فکر و نظر

نئے ہندوستان کے نئے وعدے اور معاشی بحران

2019 کے انتخابات سے 18 مہینے پہلے، ہندوستان کی سیاسی معیشت پوری طرح سے لڑکھڑائی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، لیکن نریندر مودی کے ذریعے مسلسل 2022 تک پورے کئے جانے والے ناممکن وعدوں کی جھڑی لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔

Modi-GST-Photo-By-PIBاقتصادی بحران  کی خبروں نے اچانک بی جے پی کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ بےحد خراب طریقے سے نافذکئے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے بعد کچھ ویسی ہی بدانتظامی جی ایس ٹی کو نافذکرنے کے معاملے میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔ اس نے چھوٹے تاجروں کی کمر توڑ دی ہے، جس کا نتیجہ نوٹ بندی کے بعد کے مہینوں میں پیداوار اور بےروزگاری میں آئی گراوٹ کی حالت کے اور خطرناک ہونے کے طور پر سامنے آیا ہے۔

کاروباری کمپنیاں جی ایس ٹی کے نافذ ہونے سے پہلے اپنا اسٹاک خالی کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ ان کو امید تھی کہ وہ نئے محصولاتی  نظام میں نیا اسٹاک جمع کریں‌گی۔ لیکن، ماہرین کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کو خراب طریقے سے نافذ کئے جانے کی وجہ سے نیا اسٹاک جمع کرنےکی رفتار کافی سست ہے اور کمپنیاں فی الحال جی ایس ٹی نظام کے مستحکم ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہی وہ رفتار پکڑیں‌گی۔

اس بات کا دھیان رکھا جانا چاہئے کہ یہ سب تہواروں کے موسم کے ٹھیک پہلے ہو رہا ہے۔ 2017 کی دوسری چھ ماہی میں اس کا اثر اقتصادی ترقی پر پڑنا طے ہے۔ جیسا کہ کئی لوگوں نےخدشات  کا اظہار کیا تھا، جی ایس ٹی کو نافذکرنے کے بعد افراط زر میں بھی تھوڑا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ پچھلے کئی دہائیوں میں گھریلو پیٹرول اور ڈیزل کی سب سے زیادہ قیمت نے بھی صورت حال کو اور بگاڑنے کا کام کیا ہے۔

اس کو ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ تیل پر لگائے گئے رکارڈ ٹیکس مستحکم اقتصادی آمدنی کا واحدذریعہ  ہے، کیونکہ اس کو جی ایس ٹی کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ فی الحال جی ایس ٹی نہیں، تیل پر لگاٹیکس ہی مرکز ی حکومت کی جان بچائے ہوئے ہے۔

وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی مشکلوں کو اور بڑھاتے ہوئے جی ایس ٹی نیٹ ورک کی امیدوں سے کمتر کارکردگی (ایسا کہنا شاید صورت حال کی سنجیدگی کو کم کرکے بتانا ہے)نے18-2017میں ریونیومیں  کمی کا سنگین خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس سے مرکز کے مالیاتی حساب کتاب کے گڑبڑانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ وزارت خزانہ کو پہلا جھٹکا تب لگا جب جولائی کے مہینے کے لئے جی ایس ٹی کے تحت جمع ہوئے 95000 کروڑ روپے میں سے کُل 65000کروڑ روپے کے ری فنڈ کا دعویٰ اس کے سر پر آ گیا۔

اگر ان سارے ری فنڈ دعووں کو قبول‌کر لیا جاتا ہے، تو مرکز کے پاس محض 30000 کروڑ روپے ہی بچیں‌گے، جبکہ بجٹ میں ہر ماہ اصل ٹیکس ذخیرہ90،000کروڑ سے زیادہ ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ پرانے اسٹاک پر ری فنڈ کے پروویژن  کی وجہ سے پہلے مہینے میں ری فنڈ کے زیادہ دعووں کے آنے کا اندازہ پہلے سے ہی تھا۔ اندازہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں جی ایس ٹی سے زیادہ ریونیو حاصل ہوگا۔ لیکن، جی ایس ٹی این کے سافٹ ویئرمیں آ رہی دقتوں کو دیکھتے ہوئے اس مالی سال میں اس پوری قواعد کا مستقبل خلا میں معلق نظر آتا ہے۔

جی ایس ٹی این میں آ رہی مختلف پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے ریاستوں کے وزیر وں کی نو منتخب کمیٹی کی قیادت کر رہے بہار کے نائب وزیراعلیٰ سشیل مودی نے گزشتہ ہفتے ایک دلچسپ بیان دیا :’ ہم ناؤکو چلاتے ہوئے ناؤبنا رہے ہیں۔ ‘ صاف طور پر یہ بیان مرکز کو کٹگھرےمیں کھڑا کرتا ہے، جس نے بغیر مناسب تیاری کے جی ایس ٹی کو نافذ کر دیا۔

