حقوق انسانی

روہنگیا کو پناہ دینے سے انکار کرنے کاحکومت کا رخ ناقابل قبول: تھرور

’’ہندوستان کا ہزاروں برسوں کی تاریخ ہے کہ جس نے بھی یہاں آکر پناہ مانگی اس کو پناہ دی گئی اور مرکزی حکومت کو اس ترغیب سے بھاگنا نہیں چاہئے‘‘۔

Shashi-Tharoor

نئی دہلی : میانمار کے مسلمانوں کو غیر قانونی تارکین وطن اور سلامتی کے لئے خطرہ تسلیم کرنے کے مرکز کے رویے کو مسترد کرتے ہوئے سینئر کانگریسی لیڈر اور سابق وزیر وزیر مملکت ششی تھرور نے آج مرکز کی نریندر مودی حکومت سے انہیں پناہ دینے کے لئے قانون بنانے کی اپیل کی ۔ مسٹر تھرور نے يواین آئی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ’’ہندوستان کا ہزاروں برسوں کی تاریخ ہے کہ جس نے بھی یہاں آکر پناہ مانگی اس کو پناہ دی گئی اور مرکزی حکومت کو اس ترغیب سے بھاگنا نہیں چاہئے‘‘۔ غور طلب ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے اور عدالت عظمی میں داخل حلف نامے میں مرکزی حکومت نے صاف کہا ہے کہ روہنگیا مسلمان غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ انهوں نے کہا ’’جب ہندوستان میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے جو یہ طے کرے کہ کون پناہ گزین ہے اور کون پناہ گزین نہیں ہے تو آپ کس بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ میانمار سے آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو پناہ گزین کی حیثیت نہیں دی جا سکتی ہے، محض اس لئے کہ انہوں نے مناسب طریقہ کار پر عمل نہیں کیا‘‘۔

 ڈاکٹرتھرور نے کہا کہ یہ مناسب وقت ہے جب ہندوستان پناہ گزینوں کے معاملات میں قانون سازی کے ذریعہ ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کرے اور قانونی طور پر پناہ لینے کے خواہشمند افراد کے سلسلے میں ایک قانونی میکنزم طے کیا جانا چاہئے۔انہوں نے اس بات کو بھی مسترد کر دیا کہ زیادہ تر روہنگیا سیکورٹی کے لئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، “ان میں سے اکثرلوگ غریب خواتین اور بچے ہیں جو اپنا گھربار چھوڑ کر اپنی زندگیوں کو بچانے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ،وہ دہشت گرد کیسے ہوسکتے ہیں؟ ایسا کہہ کر اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکتے ، بلکہ ان میں ایسے عناصر کی نشاندہی کی جانی چاہئے جوروہنگیا کی آبادی میں اپنا اثرورسوخ رکھتے ہیں اور انہیں گمراہ کر نے کی کوشش کر سکتے ہیں اور یہ کام تحقیقاتی ایجنسیوں کا ہے۔ہر شخص کے لئے قومی سلامتی کا معاملہ انتہائی اہم ہے لیکن سیکورٹی ایجنسیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ پتہ لگائیں کہ سیکورٹی کے لئے کون سے عناصر خطرہ بن سکتے ہیں۔ڈاکٹر تھرور نے کہا کہ پناہ گزینوں کے معاملے میں انہوں نے ایک ذاتی بل کے ذریعہ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھیلیکن مرکزی حکومت نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے کہا، ’’کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے مرکزی حکومتکئی نکات پر غور کر تی ہے۔ کسی معاملے میں ملک میں کوئی قانون یا پالیسی نہیں ہو تو مواقع کے پیش نظر ہی ایسی پالیسیاں بناتی ہیںجو ان کے موافق ہوں ۔‘‘

مسٹر تھرور نے کہا کہ بی جے پی کے متعدد ممبران پارلیمنٹ پناہ گزین بل کے حق میں تھے۔ انہوں نے کہا، “آپ اس تین ہزار سال قدیم ہندوستانی روایت کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں جس نے ہمارے یہاں پناہ مانگنے والے کو کبھی منع نہیں کیا ہے۔” سابق وزیر مملکت نے کہا کہ بین الاقوامی معاہدے پر دستخط نہ ہونے کے باوجود ہندوستان نے تبت کے چکما اور سری لنکا کے تمللوگوں قبول کیا ہے، اس لئے ہمیں ان لوگوں کو صرف اس بنیاد پر مسترد نہیں کرنا چاہئے کہ وہ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فوجی کارروائی کے باعث بنگلہ دیش سے آئے تقریبا ایک کروڑ لوگوں کو ہم پناہ دے چکے ہیں ۔انہوں نے ایل ٹی ٹی ای (لٹےّ) کی مثال دیتے ہوئے کہا، “دہشت گردی صرف مسلم کمیونٹی سے نہیں بلکہ کسی بھی مذہب اورکمیونٹی سے منسلک ہو سکتی ہے۔”غور طلب ہے کہ ہندوستان میں اس وقت روهنگيا کمیونٹی کی آبادی تقریبا 40 ہزار ہے جوکافی عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں ۔ان لوگوں کو وطن بھیجنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف ان میں سے دو لوگوں نے سپریم کورٹ میں عرضی دائرکر رکھی ہے۔