ادبستان

پنکج ترپاٹھی کا انٹرویو : ہمیں کسی نے بریک نہیں دیا، ہم ایک ایک سین…

 پنکج ترپاٹھی بہار کے چھوٹے سے گاؤں سے جب پٹنہ پہنچے تو ان کو ڈاکٹر بننا تھا،لیکن وہ ایک اسٹوڈنٹ کے طور پر سیاست میں کود پڑے۔ ایک چھوٹی سی جیل سفر کے بعد وہ رنگین دنیاکی طرف مڑے اور اب ان کا سفر گلیمر کی دنیا تک پہنچ گیا ہے۔پیش ہے  ان سے پرشانت ورما کی بات چیت۔

Pankaj-Tripathi-Jar-Pictures-2

بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے نکل‌کر اداکاری کے میدان میں کیسے آنا ہوا؟

میں نے بالکل نہیں سوچا تھا کہ مجھے ایکٹر بننا ہے، نہ ہی کوئی پلاننگ تھی، نہ ہی آس پاس کوئی Inspiration، اس وقت نہ ٹی وی سیٹ تھے اور نہ ہی سنیما ہال موجود تھے کہ فلموں کا اثر ہو۔میں پڑھائی کرنے کے لئے پٹنہ آیا تھا۔ ماں باپ نے بھیجا تھا کہ ڈاکٹر بنانا ہے۔ پٹنہ آکر میں ایک طلبہ تنظیم سے جڑ گیا۔ طلبہ تحریک میں حصہ لینے لگا۔ ایک احتجاج کے دوران چھوٹا ساجیل  کا سفر بھی ہوا۔جیل میں سات دن رہنا تھا تو ان لوگوں نے ہمیں لائبریری کی سہولت دے رکھی تھی کہ جائیے پڑھئے۔ ہمارے ساتھ کئی تنظیموں کے طلبہ جیل گئے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے بھی لوگ تھے۔

اس دوران ،ان  سے دوستی ہو گئی۔ جیل سے نکلنے کے بعد انتہا پسند جماعت کے ممبروں نے بولا کہ ایک ڈرامہ ہونے والا ہے، آؤ دیکھنے۔ میں کالی داس رنگ محل ڈرامہ دیکھنے چلا گیا۔ پھر مسلسل ایک سال تک ڈرامہ دیکھا اور ایک سنجیدہ ناظر بن گیا۔مجھے اچھا لگنے لگا۔میں سیاست میں تھا۔ سیاست میں آپ کی باتیں ٹروتھ فل (سچّی) ہو نہ ہوں بیوٹی فل (خوبصورت) ہونی چاہیے، جس سے لوگ اثر میں آ جائیں۔ خوبصورت باتیں کرو۔ آرٹ کے میدان میں بیوٹی فل ہو نہ ہو ٹروتھ فل ہونا ضروری ہے۔

مجھے لگا کہ جھوٹ کا کام تو دونوں (سیاست اور اسٹیج) ہی ہیں۔ پر جھوٹ کا یہ کام (اسٹیج) زیادہ سچّائی سے کیا جاتا ہے۔تو میں آہستہ آہستہ ڈرامہ کرنے لگا۔ چھوٹےموٹے کردار ملنے لگے۔ الگ الگ  تھیٹر گروپوں کےلوگ پہچان گئے تھے۔ پھر دلّی میں ڈراما اسکول کے بارے میں پتہ چلا، جہاں پڑھنے کے لئے زیادہ پیسے نہیں لگتے ہیں۔ہم کسان  فیملی سے ہیں تو ایسا نہیں تھا کہ گھروالے مجھے ایکٹر بنانے کے لئے پیسے دیتے۔ اس لئے دلّی آنے کے بارے میں سوچا۔ میں پٹنہ سے تھیٹر کرکے جب سے باہر نکلا گھر سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا ہے۔