اس نئی کمیٹی کے ممبر کرناٹک کے وزیر زراعت کرشن بائرے گوڑا نے دی وائر کو بتایا کہ جی ایس ٹی این کے سافٹ ویئر کے ساتھ کئی دقتیں ہیں، جن کو ٹھیک کرنے میں کم از کم چھ مہینے کا وقت لگ جائے‌گا۔

ویڈیو : موجودہ معاشی بحران پر ایم کے وینو کے ساتھ امت سنگھ کی بات چیت

انہوں نے کہا، ‘فی الحال بےحد بنیادی پریشانیاں سامنے آ رہی ہیں۔ مثلاً، تاجران یہ شکایت کر رہے ہیں کہ انہوں نے رجسٹریشن کرا لیا ہے اور جی ایس ٹی رٹرن بھی اپلوڈ کر دیا ہے، لیکن اس کو سسٹم کے ذریعے نہیں دکھایا جا رہا ہے۔ سسٹم کی کچھوا چال نے ٹیکس بھرنے والوں کو دن میں تارے دکھا دئے ہیں۔ جی ایس ٹی سسٹم ان وائس اور مختلف مراحل، مثلاً، جی ایس ٹی آر-2 اور جی ایس ٹی آر-3، پر بھرے گئے رٹرن کو اپلوڈ کرنے میں بھی پریشانی پیدا کر رہی ہے۔ اس سے بھی خراب بات یہ ہے کہ ریاستی حکومتیں جی ایس ٹی ادائیگی کی نگرانی کرنے کے لئے کمپنیوں سے متعلق اعداد و شمار کو نکالنے میں نااہل ثابت ہو رہی ہیں۔ ‘

گوڑا کا کہنا ہے کہ کمیٹی کے ممبروں سے سافٹ ویئر پرووائڈر سے بات کی ہے اور ‘ان کا کہنا ہے کہ ان کو جولائی میں جی ایس ٹی کے نافذ ہونے سے پہلے آخری موقع پر پروٹوکال سونپا گیا۔ ٹرائل رن کرنے کے لئے مناسب وقت نہیں تھا۔ ‘ اس لئے اب ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ آخر سشیل مودی کے یہ کہنے کا کیا معنی ہے کہ ناؤ کی تعمیر، بہتی ہوئی کشتی پر بیٹھےبیٹھے کی جا رہی ہے!

سنگھ پریوار کے بڑے مفکروں  نے دیر سے اس بات کو ما نا  ہے کہ معیشت کی غیر مستحکم کشتی پہلے سے ہی نوٹ بندی کی وجہ سے آئے طوفان سے پچھاڑ کھاتے ہوئے سمندر میں بہہ رہی ہے۔ سنگھ پریوار کے ایک اہم اقتصادی مفکر ایس۔ گرومورتی نے کہا ہے کہ ایک ساتھ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، بینکوں کے این پی اے، سیٹل مینٹ پروسیس اور کالےدھن پر کئی سطحوں پر کئے جا رہے حملے نے تجارت کو بڑا جھٹکا دیا ہے۔

گرومورتی کا یہ اعتراف کافی دلچسپ ہے، کیونکہ وہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور نجی صنعت کار اور چھوٹے تاجران پر انکم ٹیکس افسروں  کی من مانی کارروائی کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک تھے۔ ٹیکس ڈپارٹمنٹ بڑے تاجروں پر ہاتھ نہیں ڈال رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کے ساتھ ان کے تعلق مدّتوں سے اچھے رہے ہیں۔ آپ کو اگر اس بات کا معنی سمجھنا ہے، تو آپ کو بس نوکری چھوڑ‌کر ہندوستان کی اوّل 500 کمپنیوں سے منسلک سینئر ٹیکس افسروں کی تعداد دیکھنی پڑے‌گی۔

یعنی سنگھ پریوار کے مفکر اب یہ کھل‌کر تسلیم کر رہے ہیں کہ مودی اور جیٹلی نے دراصل نوزائیدہ بچے کو سیدھے پانی میں تیرنے کے لئے پھینک دیا ہے۔ جی ایس ٹی کا موجودہ دور اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جولائی مہینے کے لئے جی ایس ٹی رٹرن داخل کرنے اور واجب ری فنڈ کا دعویٰ کرنے والے تاجران کو اس طرح پریشان کیا جا رہا ہے، مانو وہ کوئی مجرم ہوں۔

پہلے ایکسپورٹرز کو ہمیشہ ایکسائز ڈیوٹی سے آزاد رکھا جاتا تھا، کیونکہ وہ عالمی بازار میں مقابلہ کرتے تھے۔ جی ایس ٹی کے تحت، چونکہ تمام تاجران کو بالواسطہ محصول بھرنا پڑ رہا ہے، اس لئے ایکسپورٹرز سے 18فیصد جی ایس ٹی بھرنے کے لئے کہا گیا تھا، جس کو ان کے مال کو دوسرےملک بھیجنے سے پہلے واپس لوٹانے کی بات کہی گئی تھی۔

