فکر و نظر

دین دیال اپادھیائے:مسلم مخالف ذہنیت کوسرکاری فلاسفرکیوں بنایا جارہا ہے؟

ان کواس طرح پیش کر نے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے اس ملک میں گاندھی کے بعدوہی سب سے بڑے دانشور /فلاسفر ہوں ،جن کو پہچانا نہیں گیا۔تو پہلا سوال یہی ہے کہ وہ کس قسم کے فلاسفر ہیں،جن کو ان کے جنم کے 100ویں سال میں ہی پہچانا جارہا ہے ۔

PTI9_25_2017_000050B

دین دیال کی پیدائش کے سو سال پورے ہوئے ،ہماری حکومتیں،مرکزی اورصوبائی، جہاں جہاں بی جے پی کی سرکار ہیں ،انہوں نے بہت دھوم دھام سےان کی سالگرہ منائی ہے۔بہت ساری سرکاری اسکیموں کے نام دین دیال اپادھیائےکے نام پر رکھ دیےگئے ہیں ۔آسام کی سرکار نے 12سے زائد کالجوں کے نام ان کے نام پر کر دیے ہیں۔اس بات کو لےکرآسام میں غصہ بھی ہے ،لوگ جلوس نکال رہے ہیں۔اس کی مخالفت  کررہے ہیں۔ان کا کہناہے کہ آسام سے دین دیال اپادھیائے کو ئی لینا دینا نہیں تھا۔لیکن یہ صرف آسام میں نہیں ہورہابلکہ تمام سرکاری اشتہاروں میں پوسٹرز میں وزیر اعظم اور ان کی تصویریں نظر آنے لگی ہیں۔

ان کواس طرح پیش کر نے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے اس ملک میں گاندھی کے بعدوہی سب سے بڑے دانشور /فلاسفر ہوں ،جن کو پہچانا نہیں گیا۔تو پہلا سوال یہی ہے کہ وہ کس قسم کے فلاسفر ہیں،جن کو ان کے جنم کے 100ویں سال میں ہی پہچانا جارہا ہے ۔وہ بھی اس وقت جب ایک سرکار کی طاقت اس فلاسفر کے پیچھے لگ گئی ہے۔دنیا کا کوئی بھی فلاسفرسرکار کے کی پشت پناہی سے فلاسفر نہیں ہوا۔اگر اس فلاسفرکی کتابیں چھاپی جائیں سرکاری خرچ سےاورچاروں طرف یہ سرکلر جاری کیا جائے کہ ان کتابوں کا سیٹ خریدا جانا ہےہر کتب خانے میں ہر لائبریری میں اور یہ مجبوری ہوجائے،یونیورسٹی کو سرکلر جاری کیے جائیں کہ آپ کو دین دیال اپادھیائے پر پروگرام کرنے ہیں ،ان کے نام پر سینٹر بنانے ہیں تویہ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ دراصل سرکاری فلاسفر ہیں۔خاص قسم کے سرکاری فلاسفر۔یہ نہ تو کانٹ ہیں نہ  نیطشے ہیں نہ  گاندھی ہیں نہ  پلوٹو ہیں نہ سقراط ، کچھ بھی نہیں ہیں بلکہ یہ اس سرکار اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے نئے فلاسفر ہیں ۔

یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے پاس گولولکر اورہیڈگوارموجود تھےتو انہیں دین دیال کی ضرورت کیوں آن پڑی؟اور کیوں اب گولولکر اور ہییڈگوار کو پیچھے ڈالا جارہا ہے۔یہ شاید اس لیے ہے کہ اب راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کو لگ رہا ہے کہ انہوں نے پارلیامنٹ اور چناؤ کے ذریعے ملک کے بہت بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔اس لیے وہ ہندوستان کی تصویر کو بدلنا چاہتے ہیں ۔دراصل ہندوستان کا تصور لوگوں کے ذہن میں گاندھی اور نہرو جیسے لوگوں کے ذریعے آتا ہے،اس لیے ان کی جگہ دھیرے دھیرے دین دیال اپادھیائے جیسے لوگوں کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

دین دیال انسانیت کے علمبردارتھے،مانوتا وادی تھے وہ بھی ایسے مانوتا وادی جس میں کچھ نہیں ہے سوائے بھوسے کے۔ان کے جتنے بھی خیالات ہیں ان کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ سوئم سیوک سنگھ کے خیالات کو میٹھے ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں۔ان کا جو اصلی خیال ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان جو ہے وہ گنگا کی طرح ہے،جس کی شروعات کسی گنگوتری سے ہوئی ہے۔اور وہ گنگا کی طرح ہی بہتا چلا جارہا ہے،اور بیچ بیچ میں چھوٹی چھوٹی دھارائیں اس میں آکر مل جاتی ہیں۔اور جو دھارائیں اس سے ملتی ہیں وہ گنگا میں آکر پاک ہوجاتی ہیں۔ہاں گنگا ان کو پاک کر دیتی ہے۔اس لیے ممکن ہے کہ ان دھاراؤں میں گندگی ہو غلاظت ہو،لیکن گنگا ایسی ہے کہ وہ اس کو پاک کردیتی ہے۔ان کا یہاں تک کہنا ہے کہ جمنا جیسی ندی کا سانولا رنگ بھی گنگا میں آکر دھل جاتا ہے وہ اجلی ہوجاتی ہے۔وہ جمنا تک کو اس کی شخصیت عطا کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔یہ دین دیال اپادھیائے ہیں۔