نیشنل اسکول آف ڈراما کا امتحان دیا اور تیسری بار میں سیلیکٹ ہو گیا۔ پھر ٹریننگ ہوئی۔ اس کے بعد کچھ آپشن تھے۔ بطور اداکار ہندی تھیٹرمیں بالکل پیسے نہیں ہیں۔ اس کو ابھی بھی شوقیہ لوگ چلاتے ہیں یا پھر یہ سرکاری امداد سے چلتا ہے۔سرکاری امداد کے لئے آپ کو بہت سارے لوگوں کے سامنے اپنی ریڑھ جھکانی ہوتی ہے اور میری ریڑھ کی ہڈی تنی ہوئی ہے، میں جھک نہیں سکتا۔ میں شائستہ ہوں اور یہ غرور کی بات نہیں ہے، لیکن مجھے چم چئی پسند نہیں۔تو ایک ہی آپشن بچتا ہے کہ ممبئی جاؤ۔ ممبئی میں چھوٹےچھوٹے، ایک ایک سین کا دور شروع ہوا۔ وہ کرتےکرتے آٹھ دس سال گزر گئے۔ پھر گینگس آف واسع پور آئی اور اس نے تھوڑی سی پہچان بنائی۔ اس کے بعد آپ سب لوگ دیکھ ہی رہے ہیں۔

بہار کے اپنے گاؤں میں بھی آپ ڈراما کیا کرتے تھے۔ اس کی کیا کہانی ہے؟

چٹھ کے دنوں میں ہمارے گاؤں میں ڈرامے کی روایت تھی۔ اس وقت میں نے دوتین سال گاؤں میں ڈراما کیا تھا۔ میں لڑکی بنتا تھا کیونکہ لڑکی بننے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا تھا۔ جو لڑکی کا کردار کرتا تھا لوگ چڑھاتے تھے۔ڈراموں میں جو لڑکی بنتے تھے وہ برہمن نہیں ہوتے تھے۔ وہ یا تو او بی سی ہوتے تھے یا دلت فیملی سے آتے تھے۔ میں شاید اپنے گاؤں کا پہلا برہمن تھا جو عورت بنا۔ ڈائرکٹر بولا بھی تھا کہ اپنے والد سے پہلے پوچھ لو۔ میں نے کہا، میں بن رہا ہوں ان سے کیا پوچھنا ہے۔

میں نے لڑکی کا کردار نبھایا اور لوگوں نے اس کو خوب پسند کیا۔ لوگوں نے چڑھایا لیکن میں نہیں چڑھا اور لوگ ایک دو دن میں تھک گئے۔یہ ایک پڑاؤ تھا لیکن ایک بہت ہی شوقیہ سطح پر تھا۔ ہاں، اس کو آغاز ضرور کہہ سکتے ہیں۔ یہ ویسی تخم کاری تھی کہ آپ ایک بیج کوکسی بنجر زمین پر پھینک دیں جس کے جمنے کی امید نہ کہ برابر ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کا جو تھیٹر تھا وہ بنجر زمین ہی تھا۔

برہمن فیملی کے بچّے لڑکی کا کردار نہیں نبھاتے تھے تو جب آپ نے یہ کردار نبھایا تو گھروالوں نے اعتراض نہیں کیا؟

لڑکی کا کردار کرنے پر گھروالوں نے کوئی ناراضگی نہیں جتائی۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ میں فنکار ہوں اور لڑکی کاکردار نبھا دینے سے لڑکی بن تھوڑے نہ جاؤں‌گا۔ میرے بابو جی  بڑے Simple آدمی ہیں کسان ہیں۔ کوئی مخالفت نہیں ہوئی۔

گاؤں سے پٹنہ آپ ڈاکٹر بننے کے لئےآئے تھے پھر اسٹیج کی طرف کیسے مڑ گئے؟

میں نے حیاتیات(Biology) سے انٹر کیا ہے اور کچھ سالوں تک ڈاکٹری کی کوچنگ بھی کی ہے۔ دو دفعہ امتحان بھی دیا لیکن ڈاکٹری کے لئے جتنے نمبر چاہئے ہوتے تھے اتنے نہیں آ پائے۔ پڑھنے میں میں برا نہیں تھا، ٹھیک تھا لیکن میرا پڑھنے میں دل نہیں لگتا تھا۔اور پھر ناٹک واٹک سے وابستہ  ہونے کے بعد جو ادب میں دلچسپی بڑھ گئی،کہانی،شاعری پڑھنے لگا اور 1996 کے بعد سے پوری طرح سے ڈراماکار بن گیا تھا۔آپ کی فیملی ابھی گاؤں میں ہی رہتی ہے۔ اپنے گاؤں کے بارے میں کچھ بتائیے؟

