فکر و نظر

وزارت خارجہ کو وزارت بھاجپا نہ بنائیں

انگریزی ترجمہ کے مقابلے اصل ہندی میں لکھے گئے  جملے کہیں زیادہ کھل‌کر بھارتیہ جنتا پارٹی کی تعریف و توصیف اور حمد و ثنا کرتے  نظر آتے ہیں۔ ‘بھارتیہ جنتا پارٹی ‘نےخود اپنی زبان سے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملک کاواحد سیاسی متبادل قرار ددیاہے۔

sushma-deendayal-jaishankarراشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے مفکراوربھارتیہ جن سنگھ کے بانی دین دیال اپادھیائے کی صدسالہ سالگرہ سے کچھ دن پہلے 22ستمبر، 2017 کو وزارت خارجہ نے اپنی سرکاری ویب سائٹ کے ہوم پیج پر Integral Humanismکے عنوان سے ایک ای بک اپلوڈ کیاہے ۔غیر معیاری اورسطحی انداز میں لکھی اورمرتبہ ای بک کو وزیر خارجہ سشما سوراج نے وزارت کے افسران کی سخت محنتوں کا ثمرہ قرار دیا ہے۔حالاں کہ یہ کتاب آزاد ہندوستان کی ابتدائی تاریخ کو توڑمروڑ‌کر پیش کرتی ہے، اور بےحد شرمناک طریقے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا تذکرہ  ملک کے واحد سیاسی متبادل کے طور پر کرتی ہے۔مثال کے طور پر حیرت میں ڈالنے والی ان سطروں کو ملاحظہ کیاجا سکتا ہے:

‘ہندوستان کی جنگ آزادی جب دوقومی نظریےکی زد میں تھی،اس وقت 1942میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ذریعے انہوں (دین دیال اپادھیائے )نے اپنی عوامی زندگی کی ابتدا کی۔ بہترین انتظام کار(ناظم)، ادیب، صحافی اورخطیب کی حیثیت سے  سنگھ کے کاموں پر زور دیتے رہے۔

‘ ملک کی جمہوریت کو ایک مضبوط حزب مخالف کی ضرورت تھی؛پہلےتین پارلیمانی انتخابات کے دوران بھارتیہ جن سنگھ ایک طاقتور حزب مخالف کے طور پر ابھری۔ وہ گزرتے وقت کے ساتھ(آگے چل‌کر)ایک متبادل بن سکے، اس کی انہوں نے مکمل تیاری کی۔ ‘

‘1951سے 1967 تک وہ بھارتیہ جن سنگھ کے جنرل سیکریٹری رہے۔ 1968میں ان کو صدر کی ذمہ داری ملی۔ اچانک ان کو قتل کر دیا گیا۔ ان کے ذریعے  ترقی کی راہ پر گامزن پارٹی ‘بھارتیہ جنتا پارٹی ‘ ہی ملک کا سیاسی متبادل بنی۔

DDU-MEA-book

انگریزی ترجمہ کے مقابلے اصل ہندی میں لکھے گئے  جملے کہیں زیادہ کھل‌کر بھارتیہ جنتا پارٹی کی تعریف و توصیف اور حمد و ثنا کرتے  نظر آتے ہیں۔ ‘بھارتیہ جنتا پارٹی ‘نےخود اپنی زبان سے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملک کاواحد سیاسی متبادل قرار ددیاہے۔

کیا یہ صرف غیر معیاری طرز نگارش  اور ترجمےکا معاملہ ہے ،یا یہاں ٹیکس دہندگان کے پیسے سے بی جے پی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟کیا وزیر خارجہ کا کام یہ اعلان کرنا ہے کہ کون سی سیاسی پارٹی ملک کا سیاسی متبادل ہے؟ کیا حکمراں جماعت کو پارٹی کے سیاسی پروپگینڈہ اور اس کی  تشہیر و تبلیغ کے لئے عوام کے پیسے اور سرکاری اداروں کا غلط استعمال کرنے کی اجازت ہے؟