ان کی سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ مسلمانوں کا کیا ہوگا؟مسلمانوں کو وہ بہت بڑا مسئلہ مانتے ہیں۔آزادی کے بعد بھی مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی یہاں رہ گئی کہ ان کو ہند مہاساگر میں نہیں پھینکا جا سکتا تھا۔ہٹلر کے حشر سے سوئم سیوک نے یہ سمجھا کہ آخری نپٹارے کا خیال بھی بیکار ہے ۔جب ہٹلر جیسی طاقت کے ذریعے یہودیوں کا نپٹارہ نہیں کیا جاسکا تو ہندوستان میں مسلمانوں کا آخری نپٹارہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔اس لیے طریقہ یہ ہے کہ ان پر دبدبہ قائم کرلیں۔ان کو اپنی ماتحتی میں رکھیں۔اس سلسلے میں دین دیال اپادھیائے کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں پر ہے کہ وہ اپنی ہندوستانیت ثابت کریں ۔وہ ہندوستان کے ہیں ان میں ہندوستانیت ہے۔ہندوستان میں جو آبادی رہ گئی ہے وہ مشکوک ہے،اس لیے ان کو اپنی وفاداری ثابت کرنی چاہیے۔

دین دیال کی تحریروں میں مانوتا واد جیسا کچھ نہیں ہے،اس میں جھاگ بہت ہے۔اپنا کوئی خیال نہیں ہے۔انہوں نے ماخوذ خیالات سے اپنا ‘آتم واد’ تیار کیا ہے۔ان کے خیال میں ہندوستان میں جو اقلیت ہے بالخصوص مسلمان، ان کی مسلمانیت ختم کی جائے۔یہی دین دیال اپادھیائے کا مشن ہے۔ان کو سب سے بڑا راشٹر وادی کہا جارہا ہے۔میرا سوال ہے کہ وہ آزادی کی لڑائی میں تیس سال کے تو ہوہی گئے تھے ۔انہوں نے تیس سالوں میں کیا کیا؟اس عمر میں بھگت سنگھ جیسے لوگ بہت کچھ کر کے پھانسی کے تختے پر جھول گئے ۔اگر آپ اندرا گاندھی جیسی شخصیت کو بھی دیکھیں گے تووہ بھی 1917کی ہیں،لیکن ان تیس سالوں میں وہ جیل جاچکی ہیں۔بہت سی تحریکوں میں حصہ لے چکی ہیں برٹش سرکار کے خلاف،لیکن دین دیال اپادھیائے نے کیا کیا۔

وہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے وفاداروں کی طرح کام کررہے تھے اور اس میں یہ بات شامل تھی کہ وہ برٹش کے خلاف کچھ نہیں کریں گے۔ان کا پہلا کام آزاد ہندوستان میں یہ تھا کہ گاندھی کے قتل کے بعدجب سنگھ پر پابندی عائد کی گئی تو وہ بہت سارے لوگ انڈر گراؤنڈ ہوگئے۔ان میں سے ایک دین دیال اپادھیائے بھی تھے ۔اس طرح یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ  دین دیال کی اہمیت سنگھ کے لیے ہے بی جے پی کے لیے ہے۔دین دیال بھارتیہ جن سنگھ کے صدر تھے ۔جب تک وہ زندہ رہے،انہوں نے نہ سیاست میں حصہ لیا نہ کوئی آندولن کیا۔اس لیے دین دیال کوسرکاری اور ٹیکس پیئر کے پیسوں پر سرکاری فلاسفر کیوں بنایا جارہا ہے؟

غورطلب  ہے کہ اگر سپریم کورٹ یہ کہہ سکتا ہے کہ مقبروں ،خانقاہوں اور مذہبی عمارتوں کو ٹیکس پیئر کے پیسے سے نہیں بنایا جاسکتا،اس کی مرمت نہیں کی جاسکتی تویہ سوال بھی جائز ہے کہ ہندوستانی ٹیکس پیئر کے پیسےسے ایک مسلم مخالف ذہنیت اورراشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے ترجمان کوکیسےسرکاری فلاسفر بنایا جاسکتا ہے؟ کیوں اس کے لیے ہمارا پیسہ لگایا جارہا ہے؟