میں بہار کے گوپال گنج ضلع کے بیلسنڈ گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ اباجان کسان ہیں اور پنڈتائی کرتے ہیں۔ دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ گھر میں کسی کا آرٹ کے میدان سے کچھ لینادینا نہیں ہے۔ بجلی ابھی تین چار سال پہلے ہی ہمارے گاؤں پہنچی ہے۔ گاؤں کے کچھ ہی گھروں میں ٹی وی ہے۔

پٹنہ آنے پر آپ طلبہ تحریک میں کود پڑے تھے۔ اس دوران آپ جیل بھی گئے تھے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟

1993 میں مدھوبنی گولی کانڈ میں دو طلبا مارے گئے تھے۔ لالو جی کی حکومت تھی تو اس کی مخالفت میں سارے طلبہ تنظیموں نے مل‌کر دسمبر کےمہینے میں ایک احتجاج کیا تھا۔ تب میں طلبہ تنظیم میں تھا۔ جیل میں ہمارے ساتھ بائیں بازو کی  تنظیموں کے طلبا بھی تھے۔ جیل میں دیکھا کہ ان لوگوں میں سے کوئی مکتی بودھ پڑھ رہا ہے کوئی ناگارجن۔ اس وقت تک ہم ان لوگوں کو جانتے بھی نہیں تھے۔گاؤں میں گورکھ پور سے کلیان نام کا ایک مذہبی رسالہ آتا تھا وہیں دیکھے تھے۔ یا کبھی کبھی آر ایس ایس کا پانچجنیہ دیکھا تھا۔ کلیان اور پانچجنیہ سے باہر کا ایکسپوزر نہیں تھا۔ جیل میں پتہ چلا کہ کوئی ناگارجن ہیں، شاعر ہیں۔ ان کو پڑھا پھر جاکر ڈراما دیکھنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ رجحان بڑھنے لگا اور پھر اسٹیج کے ہی ہوکر رہ گئے۔

Nawajuddin-Siddiqui-and-Pankaj-Tripathi

نیشنل اسکول آف ڈراما سے ٹریننگ لینے کے بعد آپ پٹنہ واپس چلے گئے۔ وہاں آپ اداکاری بھی کرنے لگے تھے تو پھر ممبئی جانے کا خیال کیسے آیا؟

2001 میں میرا سیلیکشن نیشنل اسکول آف ڈراما میں ہو گیا تھا۔ 2001 سے 2004 تک میں نے یہاں ٹریننگ کی۔ پھر پٹنہ آ گیا۔ چار مہینے تک پٹنہ میں تھیٹرکیا تو محسوس ہوا کہ ہندی تھیٹرمیں گزارا کرنا مشکل ہے، اس لئے ممبئی جانا پڑا اور 16 اکتوبر 2004 کو میں نے بیوی کے ساتھ ممبئی پہنچ گیا۔

دلّی سے پٹنہ اور پٹنہ سے پھر ممبئی جانے کے بعد آپ کا جدو جہد کیسا رہا؟

اس وقت پیسوں کی بہت تنگی ہوتی تھی تو بیوی نے ایک اسکول میں نوکری کر لی۔ ہمارے خرچ بہت کم تھے تو پریوار چل جاتا تھا۔ میں ممبئی صرف گزارا کرنے آیا تھا اسٹار بننے نہیں۔ مجھے وہ خواہش نہیں تھی کون مجھے بطور ہیرو یا بطور ویلن لانچ کرے‌گا۔جیسےخوردہ کسان ہوتا ہے جس کے کھیت میں دو کلو بھنڈی ہوتی ہے تو وہ خودہی بازار  میں بیچ‌کر چلا آتا ہے۔ میں ویسے ہی خوردہ ایکٹر تھا جو ایک کلو بھنڈی لےکر ممبئی آیا تھا۔

