فکر و نظر

ہند-افغان پالیسی : قومی مفاد اہم، امریکی دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں

افغانستان تقریباً چالیس سالوں سے عدم استحکام کا شکار ہے جس کی براہ راست ذمّہ داری عالمی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے۔

ایک طرف پاکستان ہے جو افغانستان میں ہندوستان کے لئے کوئی رول نہیں دیکھتا ہے۔دوسری طرف امریکہ ہے جو افغانستان میں ہندوستان کے رول کو ناگزیر سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہندوستان وہاں اپنے آپ کو جھونک دے۔اس کی زبردست خواہش ہے کہ کسی طرح افغان مسئلے کا بوجھ ہندوستان کے کندھوں پر رکھ دے اور اپنی ذمّہ داریوں سے بری ہو جائے۔ان دو انتہاؤں کے بیچ خود ہندوستان ہے جس کے لئے اپنا قومی مفاد کسی بھی دوستی یا دشمنی سے پرے ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان اور افغانستان کا آپسی رشتہ پاکستان اور امریکا دونوں کے وجود سے کہیں زیادہ پرانا ہے۔مستحکم بنیادوں پر استوار اس رشتے کو مزید قوّت بخشنے کے لئے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں نہ ہی کسی دباؤ میں آنے کی ضرورت ہے۔

مگر امریکہ کی طرف سے یہ دباؤ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔اگست میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کی تازہ ترین افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے جہاں پاکستان پر لعنت ملامت بھیجی وہیں ہندوستان کو بھی ہلکی سی دھمکی دے ڈالی۔انہوں نے افغانستان میں بحالی امن کے لئے ہندوستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ “ہندوستان امریکہ کے ساتھ تجارت میں اربوں ڈالر کما رہا ہے اس لئے ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں ہماری مدد کرے خاص طور پر ترقیاتی اور معاشی معاملوں میں۔”مدد مانگنے کا یہ بھونڈا انداز ٹرمپ کا خاصّہ ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی آنے لگی کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان اپنی فوج افغانستان بھیجے تاکہ طالبان جنگجوؤں سے مقابلے میں ناٹو فورسز کے انخلا کے بعد سے اکیلی پڑ گئی افغان فوج اور پولیس کو سہارا مل سکے۔پچھلے ہفتے اسی مقصد کے حصول کی خاطر امریکی وزیر دفاع جمیس میٹس نئی دہلی تشریف لائے۔یہ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے سینئر ذمّہ دار تھے جو ہندوستان آئے تھے۔اتفاق سے نرملا سیتارمن کے لئے بھی وزیر دفاع بننے کے بعد یہ پہلی اہم میٹنگ تھی جو وہ کسی غیر ملکی ہم منصب کے ساتھ کر رہی تھیں۔انہوں نے دو ٹوک انداز میں جمیس میٹس پر یہ واضح کر دیا کہ ہندوستان کسی بھی حالت میں اپنی فوج افغانستان نہیں بھیجے گا۔ہاں، وہ افغان پولیس اور فوجی افسروں کو ہندوستان میں تربیت ضرور دے گا تاکہ وہ اپنے ملک میں جاری شورش پر قابو پانے کے لئے تیار ہو سکیں۔انہوں نے امریکی وزیر کو یہ بھی یاد دلایا کہ ہندوستان افغانستان کو تین بلین ڈالر کی مدد دے چکا ہے اور یہ کہ سیکورٹی کو مستحکم بنانے کے لئے اپنے انجینئرز افغانستان بھیج رہا ہے تاکہ سوویت دور کے ہوائی جہازوں کو استعمال کے لائق بنایا جا سکے اور پچھلے سال جو چار ہیلی کاپٹر ہندوستان نے افغانستان کو دیے تھے ان کی مرمت ہو سکے۔

