فکر و نظر

یکم اکتوبر کو بھسان کو التوا میں رکھنے کا انتظامیہ کا فیصلہ ایک نان اشو تھا

ممتا کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کے اس طرح کے فیصلوں سے مسلمانوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے ۔ الٹے بی جے پی کو جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے بنگال کے سیکولر مزاج لوگوں کے دل و دماغ میں فرقہ پرستی کے زہر کا بیج بونے کا موقع مل جاتا ہے۔

Mamata-durga-idol-immersionکلکتہ ہائی کورٹ کی رائے کے باوجود یکم اکتوبر کو مغربی بنگال میں درگا پوجا کی مورتیوں کا بھسان نہیں ہوا۔تمام اندیشے اور وسوسے غلط ثابت ہوئے۔ کلکتہ سمیت صوبے بھرمیں محرم اور درگا پوجا مکمل طور پر پر امن طریقے سے گذر گئے۔ایک بار پھر فرقہ پرست طاقتوں کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ ایک بار پھر بنگال کی روایتی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی جیت گئی۔ اور ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ بنگال میں ہوتا وہی ہے جو دیدی چاہتی ہیں۔

یوں تو بنگال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایت پرانی ہے ،لیکن اس بار بھی اس کی ایک مثال قائم کی گئی ۔دراصل شمالی بنگال کے جلپائی گوڑی شہر کے قریب نگر بیروباری بازار نام کا ایک قصبہ ہے۔ یہاں ہر سال درگا پوجا کی مورتیوں کا بھسان وجے دشمی کے دن ہوتا آیا ہے اور اس کے قبل ایک بڑا میلہ بھی وہاں لگتا ہے جس کو دیکھنے کے لئے قرب و جوار سے کافی لوگ وہاں جمع ہوتے ہیں۔اس بار پوجا کمیٹی نے ایک دن بعد بھسان کرنا چاہا لیکن اس کی راہ محرم کے اکھاڑے کے جلوس کے روٹ سے ٹکرا رہی تھی اس لئے مقامی پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ لیکن مقامی مسلمانوں نے پولیس اور انتظامیہ کو خط لکھ کر یہ درخواست کی کہ وہ یکم اکتوبر کو بھسان کی اجازت دے دے کیونکہ انہیں محرم کا جلوس ایک دن بعد نکالنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔یہ ہے بنگال کی رواداری ۔جس کو فرقہ پرست طاقتیں ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

واضح ہو کہ دو بڑے مذہبی تہوار درگا پوجا اور محرم الحرام کے ایک ساتھ آجانے کی وجہ سے بنگال کی وزیر اعلیٰ نے عاشورہ کے دن مورتیوں کے بھسان کی ممانعت کر دی تھی۔ مانا جاتا ہے کہ گذشتہ چند ماہ میں صوبے میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے چند واقعات کے دوران اور بعد میں ممتا کو خفیہ ایجنسی کی  رپورٹوں سے یہ پتہ چلا کہ درگا پوجا کے موقع پر فرقہ پرست طاقتیں صوبے کی فضا کو مکدر کرسکتی ہیں۔ انتظامیہ نے حفظ ماتقدم کے طور پر عاشورہ کے دن بھسان روک دینے کا فیصلہ کیا تھااور کسی پوجا آرگنائزر نے اس کی کوئی مخالفت نہیں کی تھی۔ کیونکہ عموماً عوام کے جوش وخروش کے پیش نظر زیادہ تر پوجا منتظمین یہ کوشش کرتے ہیں کہ وجے دشمی ( دسہرہ) کے دن درگا پوجا کے اختتام کے بعد بھی بھسان کو ایک یا دودن کے لئے ٹال دیا جائے۔

 لیکن آر ایس ایس نے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں پی آئی ایل داخل کردیا۔ پندرہ دن قبل ممتا بنرجی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے عاشورہ کے دن ( یکم اکتوبر)درگا پوجا کی مورتیوں کے بھسان کی اجازت دے دی ۔ چیف جسٹس راکیش تیواری اور جسٹس ہریش ٹنڈن کی ڈویژن بنچ نے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ ایسے انتظامات کرے کہ بھسان کے لئے مورتیوں کو مختلف گھاٹوں پر لے جانے والے ٹرکوں اور محرم کے اکھاڑے کے جلوسوں کے روٹ الگ الگ ہوں تاکہ دونوں فرقوں کے لوگ آرام سے اپنے اپنے مذہبی فریضوں کی ادائیگی کرسکیں۔