واضح ہو کہ اپادھیائے نے کبھی کوئی عوامی عہدہ نہیں سنبھالا،کبھی پارلیامنٹ یا اسمبلی کا انتخاب نہیں جیتے۔یہی نہیں، انہوں نے آزادی کی لڑائی تک میں حصہ نہیں لیا۔ ان کی شہرت کا دعویٰ صرف اس بنیاد پر کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی سیاسی جماعت کی رہنمائی کی، جس کے ورثاآج ہندوستان پر حکومت کر رہے ہیں۔

ویڈیو : کیا وزارت خارجہ BJP اور RSS کی ترجمان ہے ؟

اس ای بک کا مقدمہ سشما سوراج نے لکھا ہے، جن کی شہرت سیاسی استحکام اور  غیرجانبداری کا خیال رکھنے والی رہنما کے طور پر ہے۔  اگر یہ بات اپنی جگہ درست ہے تو بھی  وہ وزارت خارجہ کو بی جے پی کا ترجمان بن جانے کی اجازت نہیں دے سکتیں۔اور آخر ان کی وزارت کے سینئر افسروں کی دوراندیشی کو کیا ہوا ہے، جن کا فرض  کسی سیاسی پارٹی کی خدمت اور قدم بوسی کے بجائے  ملک کی خدمت کرنا ہے۔آخر کیسے انہوں نے ایسے دستاویز کی اشاعت کی اجازت دی، جو جمہوری‎ نظام کی بنیادوں کو کمزور کرنے والا ہے؟اس کتاب کا مقدمہ  بھی پہلے تین لوک سبھا کی حقیقت کو توڑمروڑ‌کر پیش کرتا ہے۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘پہلے تین لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جن سنگھ ایک مضبوط حزب مخالف کے طور پر ابھرا۔ ‘

حقیقت یہ ہے کہ52-1951، 57 اور 62 میں بھارتیہ جن سنگھ کو ترتیب وار4، 4اور 14 سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی۔ اس دور میں کانگریس کی اصل مخالف بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی تھی، جس نے ان انتخابات میں ترتیب وار: 16، 27 اور 29 سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔ان باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ وزارت خارجہ کی یہ کتاب بی جے پی اور آر ایس ایس کی سوچی سمجھی پلاننگ کا حصہ ہے۔اس کا مقصد اپنے اوپر ایک طرح کا نظریاتی لبادہ ڈالنا ہے۔ ان کے پیرمغاں ،کےبی ہیڈگواراور ایم ایس گولولکر مشہور ہونے کے ساتھ اتنے متنازعہ بھی ہیں کہ وہ سنجیدہ سوالوں اور جانچ  پڑتال کا مقابلہ نہیں کر پائیں‌گے۔چوں کہ اپادھیائے کی زندگی اور ان کے خیالات سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ اس لیے ان  دعووں کا استعمال سنگھ کے ہندوتواکے فلسفےکو زیادہ بڑی کمیونٹی کے درمیان مقبول بنانے اور ممکنہ طور پر عالمی شہرت دلانے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں اور دیکھیں : مسلم مخالف ذہنیت کوسرکاری فلاسفرکیوں بنایا جارہا ہے؟

