فکر و نظر

سوکش بھارت مشن اورگاندھی کے ہندوستان میں امن کے معنی ؟

مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش پر ان کی اور ان کے خیالات کی سچی تحسین یہ ہوگی کہ نفرت کے خلاف اپنی اپنی جد وجہدپوری قوت سےشروع کی جائے۔

SwachBharat وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دور کے پہلے ہی سال میں یعنی 2اکتوبر2014 کوملکی سطح پر صفائی مہم کا افتتاح کیاتھا۔دوسرے لفظوں میں کہیں تووزیر اعظم نے مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کو” سوکشتا دوس”کے طور پرمنانے کا اعلان کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی کے اس پہل کو لوگوں نے خوب سراہا،لوگوں کی بے پناہ امیدیں بھی اس مہم سے بندھ گئیں۔مگر اب جب کہ تین سال گزر گئے ہیں،اس مہم کا اثرکتناہوا یہ جگ ظاہر ہے۔دو ٹوک  کہوں تو اس کا اثر ہم نے صرف ٹی وی ،اخبار،ریڈیواورسوشل میڈیا پر دیکھا۔زمین پرہمیں کچھ اور ہی نظر آ یا۔یہ کہاجائے تو شاید غلط نہ  ہوکہ باقی دوسری مہم اور اسکیم بھی ہمیں اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو میں ہی دیکھنے اور سننے کو ملے۔

 پچھلے تین سالوں میں زمین پر بس ایک ہی چیز نمایاں رہی اور اب بھی نمایاں ہے۔نفرت، ہاں بس نفرت ۔ یہ اسی نفرت کی بھیانک شکل تھی ،جس نے کئی بے قصوروں کی جان لے لی۔ اخلاق احمد، پہلو خان،جنید،گوری لنکیش اور ،اور، ہاتھوں کی انگلیاں کم پڑجاتی ہیں۔ایسا اس لئے ہوا کہ ہم نے اس نفرت کو بھیانک شکل اختیار کرنے کا موقع دیا۔ ہم نے وقت رہتے اس کی نکیل نہیں کسی۔ بس خانہ پری کرتے رہے۔

ہمیں  سب کچھ چھوڑ کر اس نفرت کے خلاف جد وجہد کرنا ہوگا۔ہاں سب کچھ چھوڑ کر، کیونکہ امن کے بغیر ترقی کی بات کرنا دکھاوا اور چھلاوا ہے۔ امن کے بغیر ترقی کا گمان بھی بس گمان ہی ہے۔

صفائی کے متعلق گاندھی کا جوپیغام ہے، وہ سر آنکھوں پر ۔ مگر ہمیں رک کرایک بار سوچنا چاہئے ۔ہمیں پہلے نفرت سے لڑنا ہوگا۔ نفرت کا بادل بیحد گہرا ہو چکا ہے۔ جب تک یہ چھٹ نہ جائے ہمیں انتظار کرنا چاہئے۔گاندھی جی کے یوم پیدائش پر ان کی اور ان کے خیالات کی سچی تحسین یہی ہے کہ آج ہی کے دن کونفرت کے خلاف جد وجہدکے دن کے طور پر منایا جائے۔

موجودہ سیاسی ماحول  میں گاندھی  کا ہندو مسلم اتحادکا پیغام ہمارے لئے نشان راہ ہے ۔ اس کی پر زور ا شاعت اب نا گزیر ہے۔ وقت بھی شایدچیخ چیخ کر یہی کہہ رہا ہے۔ گاندھی جی کے یوم پیدائش پر ان کے اسی پیغام کو یاد کرنے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔

اپنی مشہور زمانہ کتاب ’ہند سوراج‘ میں گاندھی جی لکھتے ہیں کہ؛ وہ لوگ جو ایسا مانتے ہیں کہ ہندوستان کو صرف ہندوؤں کی آماجگاہ ہو نی چاہئے، یہ در اصل ان کا خواب ہے۔یہ غیر ممکن بات ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ؛ پوری دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں صرف ایک’قوم‘بستی ہو۔ نہ ہی اس کرہ ارض پر کو ئی ایسادیس ہے جہاں ایک قوم اور ایک مذہب ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔نہ ہی ایسا کبھی ماضی کے ہندوستان میں ہوا ہے۔