10 سے 12سال کی جدو جہد کے دوران میں سب کچھ کر لیتا تھا۔ ٹی وی شو، کارپوریٹ فلمیں یا اشتہار مل گیا تو وہ کر لیا۔ بیوی پڑھانے لگی تھیں تو گھر چلانے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوتی تھی۔بہاری میں جدو جہد کی قوت ہوتی ہے۔ ہماری 10ویں تک کی زندگی تو اندھیرے میں گزری ہے۔ بلب اور ٹیوبلائٹ کی ضرورت نہیں تھی ہمیں۔ فریج کا کھانا ہمیں آج بھی اچھا نہیں لگتا۔بس یہی خیال تھا کہ ممبئی میں کسی طرح ٹک جانا ہے۔ ہاں، لیکن اس دوران میں ایکٹنگ کے بارے میں سوچتا رہتا تھا کہ کیسے دوسروں سے الگ کرنا ہے تاکہ لوگ مجھ پر توجہ دیں کہ یہ کون ہے۔ کردار کو اتنی ایمانداری سے کرو کہ لوگوں کو نظر آ جائے۔

ابھشیک بچّن کی فلم”رن “آپ کی ابتدائی فلموں میں سے ہے۔ یہ فلم کیسے ملی؟

میں نے رن سے پہلے کوئی فلم نہیں کی تھی۔ وہ بہت چھوٹا کردار تھا اس کو میں کاؤنٹ نہیں کرتا تھا۔ ایک دن اچانک ایسے ہی یہ مل گئی۔ میں نے کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ دو سین  تھے، پتہ چلا کہ ہر ایک سین کے لئےچار ہزار روپے ملیں‌گے تو میں نے کر لیا۔ اس میں میری آواز بھی نہیں تھی۔ ڈبنگ کسی اور نے کی ہے۔اس وقت دلّی میں رہتا تھا تو میں نے کر لیا اور جب آٹھ ہزار روپے کا چیک آیا تو اس پر شری دیوی جی کا دستخط تھا۔ پتہ چلا کہ وہ فلم کی پروڈیوسر ہیں تو میں ایسے ہی خوش ہو گیا۔ شری دیوی کے دیوانے تھے اور انہوں نے چیک بھیج دیا میرے پاس۔

فلم رن کو آپ کاؤنٹ نہیں کرتے ہیں تو آپ کو پہلا بریک کیا گینگس آف واسع پور سے ملا؟

نہیں،ایسا نہیں ہے۔ گینگس آف واسیپور نے تھوڑا پاپولر بنا دیا۔ لوگ کھوجنے لگے کہ ارے  یار وہ ایکٹر کون ہے، جو سلطان بنا ہے۔ گینگس آف واسےپور میں مجھے پرموٹ نہیں کیا گیا تھا۔ہمیں بریک کسی نے نہیں دیا ہے۔ ہر کسی نے ‘بریک’ ہی دیا ہے کہ رکتے جاؤ تم کہا ں جا رہے ہو رکو۔ تو ہمارا ‘بریک ‘ویسا والا تھا۔ جیسے نل ڈھیلا ہو تو ایک ایک بوند پانی ٹپکتا رہتا ہے۔ ویسے ہی ہمارے ایک ایک سین ٹپکتےٹپکتے اکٹّھا ہو گئے۔

 آپ نے کامیڈی کے علاوہ ولن کا کردار بھی بخوبی نبھایا ہے۔ کون سا کردار نبھانے میں آپ کو زیادہ مزہ آتا ہے؟

پسند تو مجھے کامیڈی ہی آتی ہے۔ میں تھیٹر میں کامیڈی کرتا تھا۔ اگر کامیڈی پر آپ کی گرفت ہے تو یہ بہت آسان کام ہے۔ اگر آپ کی گرفت نہیں ہے تو دنیا کا سب سے مشکل کام ہے کسی کو ہنسانا۔رلانے والے سین میں اگر آپ نے درد بھری موسیقی چلا دی تو سامنے والاAudience جذباتی ہو سکتا ہے۔ کامیڈی میں کوئی موسیقی کام نہیں کرتی ہے۔ اگر آپ میں وہ بات نہیں ہے تو پھر نہیں ہے۔منفی کردار کافی مشکل ہوتا ہے۔ مجھے اس میں کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔

گینگس آف واسےپور میں سلطان کے کردار کے وقت تک میں نے قصائی خانہ دیکھا نہیں تھا۔ میں تشددپسند آدمی نہیں ہوں۔ میں اتنا خیال رکھتا ہوں کہ میری باتوں سے کوئی رنجیدہ نہ ہو جائے۔ سلطان لوگوں کو سرعام کاٹ رہا ہے، گولیاں مار رہا ہے۔ اس کو اچّھے طریقے سے کرنا تاکہ ناظرین پر اثر ہو۔ایسے کرداروں میں مجھے اپنے خیالات اور جذبات کے برعکس جاکر کام کرنا ہوتا ہے،اس لئے اس میں زیادہ محنت اور کوشش کرنی ہوتی ہے۔