بی جے پی نے عدالتی فیصلے کو ہندوؤں کی فتح اور ممتا کی شکست قرار دے کرخوشیاں منائیں۔ دلی کے بڑے بڑے ٹیلی وژن چینلوں پر گھنٹوں تک چلے خصوصی مباحثوں میں ہائی کورٹ کے فیصلہ کی بنیاد پر ممتا کو مسلمانوں کی نام نہاد منہ بھرائی کے لئے خوب نشانہ بنایا گیا۔ وزیر اعلیٰ کو ہندو مخالف قرار دیتے ہوئے ا ن پر مسلم ووٹ بینک کی خوشامد کا الز ام لگایا گیا۔ کورٹ کے فیصلے سے سنگھ پریوار کاحوصلہ بڑھ گیا اور ایسا لگا جیسے ممتا عارضی طور پر ہی سہی لیکن بیک فٹ پر آگئی ہوں۔ صورتحال اس وقت بالکل بدل گئی جب یکم اکتوبر کے دن صوبے کے شاید ہی کسی پنڈال کی مورتیوں کا بھسان کیا گیا۔ بی جے پی کے لیڈر راہل سنہا نے دعویٰ کیا کہ ریاستی حکومت نے درگا پوجا کمیٹیوں پر دباؤ ڈال کر انہیں عاشورہ کے دن بھسان کرنے سے روکا۔جبکہ بنگال کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ( لا اینڈ آرڈر) انوج شرما نے پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کیا کہ اضلاع کی 25 ہزار پوجا کمیٹیوں اور کلکتہ شہر کی تقریباً 2600 کمیٹیوں میں سے کسی نے بھی یکم اکتوبر کے دن بھسان کے لئے پولیس اجازت کے لئے درخواست نہیں دی ۔

 آخر ہائی کورٹ کی اجازت کے باوجود عاشورہ کے دن بھسان کیوں نہیں کیا گیا؟ بنگال میں مورتیوں کا بھسان درگا پوجا کے اختتام کے بعدوجے دشمی کی شام سے شروع ہو تاہے اور اگلے چار دنوں تک جاری رہتا ہے۔ہائی کورٹ نے بھی بھسان کے لئے30 ستمبر سے 4 اکتوبر تک کا وقت دیا تھا۔اس کے برعکس عاشورہ کا معاملہ صرف ایک دن یعنی محرم کی دسویں تاریخ کا تھا۔ممتا پر مسلم نوازی کا الزام لگانے والی بی جے پی اور دوسری فرقہ پرست تنظیموں نے جان بوجھ کرایکاہم نکتہ گول کردیا ۔مذہبی  احکامات کی پاسداری کرنے والے درگا پوجا آرگنائزر وجے دشمی کے بعد والے دن جسے اکادشی کہتے ہیں مورتیوں کو دریا کے سپرد نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس دن بھسان کرنا برا شگون مانا جاتا ہے۔ یکم اکتوبر کو بنگلہ جنتری کے مطابق اکادشی تھی۔

