حقوق انسانی

جب جنید کا خاندان عید نہیں منا سکا تو میں دیوالی کیسے مناؤں

محض ایک ہندو ہونے سےزیادہ انسان ہونا ضروری ہے۔ اس سال دیوالی پرمیرے گھر میں تواندھیرا رہے گا،لیکن میرے من کا کوئی گوشہ ضرور روشن ہوگا۔

Diwali-junaid

بچپن میں کسی سال کے کلینڈر میں میرے لیے صرف دو موقعے سب سے ضروری ہوتے تھے ،ایک میرا جنم دن اور دوسرا دیوالی ۔دیوالی سے ہفتوں پہلے میری ماں بلائنڈ اسکول کے میلے سے موم بتیاں خرید کر لاتیں ،مجھے اور میری بہن کو ہمارے جنم دن اور دیوالی پر نئے کپڑے ملتے تھے ۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ماں ہمار ا ناپ  لے کر اخبار پر رکھ کے کپڑا کاٹتی ،پھر اسے اپنی سنگر کی سلائی مشین پر سلتیں ،ہم ان کے آس پاس منڈراتے رہتے ۔

ہمارے لیے دیوالی پر پٹاخے یا رات کو ہونے والی روشنی نہیں بلکہ دیوالی کی صبحیں زیادہ ضروری تھیں ۔ہمیں صبح 4بجے اٹھنا ہوتا اور پھر تیل لگایا جاتا ۔ماں چاندی کی تھالی میں دیے،چاول اورایک سکے کے ساتھ نئے کپڑے رکھتی۔ہمیں سرسوتی پوجا کے لیےاس میں اپنی کتابیں رکھنی ہوتیں ۔

سورج نکلنے تک ہم نہا دھو کر تیار ہوجاتے اور پھر جیسا اتوار کو ہوتا تھا،وہ ہوتا یعنی سر دھلواکر ہم دوسے کا ناشتہ کرتے اور پیچھے ایم ایس سبا لکشمی کی آواز میں بھج گووندم اور وشنو سہسترنام بجتا رہتا۔

اس کے بعد آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوتا ،کیوں کہ میرے والدین دلی والے نہیں تھے ،اس لیے ہمارے خاندان کے کم ہی لوگ تھے ۔ہاں میرے والد کے چچا ‘کےسوامی ناتھن’ یہاں تھے ۔وہ نوروجی نگر میں رہتے تھے۔ عام طورپر پہلا گھر انہیں کا ہوتا،جہاں ہم جاتے تھے اور لوٹتے وقت ہمیشہ ہمیں ایک ایک کیلا ملتا۔

پھر ہم پاپا کے تمل دوستوں کے یہاں جاتے، جن کے بچے اکثرہم سے کافی بڑے ہوتے یا زیادہ پڑھے لکھے۔ ان سے گھبرائے ہوئے ہم چپ چاپ گھر لوٹ کر راحت کی سانس لیتے۔ پھر دوپہر کا کھانا ہوتا جو ہوتا پورن پولی اور شری کھنڈ یا مسالہ بھات یہ وہ واحد علامت تھی، جس سے یہ پتا چلتا کہ ہم آدھے مراٹھی بھی ہیں۔

شام کو ماں معمولی سی لکشمی پوجا کرتیں اور چاول کے آٹے سے گھر میں آتے ہوئے لکشمی کے پاؤں بناتیں۔عام لڑکیوں کی ہی طرح ہمیں کان پھوڑ بموں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہم ہاتھ میں احتیاط سے پھلجھڑی تھامے آس پاس چلتے انار اور چکری کی روشنی دیکھ کر خوش ہوتے۔لیکن سب سے زیادہ ہمیں پسند تھاایک چھوٹی سی کالے رنگ کی گولی کا آگ دکھانے پر سانپ بن جانا۔

میں جیسے جیسے بڑی ہوئی،یہ سب بدلنے لگا۔ بھور میں اٹھنااب چھٹی کے دن ملنے والی آرام کی نیند میں بدل گیا۔ کیونکہ مجھ پر بچوں کو رسم و روایت سے روبرو کروانے جیسا کوئی دباوٴ نہیں تھا،اس لیےمیں نے کبھی اور کچھ بھی نہیں کیا۔ ماں کے بنائے سندر لکشمی کے پاؤں میرے اناڑی ہاتھوں کسی راکشش کے پاؤں جیسے بن گئے۔ برسوں بیتے کہ میں نے پٹاخوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔

لیکن آج بھی مجھےاورمیرے پتی کو گھر میں روشنی کرنا پسند ہے۔ تمام شور شرابے،آلودگی کے باوجود دیوالی آج بھی سال کے خاص دنوں میں سے ایک ہے،دیوالی یعنی اپنے والدین سے ملنا اور ڈھیر سارا کھانا۔

اس سال جب میں نےایک لوکل ٹرین میں 17 سال کے جنید پر حملے کی خبر سنی،تو میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔ یہ نئی عمر کے کچھ لڑکے تھے،جو عیدکےلئےنئے کپڑے خریدکر واپس گاؤں لوٹ رہے تھے۔ وہ وہی کر رہے تھے جو دیش کا ہر بچہ کرتا ہے… کسی تہوار کے آنے سے پہلے جوش وخروش اور امنگ سے اس کی تیاری کرنا۔

ایسے میں،میں دیوالی پر کیسے خوش ہو سکتی ہوں،جب جنید اور اس کے جیسے کئی خاندان نفرت بھرے فرقہ وارانہ حملوں کے سبب عید نہیں منا سکے؟آج جب کچھ لوگ گوری لنکیش کے قتل پرخوش ہو رہے ہیں،تب کوئی کیسے کسی تہوارکی خوشی منا سکتا ہے؟بچپن کےوہ چھوٹے کالے سانپ اب کالیا ناگ میں بدل گئے ہیں اورانھیں قابو میں کرنے کے لئے کوئی ‘کرشن’نظر نہیں آتا۔

مجھے یاد نہیں کہ مجھے کس نے یہ دو کہانیاں پڑھائی تھیں، لیکن اسکول کے دنوں میں پڑھی دو کہانیاں ہمیشہ میرے دل کے قریب رہی ہیں۔ پریم چند کی عیدگاہ اور ٹیگور کی کابلی والا۔ سالوں تک میں بنا روئے یہ کہانیاں کسی کو سنا نہیں پاتی تھی۔ دونوں ہی کہانیوں میں مرکزی کردار تہوار(عیداوربیٹی کی شادی)کی خوشی کسی دوسرے کو خوش ہوتے دیکھ کر ہی مناتے ہیں۔

اگر اپنی خوشی میں کسی کو شریک کرنے سے اپنائیت کےاحساس میں اضافہ ہوتاہے، تو کسی کا دکھ بانٹنے سے بھی اپنے پن کے احساس میں قائم رہتا ہے۔ میرے لئے محض ایک ہندو ہونے سے زیادہ انسان ہونا ضروری ہے۔ اس سال دیوالی پرمیرے گھر میں تو اندھیرا رہے گا،لیکن میرے من کا کوئی گوشہ ضرور روشن ہوگا۔

(مضمون نگاردلّی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ان کایہ مضمون بنیادی طور پر 3اکتوبر 2017کو روزنامہ ٹائمس آف انڈیا میں شائع ہوا تھا)