سلطان میرا تصور اوررائٹر کا تخیل ہے۔ فلم میں ایک وائس اوور آتی ہے کہ سلطان 12 سال کی عمر میں پورا بھینسا اکیلے کاٹتا تھا اور آج بھی دن کا 60 بھینسا خدّے کاٹتا ہے،اس لئے سب اس سے ڈرتے ہیں یہ وائس اوور اس کردار کو مستحکم کر دیتی ہے۔ سینما کلیکٹو آرٹ ہے ایک آدمی کا کام نہیں ہے۔کاسٹیوم ڈزائنر کی بھی اتنی ہی بڑی شراکت ہوتی ہے جتنی شراکت کیمرامین کی اور رائٹر کی ہوتی ہے۔ سب مل کر بناتے ہیں، اکیلے کی بس کی بات نہیں ہے۔

ایک انٹرویو کے دوران آپ نے کہا تھا کہ آپ کے ذریعے نبھائے گئے منفی کرداروں کو جو ناظرین پسند کرتے ہیں وہ آپ کو نہیں بھاتے، ایسا کیوں؟

نہیں-نہیں ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے غلط لکھ دیا تھا۔ ہم کوئی بھی کردار کریں اگر ناظرین پسند کرتے ہیں تو وہ ہماری صلاحیت کی تعریف ہے۔ میری تعریف ہونا مطلب میرے آرٹ کی تعریف ہے۔ میں نے ان سے یہ بولا تھا کہ ذاتی طور پر مجھے منفی کردار کرنا پسند نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں مجھے کافی پریشانی ہوتی ہے۔میں نے ایسی کئی فلمیں کرنے سے انکارکر دیا۔ ہالی ووڈ اداکارہ لوسی لیو 20 منٹ کی ایک فلم بنا رہی تھیں۔ اس میں چھوٹی بچّیوں کے ساتھ ریپ سین تھے تو میں نے انکارکر دیا۔ بولا گیا کہ یہ فلم بچہ جسم فروشی کے خلاف ہے۔ لوسی ہندوستان آئی تھیں مجھ سے ملیں لیکن میں نے بولا میرے سے نہیں ہو پائے‌گا۔

میں نے کہا، میری کچھ حدود  ہیں۔ میں آرٹ کے نام پر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ وہ سین پروفیشنل فنکاروں کے ساتھ نہیں بچّیوں کے ساتھ کرنا تھا۔ ان پر کیا اثر ہوتا؟ انہوں نے مجھے سمجھایا لیکن مجھے بےرحمی پسند نہیں ہے۔آپ میرے کسی نگیٹو کردار کو دیکھیں‌گے تو میں کہیں نہ کہیں سے ان میں پاجیٹیویٹی لاتا ہوں۔ جیسے سلطان اگر آپ دیکھیں‌گے تو وہ کئی بار آپ کو انسانی لگے‌گا۔ فلم میں جب وہ رامادھیر سنگھ کے یہاں جاتا ہے تو ایک دم بچّہ دکھے‌گا۔میں ہر منفی کردار میں قطعيت لانا چاہتا ہوں۔ کسی بھی قسم کی ایکٹنگ ہو اس میں چاشنی بنی رہنی چاہئے کیونکہ ناظر ین اسی وجہ سے مجھے دیکھیں‌گے۔ بے مزہ ہو جاؤں‌گا تو لوگ سینما ہال میں 200روپیہ کا ٹکٹ لےکر میری تقریر سننے نہیں آئیں‌گے۔

آپ کی فلم گڑگاؤں ریلیز ہو گئی ہے۔ پہلی بار آپ لیڈ کردار میں ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ بتائیے؟

جی، صحیح کہا آپ نے۔ میں پہلی بار لیڈ کردار میں ہوں اور پوسٹر میں دکھ رہا ہیں۔ یہ ایک تھریلر فلم ہے اس لئے اس بارے میں بہت زیادہ بتا نہیں سکتا۔ یہ ایک کسان کے بلڈر بننے کی کہانی ہے۔ اس کی بچّی کڈنیپ ہو جاتی ہے۔

