فکر و نظر

یشونت سنہا : مجھے خبر ہے مرا بولنا ضروری ہے

حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس معاشی بحران کے لئے نوٹ بندی ذمہ دارنہیں ہے۔ وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔ معاشی بحران کا آغاز اس سے پہلے ہو گیا تھا۔ نوٹ بندی نے صرف آگ میں گھی کا کام کیا۔

yashwant-singh_pti وزیر خزانہ نے معیشت کی جوحالت کر رکھی ہے،اس کو لےکر اگر اب میں نہیں بولوں‌گا تو اس کا مطلب ہوگا کہ میں ملک کے تئیں اپنے فرض میں ناکام ہو گیا ہوں۔ میں یہ بات بھی جانتا ہوں کہ میں جو بولوں‌گا وہ بی جے پی میں موجود بہت سے لوگوں کے علاوہ کئی لوگ مانتے ہیں، جو کسی ڈر کی وجہ سے بول نہیں رہے ہیں۔ارون جیٹلی اس حکومت میں سب سے قابل اور لائق سمجھے جاتے ہیں۔ 2014 کے پارلیامانی انتخاب سے پہلے ہی یہ طے ہو چکا تھا کہ اگر مودی سرکار بنتی ہے تو اس میں جیٹلی ہی  وزیر خزانہ ہوں‌گے۔ جیٹلی نے امرتسر سے انتخاب لڑا اور ہار گئے۔ لیکن یہ بات بھی ان کی تقرری میں رکاوٹ نہیں بنی۔

یہ بھی آپ کو یاد ہی ہوگا کہ 1998میں انہی حالات میں اٹل بہاری واجپئی نےاپنے دو بےحد قریبی معاونین جسونت سنگھ اورپرمود مہاجن کو وزیر بنانے سے منع کر دیا تھا۔ارون جیٹلی کی سب سے زیادہ ضرورت اس وقت نظر آئی  جب وزیر اعظم نے ان کو نہ صرف  وزارت خزانہ سونپا بلکہ عدم سرمایہ کاری،تحفظ اور کارپوریٹ معاملوں کے وزارت کی بھی ذمہ داری دے  دی۔ ایک ساتھ چار وزارت، جن میں سے تین ان کے پاس اب بھی ہیں۔ میں نے وزارت خزانہ سنبھالا ہے اور میں جانتا ہوں کہ اکیلے اسی وزارت کو سنبھالنے میں کتنی محنت لگتی ہے۔وزارت خزانہ کا مکھیا اگر اس کے بہترین وقت میں صحیح طریقے سے کام کرے تو اسےاس کو سنبھالنے کے لئے پوری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔مشکل کے دور میں یہ چوبیس گھنٹے کا کام ہے۔ یہاں تک کہ جیٹلی جیسا سپرمین بھی اس کام کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔

جیٹلی لبرلائزیشن کے بعد سے اب تک کے سب سے خوش قسمت وزیر خزانہ ہیں۔ عالمی سطح پر کچّے تیل کی قیمت کافی کم ہے۔ لیکن پھر بھی اس موقع کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔یہ سچ ہے کہ رکے ہوئے پروجیکٹس اور بینکوں کے این پی اے جیسے مسائل وراثت میں ملے ہیں۔ لیکن اس سے کچّے تیل کی قیمت کی طرح ہی بہتر ڈھنگ سے نپٹاجا سکتا ہے۔نہ صرف کچّے تیل کی کم قیمتوں سے ملنے والے فائدے کو ضائع کیا گیا، بلکہ پہلے سے پیداشدہ مسائل کی حالت اور زیادہ خراب ہو گئی۔تو،آج ہندوستانی معیشت کی تصویر کیا ہے؟ نجی سرمایہ کاری اتنی کم ہو چکی ہے، جتنی گزشتہ 20 سالوں میں نہیں ہوئی۔صنعتی پیداوار ختم ہوگئی ہے، زراعتی بحران بھی ہے۔ صنعت کاری جو ایک بڑے طبقے کو نوکری دیتی ہے، معاشی بحران سے متاثرہے۔ باقی شعبہ  میں بھی ترقی سست ہے۔ برآمد گھٹ گئی ہے۔ معیشت کے ایک شعبے کے بعد دوسرا شعبہ معاشی بحران کی چپیٹ میں ہے۔