گاندھی جی کی کتاب’ہند سوراج‘ جن لوگوں نے پڑھی ہے، انہیں یہ بات پتہ ہے کہ یہ سوال و جواب کی صورت میں ہے۔یعنی ایک فرضی (ریڈر)ہے، جو گاندھی جی سے سوال کرتا ہے اور وہ اس کا جواب دیتے ہیں۔ کتاب کے 9ویں باب میں ہندومسلم کے مابین ازلی دشمنی سے متعلق ایک سوال ہے۔

ریڈر کے اس سوال کا جواب جس خوبصورتی سے گاندھی جی نے دیا ہے، وہ قابل ستائش ہی نہیں لائق تقلید بھی ہے۔ یہ آپ کو جھنجھوڑدے گا۔گاندھی جی کہتے ہیں ؛ہندو مسلم کے بیچ ازلی دشمنی کا جو مفروضہ ہے وہ در اصل ہمارے common enemy کا ایجاد کردہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ؛تاریخ کو ٹٹولو گے تو جان پڑے گا کہ بہتیرے ہندوراجاؤں کے ماتحت مسلمانوں نے خوشحال زندگی بتائی۔اور بہتیرے مسلمان حکمرانوں کے ماتحت ہندو عوام نے امن و امان سے گزارا کیا۔

گاندھی جی کہتے ہیں کہ کیا ہمیں اس بات کو بھلا دینا چاہئے کہ مسلمان اور ہندو در اصل ایک ہی جد کے وارث ہیں اور ان کا خون ایک ہی ہے۔ کیا انہیں بس اس لئے ایک دوسرے کا دشمن ہو جانا چاہئے کہ انہوں نے مذہب تبدیل کرلیا۔ کیا دونوں کا خداسچ میں ایک دوسرے سے مختلف ہے؟

ایک دوسرے سوال کے جواب میں گاندھی جی فرماتے ہیں کہ وہ لوگ (ہندو) جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کےذہن میں کوئی غلط فہمی نہ رہ جائے، انہیں قرآن پڑھنا چاہئے۔قرآن میں انہیں ایسی سیکڑوں آیتیں ملیں گی، جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوگا کہ ان کا مذہب بھی تو یہی تعلیم دیتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی بھگوت گیتا میں ایسے سیکڑوں اپدیش ملیں گے  جن کا ذکر قرآ ن میں بھی موجود ہے۔

ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ بٹوارہ کے سال میں ہندو مسلم فسادات کے پنپنے سے گاندھی جی کس قدر افسردہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور دونوں فرقوں سے امن بحال کرنے کی منتیں کیں۔امن اور شانتی قائم کرنے کی ضد انہوں نے آخری دم تک نہیں چھوڑی۔حتیٰ کہ انہیں اپنی جان تک گنوانی پڑی۔

گاندھی جی کے آخری فاسٹ کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں(جنوری، 1948)، یہ کئی معنوں میں اہم ہے۔یہ وہی فاسٹ ہے جس کے متعلق بہت لوگوں کا کہنا ہے کہ گاندھی ہندوستان کی فکر کو چھوڑ کر پاکستان کو اسکے 55کروڑ روپے دلوانے کے لئے ‘انشن’ پر بیٹھ گئے۔انہیں اس کے لئے غدار ملک تک قرار دیا گیا۔ان پر مسلم پرست ہونے کا الزام لگا یا گیا۔