اپادھیائے 1916میں پیداہوئے تھے ، لیکن وزارت خارجہ کے مختصر سوانحی کوائف کے مطابق ان کی زندگی کی ابتدائی تین دہائیو ں میں صرف ایک اہم واقعہ انجام پایا،اور وہ یہ کہ جب ان کی نسل  کے  ذہین اور دوراندیش لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں مصروف تھے، انہوں (اپادھیائے) نے 1942 میں آر ایس ایس کی رکنیت لینے کا کام کیا۔اس کتاب کا باقی حصہ اپادھیائے کے Integral Humanism کا خلاصہ  پیش کرتا ہے۔ یہ مذہبی پیغامات کا مجموعہ ہے، جو بہت حد تک نقصان نہیں پہنچانے والے خیالات اور اس کی تکرار سے پرہے۔ لیکن بعض  ایسے بھی ہیں، جو ہندوستانی آئین کے خلاف ہیں۔ جیسے،’کوئی بھی بنیادی حق دائمی نہیں ہے۔ وہ سب سماج کے مفاد پر منحصر کرتے ہیں۔ اصل میں یہ حقوق انسانوں کو اس لئے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی سماجی ذمہ داری کو پورا کر سکیں۔ ‘

DeenDayal_MEA

وزارت خارجہ کی ای کتاب میں اپادھیائے کے ذریعے ہندو شناخت، ہندوتوا وغیرہ کی وضاحت اورتصریح کرنے کے لئے ‘مذہب ‘ اور ‘ ہندوستانیت ‘ جیسے لفظوں اورحوالہ جاتی متون  کا استعمال کیا گیا ہے (یہ واضح نہیں ہے کہ اس مواد کو کس طرح جمع  کیا گیا )۔ اس طرح کے لفظوں کااستعمال ان کے  فلسفہ اور ذہنیت کی غمازی بھی کرتے ہیں۔

 مذہب کو ‘کسی انسان کے وجود کو قائم رکھنے والے دائمی اصول ‘کے طور پر پیش کرنے کے بعد یہ کتاب قاری کے دل میں اس بات کو لےکر کوئی شک نہیں رہنے دیتی کہ اس میں ہندوتوا کی بات کی جا رہی ہے :’ہماری مذہبی کتاب ہمیں بتاتی ہیں کہ ویدوں پر عمل کرنا، مذہبی گرنتھوں کے بنیادی اصولوں کے مطابق کام کرنا، اپنے اندر سچّے اور پاک خیالات کو بھرنا اور اس طرح سے اپنے اندر خوبیوں کو فروغ دینا ہی مذہب ہے۔ ‘اجمالی طور پر کہا جائے تو  بھی یہ  کہا ہی جا سکتا ہے کہ وزارت خارجہ کی کتاب میں ‘ہماری مذہبی کتابوں کے ‘منقولات کھٹکتے ہیں۔

ای بک کے آخر میں جس طرح سے وزارت خارجہ نے ‘بھارتیہ چنتن’ اور ‘ ہندو چنتن’ کو ایک کر دیا ہے، وہ سب سے زیادہ پریشان کرنے والا ہے :

قدرت انسانوں کے تحفظ اور پرورش کے لئے ہر طرح کے اسباب اور وسائل مہیّا کراتی ہے۔ قدرت اپنے آپ میں خدا کا جزو ہے۔ یہی وہ طریقہ جس سے ہم غیر منقسم طور سے پرم شکتی سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ہندو چنتن  کی روح ہے۔ ہندوستانی چنتن (کا ماحصل ہے)۔ دین دیال نے اس خیال کو  ہی Integral Humanism کا نام دیا ہے۔

اس کتاب کی ہندی اشاعت  میں کہا گیا ہے،

‘انسانیت کی یکجہتی کی بنیاد روحانیت (روحانیت) ہوگی۔ روحانیت (روحانیت) صرف ہندوستان اور ہندو سماج کے پاس ہے۔ ۔۔ یکجہتی کی بنیاد کی حفاظت کے لئے ہندو سماج کی تنظیم کا کام اپنایا ہے۔

یہ انوکھے اصول اپادھیائے کی زندگی اور کاموں کا حصہ ہو سکتے ہیں، لیکن وہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کی سوچ اور نظریے کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کو اپنے ذاتی نظریات اور خیالات کی تشہیر کرنے دیجئے، لیکن مہربانی کرکے  وزارت خارجہ کو اس سے دور رکھیے۔