حقوق انسانی

جی ایس کیش: بی ایچ یو سے جے این یوتک لڑائی جاری ہے

یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ لڑکیوں کے لیے جے این یو سے زیادہ محفوظ جگہ پورے ہندوستان  میں نہیں ہے،یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے اور اس کا کریڈٹ کئی معنوں میں جی ایس کیش جیسے سسٹم کو جا تا ہے۔

GSCASH_JNU_protestجواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)میںGender Sensitization Committee Against Sexual Harassment(جی ایس کیش،انسدادجنسی ہراسانی کے لیے کام کرنے والی کمیٹی )کو رد کیے جانےکے خلاف  طالبعلموں نےاپنی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔فیسٹو سیزن یعنی تہواروں کے باوجود،جبکہ اسٹوڈنٹ گھر گئے ہوئے ہیں ،27ستمبر کو طلبابڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آئے،اوریونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ حکومت کو یہ پیغام دیا کہ وہ مطلق العنانیت اور تاناشاہی کے آگے جھکنے والوں میں سے نہیں۔

قابل غورہےکہ جے این یو میں جی ایس کیش کے الیکشن کو غیرقانونی بتاتے ہوئےجے این یوانتظامیہ نےکارروائی کی بات کہی ہے۔اس سلسلے میں انتظامیہ نےالیکشن کمیٹی کے چیئر مین بھگت سنگھ سینی کو نوٹس بھی بھیجا تھا ، جس میں کہا گیا تھا کہ جی ایس کیش الیکشن ، ای سی میٹنگ کے 18ستمبر کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے،اس کے باوجوداگر وہ الیکشن  کرواتے ہیں تو چیف پراکٹر کی طرف سےان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی ۔اس وارننگ کے بعدبھی الیکشن ہونااور طلبہ و طالبات کا اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینابذات خود جمہوریت کی جیت ہے۔ ظاہر ہے طلبہ کسی بھی حال میں جی ایس کیش کے بجائےInternal Complaints Committee(آئی سی سی) کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس لیے اس بارالیکشن میں جیت ہار کی اپنی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ، جی ایس کیش  الیکشن بذات خود اس سوچ کے خلاف ایک احتجاج اور پروٹسٹ ہے جو سماج میں صنفی امتیاز کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔حالاں کہ انتخاب کے نتائج بھی آچکے ہیں اور نتائج اس لیے اہم ہیں کہ گزشتہ سالوں کی بہ نسبت اس انتخاب میں ایک ایسی تنظیم نے پہلا مقام حاصل کیا ہے ،جو دلت اور پسماندہ حقوق کی لڑائی میں  بہت نمایاں اور فعال رہی ہے۔اس تنظیم یعنی ‘برسا امبیڈکر پھولے اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن'(BAPSA)کی بھپالی مگارے(Bhupali  Magare) کے حصے میں سب زیادہ ووٹ آئے ہیں ۔بھپالی نے اپنی فیس بک پوسٹ پر لکھا ہے ؛

‘This year conducting GSCASH election, participating and voting in same is not just participation in electoral PROCESS but it is a PROTEST. It’s our resistance and it is our Loud and clear ‘NO’ to ICC and an assertive ‘YES’ to GSCASH.’

Bhupali Magare | Photo Credit : /Rahul Sonpimple FB Profile

Bhupali Magare |  Photo Credit : Rahul Sonpimple/ FB Profile

معاملے کی شروعات12ستمبر کورجسٹرار کے اس خط سے ہوئی تھی ،جس میں 18 ستمبر کو ہونے والی ای سی میٹنگ میں جی ایس کیش کو ہٹا کر آئی سی سی کو لانے کی بات کہی گئی تھی۔ان دنوں یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کے حقوق کو ہر سطح پر کچلنا چاہتی ہے ،اس لیے طلبا کے برسوں کی لڑائی اور سوچ سے پیدا ہونے والے اداروں پر بھی اس کی گہری نظر ہے۔اس لیے18 ستمبر کو  انتظامیہ نے 269ویں ایگزیکٹوکونسل کی میٹنگ میں جی ایس کیش کی جگہ آئی سی سی کولانے کی تجویز پاس کر دی۔اپنے اس عمل کو سہی ٹھہراتے ہوئے انتظامیہ نے یو جی سی ریگولیشن 2016 کا حوالہ دیا تھا۔دوپہر 1 بجے میٹنگ ختم ہونے کے بعد جی ایس کیش کوکوئی نوٹس دیےبغیر 2 بجے کے آس پاس جی ایس کیش کا آفس سیل کر دیا گیا ۔یونیورسٹی کے اس رویے کے بعد  جی ایس کیش اورالیکشن  کو  غیر قانونی قراردینےپر ہمیں زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

اس سسلسلے میں یہ جاننا  ضروری ہے کہ جی ایس کیش ،جےاین یو میں کیا کام کر رہی ہے اورآئی سی سی کے آنے سے کیا فرق پڑے گا؟

