حقوق انسانی

کانچہ ایلیا کا انٹرویو : سرحد پر ایک بھی بنیا اور برہمن ریجیمنٹ کیوں نہیں ہے؟

نامورسماجی مفکر،دانشوراورکئی کتابوں کے مصنف کانچہ ایلیا شیفرڈکی کتاب ‘پوسٹ ہندو انڈیا’ (2009)کے کچھ حصے کا ترجمہ تیلگو میں شائع ہونے کے بعد بنیا کمیونٹی کی طرف سےان کو لگاتاردھمکیاں مل رہی ہیں اورگالی گلوچ کی جارہی ہے ۔پچھلے دنوں ان کی گاڑی پر کچھ لوگوں نے حملہ بھی کیا تھا۔اس سلسلے میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،حیدرآباد کے ریسرچ اسکالرمحمد ذیشان نے دی وائر کے لیے بات چیت کی ۔

KanchaIlaiah

تیلگو زبان  میں آپ کی کتاب ‘ویشیہ سوشل اسمگلر ہے’پرپابندی عائد کرنے کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟

یہ کتاب 2009 میں آئی میری کتاب ‘پوسٹ ہندوانڈیا’ کا حصہ ہے،جسے تیلگوزبان میں ترجمہ کرکےشائع کیا گیا ہے۔اس کتاب میں، میں نے سماج کے ہرطبقےکو ان کی سماجی ذمہ داری کے لحاظ سےالگ الگ نام سے منسوب کیاہے،جیسے آدی باسی کے لئے  ان پیڈٹیچر،چمار کے لئے سب الٹرن  سائنٹسٹ ، دھوبی کےلئے سب الٹرن فیمنسٹ(Subaltern Feminists)، حجام کے لئے سماجی  ڈاکٹروغیرہ جبکہ ویشیہ(بنیا)اور برہمن کو بھی ان کی سماجی ذمہ داری کے لحاظ سے نام دیا گیاہے۔ یہ دونو  کمیونٹی زرعی پیداوارمیں سیدھے حصّہ  نہیں لیتی لیکن اس پر اپنا حق جتاتی ہے۔ یہ دونوں کاسٹ سیاسی پارٹیوں کو بڑے پیمانے پر فنڈنگ کرتی ہیں، اس لئے میری کتاب پر پابندی لگائے جانے کی مانگ کی جا رہی ہے۔

ابھی آپ نے ‘پوسٹ ہندوانڈیا’کی بات کی اس میں’سوشل اسمگلنگ’سے آپ کی مراد کیا ہے؟

  یہ کتاب  پرائیویٹ سیکٹرمیں ریزرویشن کے مطالبات کو لیکر لکھی گئی تھی، یوپی اے سرکار کے  دوران   2006 سے اسے   لیکر  بات آگے بڑھی، لیکن اس درمیان پرائیویٹ  سیکٹر نے اس  پالیسی  کو نافذ کرنے سے انکارکردیا اورکہا کہ دلت آدی باسیوں کے پاس  یہاں  کام کرنے کی میرٹ نہیں ہے۔ان چیزوں کودھیان میں رکھ کرمیں نےاس کتاب کے ذریعہ  یہ بتانے کی کوشش کی آدی باسی ، چمار، مہار، یادو ، لوہار، سونار وغیرہ کے پاس بھی خود کی میرٹ  ہیں۔لیکن ان سب کے بیچ ‘ویشیہ'(.بنیا)اور  برہمن ‘کمیونٹیز کے پاس بنیادی اقتصادی  پروڈکشن کے لئے کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔بنیا  کمیونٹی  تجارت کرتی آئی ہےاور  برہمن کمیونٹی برسوں سے مذہبی نظام پراجارے داری کرتی آئی ہے۔ان  سے سبھی دلت ، آدی باسی اور پسماندہ طبقہ متاثر ہوتا آیا ہے جبکہ یہ لوگ ان دو کمیونٹی سے زیادہ میرٹ والے ہیں۔اب ایسے وقت میں جب  سرکار ہر چیز کو پرائیوٹ کررہی ہے  تو یہا ں دلت آدی باسیوں کے میرٹ پر سوال کرنا غلط ہے۔

حال کے دنوں میں آپ پر ہوئے حملے کے لئےآپ سیاسی پارٹیوں کو کتناذمہ دار مان رہے ہیں؟

ان دنوں سماجی کارکن،صحافیوں اورآزانہ سوچنے والوں پر حملے  بڑھے ہیں۔لیکن آج جس کمیونٹی اور کاسٹ سے مجھے سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ  ہیں بگیسٹ انڈسٹریل کاسٹ اور  بگیسٹ بزنس کمیونٹی سے۔  کیونکہ  بنیا  کمیونٹی کی ایک بڑی  آبادی اس میں ہے۔جو سبھی  سیاسی پارٹی کو  فنڈ مہیا کرواتی ہیں۔آندھراتلنگانہ  کی ریاستی پارٹیوں کا رول میرے مخالف رہا ہے۔ٹی ڈی پی ایم پی ٹی جی وینکٹیش نے میرے خلاف فتویٰ جاری   کر دیا  ساتھ ہی  ٹی آر ایس  گورنمنٹ   کے وزیر داخلہ این نرسمہا ریڈی  اور زرعی وزیر بھی میرے مخالف ہیں۔مجھے کئی  بار جان سے مارنے کی دھمکی ملی ہے۔23فروری کووارنگل سے ایک میٹنگ سے لوٹتے وقت بھی مجھ پر حملہ بھی ہوا۔اسٹیٹ  گورنمنٹ  نے کچھ پروٹیکشن کر وائی لیکن وہ ناکافی ہے۔

آپ کی تحریریں دائیں بازو کے  مخالف سمجھی جاتی ہیں اسے لیکر  نیشنل  سیاسی پارٹیوں کا رخ کیسا ہے ؟

میری تحریریں دائیں بازو  کے مخالف رہی ہیں اور 2014 جنرل  الیکشن کے کے وقت میں نے بی جے پی کی مخالفت کی تھی۔تلنگانہ  پارٹی  بھی  مجھے  سپورٹ نہیں کر رہی ہے ، سی پی ای  اور سی پی ایم پارٹی  سے بھی ویسے کچھ سپورٹ نہیں  ہے لیکن  ابھی  نیشنل  کانگریس نے  ایک مضبوط بیان  جاری کر میرا سپورٹ کیا ہے۔

جی جی، 2014 جنرل الیکشن کے کے وقت آپ نے او بی سی فورم  بنا کر  بی جے پی  کا بائیکاٹ کیا تھا،2019 کو لیکر پھر  ایسا کوئی پلان؟

میں سماجی ریفامر ہوں ناکہ سیاسی لیڈر۔میں اپنی ٹیم کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر میں ریزرویشن اور انہیں سماجی ذمہ داری کے لئے جوابدہ بنانے کے لئے کام کر رہا ہوں۔ میں مانتا ہوں اگر یہ کارپوریٹ انڈسٹری خود کو وطن پرست مانتے ہیں تو پہلے سرحد پر تعنیات جوانوں کے اہل خانہ میں سے ایک کے لئے پرائیویٹ سیکٹر میں جاب کی گارنٹی دیں۔آخراس ملک کا شہری ہی کیوں وطن پرسی کا ثبوت دے،پرائیویٹ سیکٹر کو بھی وطن پرست بننے کی ضرورت ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے پاس آج ملک کا ایک بڑا ریسورسیزہے،لیکن اس کی سماج کے لئے جوابدہی کچھ بھی نہیں۔میری رائے ہے کہ  کارپوریٹ سیکٹر کواپنے فائدہ کا ایک فیصد‘کسان کی فلاح و بہبودگی کے لیے مخصوص کر نا چاہیے۔اگر سارے ریسورسیز پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہی ہیں تو ایسے میں اسٹیٹ فلاح و بہبودگی کے لیے کیسے کام کر سکتی ہے۔

آپ نے بھی وطن پرستی کی بات کی ،موجود ہ حکومت میں بھی راشٹرواد ایک موضوع ہے،آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟

ان دنوں راشٹر واد اور وطن پرستی کو لیکر رسہ کشی بڑھی ہے۔ کھانوں پر سوال اٹھا یا جارہا ہے،یونیورسٹی میں آرمی آفیسرکی تعیناتی ایک بات ہے، یوگا کو نیشنل ایکسرسائز کا درجہ دیا جانابھی اس میں شامل ہے،اور بہت سی باتیں ہیں ،اگر منطقی بات کی جائے تو آج سرحد پر ایک بھی بنیا اور برہمن ریجمینٹ نہیں ہے۔ وہاں مہار ریجمینٹ ہے،جہاں بابا امبیڈکر کے والد تعینات تھے۔ اہیر(یادو)ریجمینٹ،جاٹ ریجمینٹ،گورکھاریجمینٹ ہے۔ اگر انھیں راشٹر واد اور وطن پرستی کی فکر ہے تو کیوں نہیں سیما پر ایک بھی بنیا،برہمن ریجمینٹ ہے۔

آگے آپ کا کیا پلان ہے؟

سماجی فلاح و بہبود کے لیے میں پہلے سے ہی کوشش کر رہا ہوں۔ میری کوشش رہے گی کہ سماج کےپسماندہ،دلت آدی باسیوں کو انکا سماجی حق ملے،برابری ملے۔سماج کے ہر ایک سیکٹر کو جوابدہ بنایا جائے۔ سیاسی،تہذیبی،اقتصادی اورسماجی برابری کے لئے تلنگانہ ماس فورم کے ساتھ میں کام کر رہا ہوں۔اس کے ساتھ جڑ کر کوئی سماجی انصاف کے لیے کام کرنا چاہتا ہے تو اسکا استقبال ہے۔