File photo of Indian PM Modi listening to FM Jaitley during the Global Business Summit in New Delhi

نوٹ بندی ایک مسلسل چلنے والی اقتصادی آفت ثابت ہوئی، تو وہیں جی ایس ٹی کو غلط طرح سے سمجھا گیا، بےحد خراب طریقے سےنافذ کیا گیا، جس کی وجہ سے لوگوں کا بزنس ڈوب گیا۔ لاکھوں لوگوں کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جبکہ محنت بازار میں آنے والے لوگوں کے لئے نئے مواقع میں پہلے سے ہی مشکل آ رہی ہے۔سہ ماہی درسہ ماہی معیشت کی شرح نموگر رہی ہے۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں یہ گر‌کر 5.7 فیصد پر آ گئی ہے، جو گزشتہ تین سالوں میں کم سےکم ہے۔حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس معاشی بحران کے لئے نوٹ بندی ذمہ دارنہیں ہے۔ وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔ معاشی بحران کا آغاز اس سے پہلے ہو گیا تھا۔ نوٹ بندی نے صرف آگ میں گھی کا کام کیا۔غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جی ڈی پی کی پیمائش کے لئے جو پیمانہ موجودہ حکومت استعمال کر رہی ہے، یہ 2015 میں بدلا گیا تھا، جس کے نتیجے کے طور پر ترقی کی شرح کے پچھلے درج کئے گئے سالانہ اعداد و شمار کے مقابلے میں 200 پوائنٹ کا اضافہ دیکھا گیا۔ تو، اگر جی ڈی پی پیمائش کے پرانے طریقے سے حساب کیا جائے تو 5.7 فیصد کی یہ شرح نمو اصل میں 3.7 فیصد یا اس سے کم ہوگی۔

یہاں تک کہ عوامی شعبے میں ملک کے سب سے بڑے بھارتیہ اسٹیٹ بینک نے بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ معاشی بحران عارضی یا ‘تکنیکی ‘ نہیں ہے، یہ بنی رہنے والی ہے۔ ساتھ ہی مانگ میں آئی گراوٹ سے حالت اور خراب ہوئی ہے۔یہ بات بی جے پی کےصدر کی کچھ دنوں پہلے، پچھلی سہ ماہی میں آئی گراوٹ کو لےکر دئے گئے بیان کے بالکل برعکس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشی بحران کا سبب ‘تکنیکی ‘ہے، جس کو جلد ہی سلجھالیا جائے‌گا۔اسٹیٹ بینک کے سربراہ کے مطابق مشکل میں چل رہے شعبوں کی لمبی فہرست میں ٹیلی کام محکمہ نئی انٹری ہے۔

اس گراوٹ کی وجہ معلوم  کرنا اتنا مشکل بھی نہیں ہے، نہ ہی یہ اچانک آئی ہے۔موجودہ بحران کو مستحکم کرنے کے لئے اس کو لمبےعرصے تک اکٹّھا ہونے دیا گیا۔اس کا اندازہ لگاکر اس کا حل نکالنا مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن اس کے لئے وقت نکالنا ہوگا،مدعے کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا اور پھر اس کے سلجھانے کے طریقے پر کام کرنا ہوگا۔کسی ایسے آدمی، جس کے پاس پہلے سے ہی ڈھیر ساری اضافی ذمہ داریاں ہیں،اس سے اتنی امید کرنا شاید زیادتی تھی اور اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے  ہے۔وزیر اعظم اب فکرمند ہیں۔ایسا لگتا ہےوزیرخزانہ اور ان کے افسروں کے ساتھ کی جانے والی وزیر اعظم کی بیٹھک غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔ وزیرخزانہ نے شرح نموکو واپس لانے کے لئے پیکیج لانے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم سبھی سانس روک‌کر اس پیکیج کا انتظار کر رہے ہیں۔اب تک تو یہ آیا نہیں ہے۔اب تک آئی نئی چیز صرف وزیر اعظم کی تشکیل شدہ اقتصادی مشاورتی کونسل ہے۔پانچوں پانڈو کی ہی طرح ان سے ہمارے لئے یہ نیا مہابھارت جیتنے کی امید کی جا رہی ہے۔