عین ممکن ہےکہ ممتا نے اس دن بھسان ملتوی کرنے کا فیصلہ کرتے وقت یہ نکتہ ضرور ذہن میں رکھا ہو گا۔یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ممتا کی ترنامول کانگریس پارٹی کے متعددہیوی ویٹ لیڈر مثلاً سبرتو مکھرجی، فرہاد حکیم، اروپ بسواس، پارتھو چٹرجی، دیباسیش کمار شہر کے بڑے بڑے درگا پوجا (جن کا بجٹ کروڑوں میں ہے)سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ ہر درگا پوجا کمیٹی کومقامی ترنامول کونسلر یا ایم ایل اے کی براہ راست یا بالواسطہ سر پرستی حاصل ہے۔ ظاہر ہے ان سے یہ توقع کرنا ہی فضول تھا کہ وہ انتظامیہ کی ہدایت کی خلاف ورزی کریں گے۔ ممتا کو معتوب کرنے کی جلدی میں بی جے پی نے ایک اور نکتہ فراموش کردیا ۔ گذشتہ دو برسوں سے ریاستی حکومت کی ایما پر شہر کی سب سے اہم شاہراہ ریڈ روڈ پر بڑے اور سب سے زیادہ چرچا والے پوجا پنڈالوں کی مورتیوں کی نمائش کی جاتی ہے اور انہیں سرکاری انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ اس شاندار کارنیوال کو دیکھنے کے لئے ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اس سال بھی یہ روڈ شو تین اکتوبر کو منعقد کیا گیا۔ اگر بڑی پوجا پنڈال کمییٹیاں یکم اکتوبر کو مورتیوں کو دریائے ہوگلی کی نذر کردیتیں تو بھلا وہ کس طرح سرکاری نمائش میں شرکت کر پاتیں۔

یہ بی جے پی کا پرانہ حربہ ہے۔ صاف ذہن اور حقیقی طور پر سیکولر ہندو لیڈروں کی عوامی مقبولیت کا مقابلہ کرنے میں جب بی جے پی ناکام رہتی ہے تو پہلے ان پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگاتی ہے پھر ان کے ہر اقدام کو ہندو مخالف قرار دے کر ان کے خلاف ایک زہریلی مہم چھیڑ دیتی ہے۔ راجیو گاندھی ہوں یا ملائم سنگھ یادو، وی پی سنگھ ہوں یا لالو پرساد کوئی بھی سنگھ پریوار کے اس اوچھے حملے سے نہیں بچا ہے۔ Appeasement کا الزام ایک ایسا سیاسی ہتھیار تھا جس کو نہایت چالاکی سے استعمال کرکے لال کرشن اڈوانی نے رام جنم بھومی تحریک کے لئے ملک گیر حمایت حاصل کی تھی۔

اب بی جے پی منظم طریقے سے ممتا کے خلاف اسی ہتھیار کو استعمال کرکے بنگال میں اپناsupport base بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔ پچھلے سال اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس نے سی پی آئی ( ایم) سمیت پورے بایاں محاذ کو اس بری طرح پچھاڑا کہ اسے اپوزیشن کے رتبے سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ 34 برسوں تک صوبے میں حکومت کرنے والا بایاں محاذ اس وقت سیاست کے حاشئے پر پہنچ کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ کانگریس کی حالت بھی نازک ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی پوری شدت سے صوبے میں اپنی زمین مظبوط کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے۔ امیت شاہ نے مئی کے ماہ میں تین دنوں تک صوبے میں قیام کرکے بی جے پی ورکروں کو 2018 میں مجوزہ پنچایت اور 2019 میں لوک سبھا انتخابات کے لئے ابھی سے تیا ری کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے ان کا جوش و ولولہ بڑھانے کے لئے ً ایبار بانگلہً یعنی ً اس بار بنگال ً کا نعرہ بھی دیا ہے۔

یکم اکتوبر کو بھسان کو التوا میں رکھنے کا انتظامیہ کا فیصلہ ایک نان اشو تھا جسے بی جے پی نے سیاسی مقصد براری کے لئے خوشامدی میڈیا کی مدد سے ایک بہت بڑا اشو بنادیا۔ یہاں میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ممتا بنرجی کو بھسان پر ایک دن کی پابندی نہیں عائد کرنی چاہئے تھی۔ مسلمانوں نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور کلکتہ ہائی کورٹ کے ججوں کا یہ تبصرہ بھی بالکل درست تھا کہ جب حکومت خود یہ دعویٰ کررہی ہے کہ بنگال میں مکمل فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے تو محرم کے دن بھسان پر اعتراض کیوں ہے۔ ممتا کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کے اس طرح کے فیصلوں سے مسلمانوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے ۔ الٹے بی جے پی کو جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے بنگال کے سیکولر مزاج لوگوں کے دل و دماغ میں فرقہ پرستی کے زہر کا بیج بونے کا موقع مل جاتا ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ دی ایشئن ایج ( کلکتہ ) کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ )