فکر و نظر

بی ایچ یو،روہنگیا اور رویش کمارمعاملے میں فیک نیوزکا سچ

گزشتہ ہفتے  بھی جعلی خبروں نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کیا ۔سب سے زیادہ افسوسناک اور انسانی قدروں کو پامال کرنے والی جعلی خبریں بنارس ہندو یونیورسٹی (BHU)میں طالبات کے احتجاج، روہنگیا پناہ گزین اور  معروف صحافی رویش کمار سے تعلّق رکھتے ہیں۔

سب سے پہلے بی ایچ یوسے متعلق  فیک نیوز کا ذکر کرتے ہیں ۔طالبات یونیورسٹی انتظامیہ سے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر رہی تھیں ۔ انتظامیہ نے پولیس کی مدد سے ان پر بربریت سے لاٹھی چارج کروا دیا۔ کافی  تعداد میں طالبات زخمی ہوئیں ۔ جب سوشل میڈیا پر لاٹھی چارج کی تصویریں اور ویڈیوانتظامیہ کی مذمّت کرتے ہوئے شیئر کی جا رہی تھی ، اسی وقت ایک تصویر بہت عام ہوئی ۔ اس تصویر میں ایک لہولہان لڑکی کو اسپتال کے بیڈ پر شدید زخمی حالت میں دکھایا گیا تھا ، اور یہ کہہ کروائرل کیا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبات کو اتنی بری طرح مارا کہ وہ لہولہان ہو گئیں۔ تصویر  نےاس وقت  بڑے پیمانے پر یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف نفرت  کا ماحول پیدا کیا،کچھ غیر جانب دار افراد بھی اس فیک تصویر کے جال میں پھنس گئے۔آ لٹ نیوز کی تفتیش کے بعد  پتا چلا کہ وہ تصویر لکھیم پور کھیری کے کسی پرانے معاملے کی تصویر تھی۔ اُس کا  بی ایچ یو سے کوئی تعلّق نہیں تھا۔

فیک نیوز کا دوسرا معاملہ روہنگیا مسلمانوں سے تعلّق رکھتا ہے۔میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔لیکن ہندوستان میں آرایس ایس اور  بی جےپی   نے جھوٹ پر مبنی  دو تصویروں کو کو اس قدرعام کیا کہ  اُس نے روہنگیا مسلمانوں، خاص طور پر  روہنگیا  بچوں  کے خلاف بدگمانی کو فروغ دیا اور انسانی قدروں کو حد درجہ پامال کیا۔

ایک تصویر میں دکھایا گیا کہ9-12  سال عمر کی ایک بچی حاملہ (Pregnant)  ہے اور وہ اقوام متحدہ کے کسی اسپتال میں  بھرتی ہے اور جلد ہی ایک بچے کو جنم دینے والی ہے۔

بوم لائیو (BoomLive) کی تفتیش میں پتا چلا کہ اس 12 سالہ بچی کا نام سینڈی ہے،وہ متعدد امراض میں مبتلا ہے ، اس کے جگر میں بھی خرابی ہے اور ان امراض کی وجہ سے اسکا شکم بڑھ گیا ہے! وہ برازیل ، جنوبی امریکہ کی رہنے والی ہے۔اس کی یہ تصویر ایک ویڈیو سے لی گئی تھی جس میں وہ  علاج کے لئے مدد مانگ رہی ہے ۔

rohingya-children_boomlive

دوسری تصویر میں ایک دوسری بچی کو  دکھایا گیا  اور بتایا گیا کہ وہ 14 سال کی ہے، اسکے دو بچے ہیں ، اس کے  56 سالہ شوہر کی 6 بیویاں اور  18 بچے ہیں۔ اس فیک نیوز کو سب سےپہلے رویندر سانگوان نامی شخص نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا ۔ پھر اس کو  بی.جے.پی. لیڈر رمن ملک نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا۔ نیتو گرگ نامی ایک خاتون ، جن کو وزیر اعظم نریندر مودی، امت شاہ اور وزیر قانون روی شنکر پرشاد  ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں ، انھوں نے بھی اسی جعلی خبر کو روہنگیا مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا ۔ بوم لائیو (BoomLive) کی تفتیش نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ وہ  تصویر   بی.بی.سی. کی ایک ویڈیو  سے لی گئی ہے ۔ویڈیو میں ایک روہنگیا بچی  چھوٹے بچے کو گود میں لئے بیٹھی ہے جو غالبا ً اسکا ہمشیر ہے ۔

فیک نیوز کا تیسرا معاملہ NDTV کے معروف صحافی رویش  کمار سے تعلّق رکھتا ہے ۔ رویش کمارپر یہ الزام لگایا گیا کہ  سینئر صحافی گوری لنکیش کی تعزیتی مجلس میں انہوں نے نریندر مودی کو نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔ یہ جھوٹا الزام نیا نہیں ہے۔ بھگوا گروہ کے لوگ اکثر رویش کمار کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔پچھلے ہفتہ ایک وہاٹس ایپ گروپ میں رویش کمار کو بہت پریشان  کیا گیا ، بقول رویش کمار :

RavishKumar

آ لٹ نیوز کی تفتیش میں ظاہر ہوا کہ ایسا کرنے والے لوگ فسطائی فکر والے ہیں جنکا مقصد صرف جھوٹ کو تقویت دینا ہے۔ان سب باتوں سے پریشان ہوکر رویش کمار نےپچھلے ہفتہ پی.ایم  نریندر مودی کو ایک کھلا خط لکھا ، جو یہاں پڑھا جا سکتا ہے ۔ رویش کمار نے کہا ہے کہ انکی جان خطرے میں ہے۔

 مذکورہ بالا معاملات سے  ایک چیز واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ  ان سب نے انسانی اور آئینی قدروں کی پامالی کی ہے۔ روہنگیا معاملے میں بیمار اور پناہ گزین بچیوں کا مذاق بنایا گیااور ان کا سہارا لیکر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا گیا۔ یہ آئین ہند اور تحریک آزادی کی روح کے خلاف ہے۔  آئین ہندکی دفعہ21  بنیادی حقوق کے باب میں افراد کے جان و مال کے تحفظ اور انسانی وقار (Human Dignity) کی بازیابی کی بات کرتی  ہے ۔ دفعہ51  عالمی سطح پر امن اور تحفّظ کے فروغ کی بات کرتی ہے۔رویش کمار دادری میں محمد اخلاق کے قتل سے لیکر گوری لنکیش کے قتل تک آئینی اصولوں کے تحفّظ میں جٹے رہے ۔ جب کہ انکے مخالف جو کچھ انکے خلاف کرتے آ رہے ہیں وہ دراصل آئین ہند کو رسوا کر رہے ہیں۔ اخلاق کا قتل، پہلو خان کا قتل، گوری لنکیش کا قتل اور روہنگیا پناہ گزین کو دہشت گرد قرار دینا،یہ سب اُن اصولوں اور قدروں کے خلاف ہیں جن کا تصوّر گاندھی ، امبیدکر، نہرو اور دوسرے رہنماؤں نے کیا تھا ۔

(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات  میں علوم نظام عامّہ  میں تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ ‘عوام انڈیا ‘کے  بانی مدیر ہیں۔)