YaswantSinha_IEAricle

اس سال مانسون بھی کچھ خاص اچھا نہیں رہا ہے۔اس سے دیہی علاقوں کا بحران اور بڑھے‌گا۔کئی ریاست کی حکومتوں نے کسانوں کو ‘بڑی’قرض معافی دی ہے،جہاں کئی جگہ ان کا ایک پیسے سے لےکر کچھ روپیے تک کا قرض معاف کیا گیا ہے۔ملک کی 40سرفہرست کمپنیاں پہلے سے ہی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہیں۔ کئی اور کے ساتھ بھی یہ ہو سکتا ہے۔ چھوٹے اور منجھلے صنعت گہرے بحران میں ہیں۔جی ایس ٹی کے تحت 95000 کروڑ روپے کےکلیکشن پرانپٹ ٹیکس کریڈٹ کی مانگ 65000 کروڑ روپے ہے۔ حکومت نے انکم ٹیکس محکمہ سے بڑے کلیم کرنے والوں پر نظر رکھنے کو کہا ہے۔ کئی کمپنیوں خاص کر چھوٹے اور منجھلے صنعتوں میں کیش فلوکے مسائل سامنے آ چکے ہیں۔لیکن موجودہ وزارت خزانہ کے کام کرنے کا یہی طریقہ ہے۔

جب ہم حزب اختلاف میں تھے، تب ہم نے ‘ریڈ کلچر’ (چھاپے مارنے)کی مخالفت کی تھی،لیکن آج یہ حکومت کا طریقہ بن گیا ہے۔ نوٹ بندی کے بعد انکم ٹیکس محکمہ پر ایسے لاکھوں معاملوں کو جانچنے کا بوجھ لاد دیا گیا،جن سے لاکھوں لوگوں کی قسمت جڑی ہوئی ہے۔ ای ڈی اور سی بی آئی کے پاس بھی معاملوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔لوگوں کے ذہن میں ڈر پیدا کرنا نیا کھیل ہے۔معیشت بگڑنے میں اس کے بننے کے مقابلے بہت کم وقت لگتا ہے۔ 1998 میں ہمیں ملی خراب معیشت کو مستحکم کرنے میں کڑی محنت سے بھرے چار سال لگے تھے۔کسی کے پاس معیشت کو نئی زندگی دینے کے لئے کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے۔ابھی اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجےآنے میں وقت لگیں گے۔اس لئے آئندہ عام انتخاب تک اس کے مستحکم ہونے کی امید کم ہی ہے۔ معیشت کا لڑکھڑاکر گرنا طے ہے۔اپنی پیٹھ تھپتھپانے کے لئے جملےبازی ٹھیک ہے، لیکن حقیقت اس سے بہت الگ ہے۔وزیر اعظم دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے غریبی کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے۔ان کےوزیرخزانہ دن رات محنت کرکے یہ طےکر رہے ہیں کہ  عوام کو بھی اس کو اتنے ہی پاس سے دیکھنے کا موقع ملے۔

(یشونت سنہا سابق مرکزی وزیرخزانہ اور سینئر بی جے پی لیڈر ہیں۔ انکا یہ مضمون انڈین ایکسپریس میں 27 ستمبر 2017 کو شائع ہوا تھا۔ )