افغانستان تقریباً چالیس سالوں سے عدم استحکام کا شکار ہے جس کی براہ راست ذمّہ داری عالمی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے۔ پہلے سوویت یونین اور بعد میں امریکہ کی دخل اندازیوں نے ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔1989 میں جب سوویت فوج ملک میں داخل ہوئی تو امریکا بظاہر افغان عوام کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کے نام پر میدان میں آیا۔اس وقت سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔امریکہ نے پاکستان میں ایک ملٹری ڈکٹیٹر ضیاء الحق کو ‘اسلامی جنرل’ بنا کر پیش کیا اور اس کے ذریعہ سے افغان مجاہدین کو پیسوں اور اسلحوں سے مدد کی تاکہ وہ سوویت یونین کے سہارے سے چل رہی حکومت کا تختہ پلٹ سکیں۔مجاہدین اپنے مقصد میں کامیاب تو ہوئے مگر دس سال بعد جب سوویت فوج ملک سے روانہ ہوئی تو افغانستان تباہ ہو چکا تھا۔اس وقت افغان عوام کو صحیح معنوں میں امریکی مدد کی ضرورت تھی مگر سوویت فوج کے انخلاء اور سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد امریکہ کی دلچسپی افغانستان میں ختم ہو چکی تھی ،چنانچہ اسے اپنے حال پر چھوڑ کر امریکہ وہاں سے نکل بھاگا۔

امریکہ نے 2001 میں پھر سے افغانستان کا رخ کیا اس بار وہاں قائم طالبان حکومت سے نائن الیون کا انتقام لینے اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے جس میں اسے کامیابی تو ملی مگر جس سیاسی اور معاشی استحکام کی افغانیوں کو ضرورت تھی وہ ناپید رہی۔2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اس وقت ملک میں بہت حد تک استحکام قائم ہو چکا تھا،بلکہ امریکا ‘اسلامی بنیاد پرست’ اور ‘مذہبی جنونی’ کہے جانے والے طالبان سے اپنے تجارتی مفاد کی خاطر سمجھوتے کی بات چیت کر رہا تھا کیونکہ تقریباً نوے فی صد حصّے پر طالبان کا عمل درامد قائم ہو چکا تھا۔ناردن الائنس نامی اتحاد جس کے حوالے افغانستان کی باگ ڈور سونپی گئی اس کے لیڈران ایک کونے میں دُبکے بیٹھے تھے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت ملنے، بلکہ حامد کرزئی کی صورت میں ایک صدر منتخب کرنے، کے باوجود ناردن الائنس ملک پر اپنا اقتدار قائم نہیں کر سکا۔طالبان جنہیں امریکی  اور ناٹو فوجوں نے اپنے طور پر مار کر ملک سے بھگا دیا تھا وہ قائم رہے اور آج تک قائم ہیں۔پچھلے سولہ سالوں میں جو انسانی جانیں گئی ہیں ان کے اعدادو شمار دل دہلا دینے والے ہیں۔2001 سے 2016کے بیچ ایک لاکھ دس ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں جب کہ ایک لاکھ لوگ زخمی ہوئےہیں۔”کاسٹ آف وار”پروجیکٹ کے تحت براؤن  یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق مرنے والوں میں 31000 سے زیادہ عام افغان شہری ہیں۔ملک بدر کئے جانے کے بعد طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں نے پاکستان کی سرزمین سے جنگ جاری رکھی۔چنانچہ وہاں مرنے والوں کی تعداد 62000تھی اور زخمی ہونے والوں کی 67000۔اس تحقیق میں یہ ذکر بھی ہے کہ اگست 2016تک جب یہ رپورٹ لکھی گئی امریکہ افغان جنگ پر 800 بلین ڈالر خرچ کر چکا تھا۔

