش استاد نے اپنے یکطرفہ محبت کا نتیجہ نہ ملنے پر کالج جاتی طالبہ کو دن دہاڑے کاٹ ڈالا تھا تو کیا کسی نے اس بات کی ذرہ برابر بھی  شرم محسوس کی تھی؟کنّوج کی پندرہ سال کی گینگ ریپ  متاثرہ لڑکی کو بھی تب جان دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں دکھائی دیا، جب پولیس نے گینگ ریپ کی ایف آئی آر چھیڑخانی میں درج کی اور اس پر بھی کوئی کاروائی نہیں کی۔یقیناً پولیس نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ لڑکی بےحد غریب فیملی سے تعلق رکھتی ہے اور گینگ ریپ ملک کی راجدھانی میں، چلتی بس یا کار میں نہیں بلکہ تب ہوا جب وہ بکریاں چرانے گاؤں کے پاس واقع ندی پر بنے پل کے پاس کے سنسان چراگاہ میں گئی تھی۔

خبروں کے مطابق پولیس نے اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کو اتنی بھی توجہ نہیں دی جتنا کسی متاثرہ خاتون کے پس منظر سے ہونے پر اس کی چوٹی کٹ جانے کی افواہوں کو دیتی ہے۔ویسے بھی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ریاست کی پولیس کا اپنا ایک خاص طبقاتی کردار ہے، جس سے وہ کسی بھی حکومت کے دور میں نجات نہیں حاصل کر پاتی۔ اسی طبقاتی کردار کے تحت اس نے میرٹھ کے ایک پبلک اسکول میں معصوم بچّی سے ہوئے اجتماعی ریپ  کو سرے سے انکار کرنےکے لئے اس سرکاری میڈیکل جائزے کی رپورٹ کو بہانا بنایا، جو جان بوجھ کر واردات کے کافی دیر بعد کرایا گیا تھا۔پولیس کی سردمہری سے متاثرہ اس کی فیملی فریاد لےکر اس کے آئی جی کے پاس پہنچے تو ان کے اس سوال کا جواب کسی کے بھی پاس نہیں تھا کہ گینگ ریپ نہیں ہوا ہوتا تو وہ اپنے پھول سی بچّی کو لےکر اس کی بات ہی منھ پر کیوں لاتے؟ آخر اس سے سماجی بدنامی کے سوا ان کو اور کیا حاصل ہوگا؟

ظاہر ہے کہ متعلقہ قوانین کو سخت کئے جانے کے باوجود جہاں بیٹیوں کے قصورواروں کو سبق سکھانا اور سزا دلانا مشکل بنا ہوا ہے، تو اس کے لئے ان قوانین پر عمل کرنے کے تئیں حکومت کا رویہ ہی ذمہ دار ہے۔ اس رویے کا عالم یہ ہے کہ لکھنؤ میں بی ایڈ اور ٹی ای ٹی پاس ہونے کے باوجود بےروزگاری کی مار جھیل رہی خاتون مظاہرین میں سے ایک کو پولیس نے لاٹھیوں کے ساتھ لات سے بھی مار‌کر گرا دیا اور وہ بےہوش ہو گئی تو اس کو ہسپتال لے جانے کے لئے ایمبولینس بھی نہیں مل پائی۔یوگی حکومت بیٹیوں پر تیزاب سے کئے جانے والے حملوں کو روکنے میں بھی ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ ریاست کے دیگر اضلاع کی کون کہے، گزشتہ دو جولائی کو راجدھانی لکھنؤ کی علی گنج تھانہ علاقے میں پہلے اجتماعی عصمت دری اور تیزاب حملے کا شکار ہو چکی

ایک خاتون پر اس کے ہاسٹل کے پاس ہی ایک بار پھر تیزاب ‘ پلا ‘ دیا گیا اور یوگی حکومت کی وزیر برائے خواتین و خاندان فلاح و بہبود ریتا بہوگنا جوشی کاانصاف دلانے کی یقین دہانی بھی اس کے کچھ کام نہیں آئی۔ایسے میں کسی کو تو یوگی حکومت سے پوچھنا چاہئے کہ یہ بیٹیوں کا تحفظ ہے یا ان سے دھوکا؟ لیکن کون پوچھے؟ جس میڈیا کو پوچھنا چاہئے اس نے تو سماجوادی پارٹی کا اکھلیش حکومت کی اقتدار سے بے دخلی کے ساتھ ہی ریاست میں جنگل راج ختم ہوا مان لیا ہے اور ابھی اس کو سب کچھ ہرا ہرا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن آج اس فریب کی شرم نہیں محسوس کی گئی تو کل بیٹیوں کا ٹوٹا ہوا یقین نئے سماجی تخریب کاری کو جنم دے سکتا ہے۔

(مصنف سینئر صحافی ہیں)