جی ایس کیش کا قیام جے این میں 1999میں وشاخا گائیڈلائن کے بعد عمل میں آیاتھا۔وشاخا گائیڈ لائن(1997)سپریم کورٹ کا ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ جس میں کورٹ نے جنسی استحصال   کے معاملوں سے نمٹنے کے لیے ایک گائیڈلائن طے کی۔اس میں بہت  سی باتوں کے ساتھ یہ کہا گیا کہ ہمارے ملک کا قانون ہر فرد کوعزت کے ساتھ کام کرنے کا حق دیتا ہے، عورتوں کو کام کرنے کے لیے ایک محفوظ ماحول ملنا اس کا بنیادی حق ہے۔اس گائیڈلائن کے پس منظر میں بھنوری دیوی (Bhanwari Devi)اور عورتوں کی لڑائی لڑنے والی تنظیم وشاخاکا رول بھی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔

 جی ایس کیش کا سب سے اہم اور بنیادی  کام کیمپس میں Gender Sensitizationکی سمجھ کو قائم کرنا اور فروغ دینا ہے۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس میں صنفی سلوک اورجنسی استحصال کے خلاف طلبا کی  سمجھ بنائی جاتی ہے،اور ضرورت پڑنے پر کارروائی بھی کی جاتی ہے۔

کسی بھی یونیورسٹی میں اس طرح کا ادارہ جو جنسی امتیازاور  استحصال کے معاملے میں پیش رفت کرتا ہے ،اس کو غیر قانونی قرار دینا کہیں سے بھیGender Justiceکی بات کر نا نہیں ہے ۔ چھوٹے شہر سے آئی ہوئی مجھ جیسی لڑکیوں کے لیے جے این یو،اپنی  تمام اچھی باتوں کے علاوہ اس ادارے کی موجودگی کی وجہ سے بھی خوبصورت ہوجاتا ہے۔میں یہ نہیں کہنا چاہتی کہ کوئی بھی ادارہ اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے ،لیکن اس کی اچھائیاں ،خاص طور سے صنفی امتیاز کے معاملے میں ایک سمجھ کو فروغ دینے کی صورت میں اپنی پہچان کے ساتھ جینے کا حوصلہ عطا کرتی ہی ہے۔

ویڈیو :  جی ایس کیش کو ختم کرنے کی کوشش پر  جے این یو اسٹوڈنٹس سے بات چیت 

 جی ایس کیش کی خاص بات بھی یہی ہے کہ یہ صنفی امتیاز کو چیلنج کرتی ہے ،لیکن اس میں درخواست دہندہ  لڑکی  ہو یہ ضروری نہیں ،لڑکے بھی اپنی شکایت لے کر جاتے ہیں ۔اس میں صنفی امتیاز کے بجائے سب کو  مساوی حقوق حاصل ہیں ۔ شکایت کرنے والا کوئی بھی ہو سکتا ہے طلبہ ، پروفیسر ، لڑکا ، لڑکی حتی ٰ کہ ملازم بھی  ۔ الیکشن میں بھی امیدوار وں کو  بغیر کسی صنفی امتیاز کے مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

آئی سی سی میں Gender Binaryکے تحت  مرد  عورت کے درمیان ہی  معاملات کو محدود کر دیا جائے گا۔یو جی سی کے ذریعے بنائی گئی سکشم کمیٹی (Saksham Committee)نے بھی جے این یو انتطامیہ کے اس فیصلے پر سوال اٹھایاہے۔اس کمیٹی کا قیام یو جی سی نے یونیورسٹی میں جنسی استحصال اورGender Sensitisationکے لیے کام کر رہی Bodiesکے ساتھ تعاون کرناہے ۔ اس کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بات کہی گئی تھی کہ یونیورسٹی میں  جنسی معاملات کے لیے کام کر رہی کسی بھی طرح کی تنظیم  کے لیے  ضروری ہے کہ وہ خود مختارہو۔ یعنی یونیورسٹی کی پاور اتھارٹی سے آزاد ۔قابل توجہ ہے کہ جے این یو میں جی ایس کیش ایک Autonomousباڈی ہےاور خود مختار ادارے کے طور پر  کام کر رہی تھی ، اس کے ممبران Electedہوتے ہیں ،جبکہ جے این یو انتظامیہ کی جانب سے  آئی سی سی میں نامزد کیے گئے ممبروں کی تعداد( 5)اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ پوری طرح سے یونیورسٹی کے اونچے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کے اختیار میں رہے گی۔

آئی سی سی  میں نامزد کیے لوگوں میں صدر کے لیے چیف پراکٹر رہ چکی لیڈی کا نام بھی شامل ہے ۔رہ چکی اس لیے کہہ رہی ہوں کہ’ 18ستمبر’ سے نئے چیف پراکٹر پروفیسر کوشل کمار شرما ہیں ،جن کا نام تو یونیورسٹی ویب سائٹ پر موجود ہے لیکن تصویر اب تک نہیں لگائی گئی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بہت جلدی میں انتطامیہ ایسا کرنا بھول گئی ہے۔ خیرآئی سی سی کی تشکیل کے لیے دلی یونیورسٹی کے ایک ایسے پروفیسرکونامزدکیا گیا ہے، جن پر خودجنسی استحصال  کا کیس درج ہے بلکہ وہ اس میں مجرم  بھی پائے گئے ہیں۔ذرا سوچیے ایک ایسا ادارہ جو اس طرح کے معاملات کی دیکھ ریکھ کے لیے بنایا جا رہا ہے، اس میں ایسے لوگوں کی  شمولیت؟ ایک اور نام بی جے پی کے ایک  شخص کی بیوی کا ہے جو این جی او چلاتی ہے ،ان پربھی  دو کیس درج ہیں ،جو خود دہلی سرکار نے درج کرائے ہیں۔اب آپ اس کمیٹی کے دائرہ کار  کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس  کے ممبر وں کی نامزدگی کا اختیار  بھی وی سی کو ہے؟

فرض کر لیجیے کہ وی سی کے خلاف  کوئی شکایت درج کی جاتی ہے تو اس صورت میں کمیٹی کے رول پر کس کو یقین ہوگا؟اول تو یہ کہ شاید کوئی  شکایت درج کرانے ہی نہ آئے ؟اس ایک بات سے بعد کی تمام صورتوں پر خود ہی غور کرلیجیے۔

بہت سی جگہوں پرلڑکیاں جنسی استحصال کی شکایت درج کرانے کی ہمت نہیں کر پاتی ہیں۔وجہ سب جانتے ہیں ۔لیکن جے این یو میں کیس درج ہوتاہے۔اس لیے ایسی خبریں بھی آتی ہیں ہیں کہ جے این یو میں جنسی استحصال کے معاملے بہت ہیں ،جبکہ سچائی یہ ہے کہ یہاں معاملے درج ہوتے ہیں ،دوسری جگہوں پر نہیں ؟ ایسا اس لیے بھی ہے کہ جی ایس کیش نہ صرف شکایت درج کرانے والے کی پرائیویسی کا خیال رکھتا ہے بلکہ پورا پروسس کمیٹی کے ممبروں تک محدود ہوتا ہے ، گواہ کو بھی باہر کچھ بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ انصاف ملنے کا یقین بھی ہوتا ہے کہ جی ایس کیش آزادانہ کام کرتی ہے۔ یہاں شکایت کرنے والی  کسی لڑکی کو یہ نہیں بولا جاتا کہ’ تم 6 بجے کے بعد باہر کیا کر رہی تھی یا صرف چھوا ہی تو ہے’۔شاید اس لیے بھی یہاں کی لڑکیاں ظلم برداشت کرنا نہیں جانتی،وہ اس کے خلاف لڑنا سیکھتی ہیں۔ اپنی بات کہنے کا حوصلہ کر پاتی ہیں اور اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر اترنا بھی جانتی ہیں۔

bhu-buzzورما کمیٹی نے بھی یہ بات مانی کہ جے این یو کی جی ایس کیش کمیٹی دوسری تمام یونیورسٹی کے لیے ایک رول ماڈل ہو سکتی ہے ۔ پھر اس کو ختم کر دینے کے منصوبے کے پیچھے کی حقیقت کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔بی ایچ یو کی طالبات سے کہا گیا تھا کہ ‘تم اسے جے این یو بنا دینا چاہتی ہو’میں یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ وی سی ،جے این یو کو بی ایچ یو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں،لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ بی ایچ یو کو یونیورسٹی  بنانے کے لیے لڑکیوں کو ابھی دیر تک سڑکوں پر رہنا ہوگا۔آج جبکہ ہر تعلیمی ادارے میں جی ایس کیش کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ،بی ایچ یو کی طالبات اس کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں ،جے این یو سے اس ادارےکو ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟

 یہ سوال یونیورسٹی انتطامیہ کے ساتھ حکومت  کے منصوبوں کی پول کھولتا  ہوانظر آتا ہے۔ جے این یو میں موجودہ  وی سی کے آتے ہی جتنی تبدیلیاں ہوئی ہیں،اس سے کم و بیش سب واقف ہیں ۔یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ لڑکیوں کے لیے جے این یو سے زیادہ محفوظ جگہ پورے ہندوستان  میں نہیں ہے،یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے اور اس کا کریڈٹ کئی معنوں میں جی ایس کیش جیسے سسٹم کو جا تا ہے، پھرسوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک اچھی بھلی کام کر رہی کمیٹی کو اچانک برخاست کرنے کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟

وجوہات بہت ساری ہیں ،کچھ سیاسی ہیں تو کچھ معاشرتی اور ان سب سے کہیں زیادہ اخلاقیات کے نام پر صنفی امتیاز کو بڑھاوا دینے والی سوچ ،ہمیں اس بیہودہ او ر گندی  سوچ سے لڑنے کی ضرورت ہے ۔جے این یو نے اس لڑائی  کاآغاز کر دیا ہے،پورے جوش و خروش کے ساتھ ،اساتذہ بھی اس لڑائی میں طلبا کے ساتھ ہیں ۔عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جا چکا ہے،آگے قانونی لڑائی ہے ۔

لیکن آخر میں اہم سوال یہی ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں انتظامیہ کا رول ان دنوں جمہوری قدروں کے خلاف کیوں ہے ؟ اس کیوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے بی ایچ یو سے جے این یوتک لڑائی جاری ہے ۔