خبریں

کرنسی نوٹ کے گاندھی، دی ہندو اور سُدرشن ٹی وی کا فیک نیوز

سدرشن نیوز کی یہ حرکتیں نئی نہیں ہیں، سدرشن نیوز کا کاروبارنفرت پر ہی چلتا ہے۔

fake notesگاندھی جینتی یعنی مہاتما گاندھی کے یوم ولادت 2 اکتوبر کے دوران ایک تصویر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بہت زیادہ شیئر  کی گئ، جس میں ایک بچی  مہاتما گاندھی کی تصویریں پروجیکٹ فائل  میں لگا رہی ہے ۔ تصویر میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ گاندھی جی کی وہ تصویریں اُس بچی نے 2000 اور500 روپے  کے کرنسی نوٹوں سے کاٹ کر نکالی ہیں۔تصویر کو شیئرکرنے کا سبب یہ تھا کہ ایک معمولی اسکول پروجیکٹ کے لئے کوئی بھی والدین تقریباً15 سے20 ہزار روپے کے نوٹوں کو اپنی اولاد کے ہاتھوں کیوں برباد کرنے دینگے! دوسری وجہ یہ تھی کہ کرنسی نوٹ ملک کی ملکیت ہوتے ہیں اوران  نوٹوں کو اس طرح برباد کرنا اخلاقی اور قانونی لحاظ سے غلط ہے۔ بعض افراد نے مذاق اور تفریح کے طور پر بھی اس تصویر کو شیئر  کیا۔

تصویر میں کاٹے گئے نوٹوں کو اصلی تسلیم کیا گیا جب کہ  وہ نوٹ جعلی تھے ۔دراصل  اصلی کرنسی نوٹوں کی رنگین فوٹو اسٹیٹ تھے جن میں ایک سے زیادہ نوٹ کا ایک ہی سیریل نمبر تھا ۔اوپر تصویر میں تین نوٹوں میں زرد خانوں کے اندر ایک ہی سیریل نمبر ہے اور سبز خانوں کے اندر دوسرا سیریل نمبر ہے۔ اس لئے تصویر میں بچی نے جو نوٹ استعمال کیے ہیں وہ دراصل جعلی ہیں ۔  اس تصویر کے جعلی ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ تصویر آسمان سے نازل نہیں  ہوئی ہے ۔ اس تصویر کو بچی کےاہل خانہ نے ہی اپنے کیمرے سے لیا ہے اور تصویر بالکل صاف ہے۔  کوئی بھی شخص جو کیمرے سے تصویر لینے کا شعور رکھتا ہے، وہ اتنا با شعور بھی ہوگا کہ تقریباً15 سے20 ہزار روپے کے نوٹوں کوبرباد ہوتا دیکھ کر وہ اتنی پرسکون تصویر  نہ لے سکےگا ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ  تصویر میں موجود بچی اتنی معصوم بھی نہیں ہے کہ وہ بڑے نوٹوں کی اہمیت ہی نہ جان سکے !آج کے تکنیکی دور میں بچےعالمی سطح پر  ریاضی اولمپیاڈ میں  مہارت حاصل کر رہے ہیں، معیاری امتحانات میں اپنے شہر، صوبے، اور ملک کا نام روشن کر رہے ہیں   جب کہ اسکے برعکس سوشل میڈیا  کی  یہ تصویر بچوں کی قابلیت کے خلاف ایک الگ داستان بیان کرتی ہے۔ کیوں کہ زمانہ فیک نیوز کا ہے !

sudarshanTV_Rohingya

گزشتہ ہفتے کی دوسری فیک نیوز سُدرشن نیوز(Sudarshan News)  کی جانب سے عام کی گئی۔سدرشن نیوز نےاپنی ویب سائٹ پر ایک خبرمیں پرانی تصویر کواستعمال کیا ۔مقصد روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت  پھیلانا تھا ۔

سُدرشن نیوز  نے  بتایا کہ تصویر میں جو شخص ہے وہ روہنگیا مجرم ہے اور پولیس اس کو گرفتار کر رہی ہے۔ سدرشن نیوز  کے ایڈیٹر سُریش چا ونکے   نے اسے اپنے ٹوئٹر پر شیئر کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دیکر بنگلہ دیش عنقریب تباہ ہونے والا ہے ، اس لئے وہاں کی پولیس روہنگیا مجرموں کو گرفتار کر رہی ہے۔ شایدایڈیٹر صاحب دبے الفاظ میں یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہندوستان میں بھی  روہنگیا مسلمانوں کو پناہ نہیں دی جانی چاہیے۔

SudarshanTV_SureshS

سوشل میڈیا  ہوَش سلیر کی تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ  سدرشن نیوز نے جس تصویر کو استعمال کیا ہے وہ اپریل  کی تصویر ہے جس میں پولیس ایک معذورشخص کو گرفتار کر رہی ہےیا ہاتھاپائی کر رہی ہے  جو  بنگلہ دیش کے جن جاگرن منچ سے تعلّق رکھتا ہے اور احتجاج کر رہا ہے۔ سدرشن نیوز نے یہ تصویر غالباً ڈیلی اسٹار اخبار کی ویب سائٹ سے چوری کی ہے ۔

DhakaUniversity

سدرشن نیوز کی یہ حرکتیں نئی نہیں ہیں، سدرشن نیوز کا کاروبارنفرت پر ہی چلتا ہے۔اسی سال اپریل میں اتر پردیش کے شہر سنبھل  میں  مذہبی تشدد پھیلانے کے الزام میں سُریش صاحب کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور ان کے چینل پر پابندی  لگ چکی ہے ۔

SudarshanTV

ہفتے کی تیسری اہم فیک نیوز معروف اخبار ‘ دی ہندو’ کی جانب سے شائع کی گئی لیکن جلد ہی ‘دی ہندو’نے اس حماقت کی معافی مانگ لی۔

TheHindu_Apology

دی ہندو نے الفیسٹن ریلوے اسٹیشن  بھگد ڑ پر ایک آٹھ سیکنڈ  کی ویڈیو سے یہ ثابت کر دیا کہ ویڈیو میں ایک شخص  بھگدڑکی شکار ایک عورت کے ساتھ بدسلوکی کر رہا ہے۔ دی ہندو نے اس خبر کو اپنے ممبئی ایڈیشن اور دوسرے آن لائن پورٹل پر شائع  کیا۔ بعد میں پولیس نے تفتیش کی اور پایا کہ وہ آٹھ سیکنڈ کی ویڈیو  ناظرین کو گمراہ کر رہی ہے۔ مکمّل ویڈیو میں حالات برعکس پاے گئے۔ اس کے بعد دی ہندو نے اپنی غلطی قبول کی اور خبر کو پوری طرح سے ہٹا لیا گیا۔