لیکن اب ایکسپورٹرز کی یہ شکایت ہے کہ ان کا ٹیکس ری فنڈ وقت پر نہیں آ رہا ہے۔ ایکسپورٹرز اس کے لئے انتظار نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ موسم کے حساب سے کام کرتے ہیں۔ مثلاً، کرسمس کے لئے باہر مال بھیجنا۔ 18فیصد جی ایس ٹی چکا دینے کے بعد ان کا کام کاجی سرمایہ پھنس جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی رقم ہے۔ ان کو چھوٹی مدت میں کام چلاؤ سرمایہ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرض لینے کے لئے اضافی رقم چکانی پڑ رہی ہے۔ اس سے ان کا منافع اور سمٹ رہا ہے۔

GST-Protest-photo-Reuters

ہندوستان قریب 300ارب امریکی ڈالر کا سالانہ ایکسپورٹ  کرتا ہے جس سے جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ آتا ہے۔ تصور کیجئے کہ جی ایس ٹی افسر برآمد قیمت کا 18 فیصد اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور اس کو وقت پر واپس نہیں لوٹاتے ہیں۔ یہ ایکسپورٹرز کے لئے کسی منحوس خواب سے کم نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ایکسپورٹرز کو فوری ری فنڈ کے اس تال میل کو سمجھ پانے میں  وزارت خزانہ ناکام رہا۔ ظاہر ہے اس کا خمیازہ کسی نہ کسی کو تو اٹھانا ہی پڑے‌گا۔

جی ایس ٹی کی بدانتظامی کے مدنظر، اگر 2017 کی دوسری چھ ماہی میں جی ڈی پی  شرح  نمو اپریل جون میں درج کئے گئے 5.7 فیصد سے بھی نیچے لڑھک جاتی ہے، تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ یقینی طور پر بی جے پی صدر امت شاہ کے اس جرٲت بھرے بیان کے باوجود کہ لوگوں کو ‘سرکاری اعداد و شمار کو نظرانداز کرنا چاہئے ‘ حکومت کے اندر معیشت پر منڈلا رہے سیاہ بادلوں کو لےکر بدحواسی کی حالت ہے۔

ہندوستان کے غیر رسمی شعبہ، خاص کر زراعت اور چھوٹی صنعتوں کو ہوئے نقصانات کی تفصیلی دستاویز تیارکیے گئے ہیں ۔ پچھلے کچھ مہینوں سے سوشل میڈیا پر اس مسئلے پرمسلسل اعداد و شمار کے سہارےبات کی جا رہی ہے۔ چھوٹی کمپنیوں (جن کا تمام کاروبار 25 کروڑ سے کم ہے) کو لےکر کئے گئے ریزرو بینک آف انڈیا کے ایک جائزے کے مطابق جنوری-مارچ، 2017 میں ان کی فروخت میں 58 فیصدی کی گراوٹ دیکھی گئی۔ جولائی کے بعد جی ایس ٹی نے ان کی بدحالی کو اور بڑھایا ہی ہوگا۔

بین الاقوامی مالیاتی خدمات گروپ، کریڈٹ سوئیس کی ممبئی واقع ریسرچ یونٹ نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہندوستانی معیشت بےحد خراب دور سے گزر رہی ہے اور نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے بڑے پالیسی اقدامات نے معیشت میں بڑی رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔

کریڈٹ سوئس کا کہنا ہے کہ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان رکاوٹوں کے ساتھ-ساتھ تمام سرکاری خرچ میں بھی انتہائی کمی آئی ہے۔ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ذاتی سرمایہ کاری کی غیرحاضری میں غالباً عوامی سرمایہ کاری ہی وہ اکلوتا انجن بچا تھا، جو ترقی کی گاڑی کو تھوڑا بہت آگے کھینچ رہا تھا۔

2019 کے انتخابات سے 18مہینے پہلے، ہندوستان کی سیاسی معیشت پوری طرح سے لڑکھڑائی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ مودی کے ذریعے مسلسل 2022 تک پورے کئے جانے والے ناممکن وعدوں کی جھڑی لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان نئے وعدوں کے پیچھے چھپا پیغام یہ ہے کہ 2019 میں اقتدار میں ان کی واپسی طے شدہ  ہے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سیاست اکثر چکمہ دیتی ہے۔ کسی نظام کی خوداعتمادی اور مقبولیت کے اپنے انتہا پر پہنچنے کے ٹھیک بعد پیروں کے نیچے کی زمین کھسکنا شروع کر دیتی ہے۔ رائےدہندگان 2018 کے بعد اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ اندازہ لگانا شروع کرے‌گا کہ ‘نئے ہندوستان ‘ کا وعدہ سچّا ہے یا پھر یہ ایک اور بلبلا ہے، جس کی تقدیر ‘ سَوَچھ بھارت ‘ کے کوڑےدان میں پائی جانی ہے۔

  (مضمون نگار دی وائر کے بانی مدیر ہیں)