امریکہ اور ناٹو فورسز کے بے شمار فوجی آپریشنوں کے باوجود طالبان کے جنگجو ایک آسیب کی طرح منتخب شدہ اور عالمی طور پر تسلیم شدہ حکومت پر سوار ہیں اور جب چاہے جہاں چاہے پر تشدد کاروائی کرنے پر قادر۔دسمبر 2014 میں ناٹو فورسز کی روانگی کے بعد سے افغانستان کی سیکورٹی ایک سنگین صورت اختیار کر چکی ہے۔اس کی تازہ ترین مثال پچھلے ہفتے دیکھنے کو ملی جب امریکی وزیر دفاع جمیس میٹس کابل پہنچے۔ان کی آمد کے محض چند گھنٹوں بعد کابل ائیرپورٹ پر میزائل داغا گیا۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ملک میں کہیں نہ کہیں کوئی بم دھماکہ، تخریبی کاروائی یا تشدد کا کوئی اور واقعہ پیش نہ آتا ہو۔ملک میں اس وقت ایسے بے شمار علاقے ہیں جہاں کابل انتظامیہ کا نہیں بلکہ طالبان کا عمل درآمد ہے۔اس بحران کا شکار جہاں عام افغانی عوام ہے وہیں وہ غیر ملکی اہل کار بھی ہیں جو ملک کی تعمیر نو میں اپنا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔اب تک کئی ہندوستانی باشندے جو افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں۔کئی لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔اس کے باوجود ہندوستان افغانستان کے ساتھ تعاون سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ابھی چند روز قبل ہی ہندوستان نے 116 ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے جو وہاں عمل میں لایا جائے گا۔پچھلے ہفتے نئی دہلی میں چار روزہ “انڈیاافغان ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ شو” کا انقعاد ہوا جس میں دو سو چالیس افغانی اور آٹھ سو ہندوستانی کمپنیوں نے حصّہ لیا۔اطلاعات کے مطابق یہ اب تک کا سب سے بڑا تجارتی میلہ تھا جو افغانستان سے باہر کہیں منعقد ہوا۔2003 سے لے کر اب تک ہندوستان میں سات افغان تجارتی میلوں کا انقعاد ہو چکا ہے۔

 ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں افغانستان کو ہمیشہ سے ایک کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ہمارا سیاسی اور معاشی مفاد اس میں مضمر ہے۔مگر یہ مفاد اُس ملک میں جاری شورش میں ایک فریق بن کر حاصل نہیں ہو سکتا۔ہمیں اگر افغانستان میں کام کرنا ہے اور اپنے قدم جمانے ہیں تو اس کے لئے وہاں کے مخصوص حالات کو سمجھنا ہوگا۔طالبان کی لڑائی داخلی طور پر اپنی حکومت سے ہے یا اسے قائم رکھنے والے امریکہ یا اس کے مغربی اتحادیوں سے ہے۔ہندوستان سے براہ راست اس  کا کوئی معاملہ نہیں۔  چنانچہ ہمیں وہاں کی داخلی سیاست سے دور رہنا چاہیے۔افغان حکومت سے تعاون کے باوجود ہم ایسا کر سکتے ہیں۔خود امریکہ بھی یہی کرتا رہا ہے۔ایک طرف طالبان سے جنگ جاری ہے دوسری طرف امریکہ کے ہی اشارے پر قطر میں طالبان کا دفتر کھلا ہوا ہے جہاں سے سیاسی گفت و شنید کا سلسلہ 2011 سے جاری ہے۔تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اس دفتر کو بند کروانا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے جو مقصد حاصل ہونا تھا وہ ان کے مطابق حاصل نہیں ہو سکا ہے۔

دریں اثنا یہ خبر دلچسپی سے خالی نہیں کہ امریکی وزیر دفاع اور افغان چیف ایگزیکٹوعبدللہ عبدللہ کے دورے کے فوراً بعد ہی روسی صدر پوٹن نے اپنے افغان معاملوں کے صلاح کار ضمیر کابلوو  کو نئی دہلی بھیجا ہے۔ روس اندنوں طالبان اور پاکستان سے اپنے روابط بڑھا رہا ہے اور اس کام میں چین اس کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ نئی دہلی میں مقیم ایک روسی سفارت کار نے دی ہندو کو ایک بیان میں کہا ہے کہ روس طالبان کو اسلحہ تو فراہم نہیں کر رہا مگر ان سے بات چیت کا خواہاں ضرور ہے اور ہندوستان سے امید کرتا ہے کہ وہ بھی اس میں شامل ہو گا۔