بٹوارہ کے دوران پنجاب میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے سبب وہاں کے ہندو اور سکھ رفیوجی،لاکھوں کی تعداد میں دلی کے مختلف کیمپ میں پناہ لئے ہوے تھے۔ مگر دلّی کے دوسرے کیمپس ایسے رفیوجیوں سے بھی بھرے پڑے تھے،جن کا تعلق اسی شہر سے تھا۔یعنی بہت لوگ ایسے بھی تھے جواپنے ہی شہر میں اجنبی  تھے۔ان کے گھروں پر دوسرے لوگوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ مسلمانوں کی متعدد عبادت گاہوں پر ہندوؤں نے حملہ  کر دیا تھا۔ گاندھی چاہتے تھے یہ سب مسلمانوں کو واپس کیا جائے۔ جب گاندھی جی کے بظاہر’مسلم دوستی‘اور انشن پر لوگوں نے سوال اٹھا یا تو ان کا جواب تھا، بہت لوگ نہیں سمجھ پا رہے ہیں میں کیوں ‘انشن’ پر بیٹھا ہوں۔میرا سیدھا سا جواب ہے میں اپنا ‘انشن’ تب ختم کروں گا، جب دلّی میں امن بحال ہو جائے گا۔ اگر دلی میں امن بحال ہو جائےگا، تو پاکستان میں بھی اسکا اثر پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ؛ ان کا یہ انشن ایک طرف ہندوستان کے ہندوؤں اور سکھوں کے خلاف ہے، تو دوسری طرف پاکستان کے مسلمانوں کے خلاف۔

آخر کار لوگوں پرگاندھی جی کی بات کا اثر ہوا۔ان کاضمیر جاگ اٹھا۔گاندھی جی نے 18 جنوری 1948کواپنا انشن توڑ ا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگوں (بشمول ممبران RSS , Hindu Mahasabha)نے گاندھی جی کے سامنے اپنا ایک اعلامیہ پیش کیا۔ ان کی موجودگی میں اس اعلامیہ پر سبھی نے اپنا دستخط مہر کیا۔ لوگوں نے یہ اعلان کیا کہ کہ دلّی کےتمام ہندو،مسلم، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ ایک بار پھر امن اور شانتی سے رہنا چاہتے ہیں۔ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ دوبارہ پھر کبھی نہیں ہوگا۔ وہ گاندھی کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی عبادت گاہیں جن پر ہندوؤں نے قبضہ کر لیا ہے، واپس کی جا ئیں گی۔مسلمان جو رفیوجی کیمپس میں رہ رہے ہیں وہ اپنے گھروں میں لوٹ آ ئیں۔ زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ لوگوں نے گاندھی جی کے سامنے یہ عہد کیاکہ شہر میں شانتی اور امن بحال کرنے کے لئے ساری کوششیں وہ خود کریں گے۔ اس میں انہیں کسی پولیس یا آرمی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔(بحوالہ:گاندھی کا آخری فاسٹ، دلیپ سیمیون)

مگر افسوس لوگوں نے اس عہد کو بھلا دیا ہے۔ شایدگاندھی جی کے سامنے لیے گئے اس عہد کو بار بار یاد کرنے کی ضرورت ہے۔

 ہندو مسلم رشتے کے متعلق مہاتماگاندھی کا یہ قول بھی  اہم ہے کہ بحیثیت ایک خاندان کے ہندو مسلم کا آپس میں گاہے گاہے لڑنا بعید نہیں۔انہوں نے کہا ایسا وقتا فوقتاہوگا، مگرہمارے درمیان ہمیشہ کوئی نہ کوئی ہمارے لیڈر کی صورت میں ضرور ہوگا، جو ہماری رہنمائی کرتا رہےگا۔ایسے واقعات پر نظر رکھے گا۔ مگر سر پیٹیے کہ موجودہ دور میں ہمارے بیچ ایسا کوئی  لیڈر نہیں ۔البتہ ایسے رہنما ؤں کی تعداد سیکڑوں میں ہیں جو چنگاری کو ہوا دینے کے کام میں ماہر ہیں۔

ایسے نازک وقت میں عوام  کو خود ہی اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہوگا۔ اس اکتوبر حکومت کے سیاسی اشتہار سے الگ صحیح معنوں میں گاندھی کے پیغام امن کو عام کر نے کی ضرورت ہے۔

(مضمون نگار  پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ، چنڈی گڑھ میں مترجم ہیں۔)