Pankaj-Tripathi-Jar-Pictures-1

اس کے کڈنیپ ہونے کے بعد تہہ در تہہ اس آدمی کی کہانی کھلتی ہے کہ وہ کون ہے اور کیسے بنا۔ آج کل لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ فلاں 400 کروڑ روپے کا مالک ہے لیکن وہ کیسے بن گیا اس پر بات نہیں ہوتی ہے۔ یہ بہت ہی مشکل اور پیچیدہ کردار ہے۔ اس کردار میں کئی ساری سطحیں ہیں۔

آپ اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے وابستہ رہے ہیں اور پٹنہ میں تین چار سالوں تک طلبہ سیاست کی ہے۔ فی الحال جو سیاسی حالات ہیں جیسےگئورکشا کے نام پر تشدد اور بیف تنازعہ، اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

یہ سب تو غلط ہے۔ بیوقوفی ہے۔ گھر میں جو ہمارے بزرگ دادادادی ہیں ان کو روز لتیاتے ہیں اور گئورکشا کے نام پر جھوٹ موٹ کا ہنگامہ کر رہے ہیں لوگ۔ مجھے نہیں لگتا کہ جو لوگ گئورکشک ہیں وہ گھر میں دادادادی کی خدمت کرتے ہوں‌گے۔گاؤں کے میرے گھر میں چھے گائیں ہیں۔ گائے پالنا کیا ہے یہ ہم جانتے ہیں۔ یہ سب جو چل رہا ہے سب  فضول ہے اور جتنا گراؤنڈ پر چل رہا ہے اس سے زیادہ سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپاہے۔

ایک تو یہ سوشل میڈیا بہت ہی واہیات چیز آ گئی ہے۔ ہمارے ایکٹر پگلائے ہوئے ہیں۔ سب کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر کتنے لائک مل جائیں، کتنے فالوور بڑھ جائیں۔یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہے۔ اتنے بڑےبڑے سپراسٹار ہیں جن کے کروڑوں میں فالوور ہوتے ہیں۔ ان کی فلم تو فلاپ ہی نہیں ہونی چاہیے۔ خیر سیاست کا سوال تھا میں کہیں اور چلا گیا۔

جو کچھ بھی چل رہا ہے سراسر غلط ہے۔ ہمیں نفرت کی نہیں محبت کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسکول، صحت اور تعلیم کی ضرورت ہے۔ ہمارا فوکس صحت اور تعلیم پر نہیں ہے، ہمارا فوکس بھٹکا ہوا ہے۔ جاہلوں کی فوج کھڑی ہے اس ملک میں اور 90 پرسینٹ تو بےروزگار ہیں جو گئورکشک بن‌کر گھومتے ہوں‌گے۔بہتر انسان بننے کے لئے تعلیم کی بہت ضرورت ہے۔ میں بھی گاؤں کا گنوار لڑکا تھا۔ میرے پاس خیالات نہیں تھے جو بھی میرے خیال بنے،اس میں کتابوں اور پڑھائی کا  بہت بڑا رول ہے۔ ہوتا ہے یہ سب۔ ملک میں اس طرح کی سیاست چلتی رہتی ہے۔

سیاست اور تھیٹر کے درمیان آپ پٹنہ کے ہوٹل موریا میں شیف بھی رہے ہیں۔ آپ شیف کیسے بن گئے؟

یہ زندگی عجیب ہے، پتہ نہیں کیاکیا کرائے۔ گھروالے بولے کہ ارے یار تھیٹر سے تمہارا کیا بھلا ہوگا۔ کچھ ٹیکنیکل پڑھائی پڑھنی چاہیے۔ تب میں اسٹیج کو لےکر بہت سنجیدہ نہیں تھا۔میرے چچا نے کہا کہ دو بار میڈیکل میں تمہارا کچھ ہوا نہیں۔ کچھ کر نہیں رہے ہو تو ایف سی آئی (فوڈ کارپوریشن آف انڈیا)کا فارم آیا ہے۔ بھر دو بدیس میں کہیں کُک کی نوکری مل جائے‌گی۔ دوسرے ملکوں  میں ہندوستانی کھانا بنانے والوں کی بہت ڈیمانڈ ہے۔تو میں نے فارم بھر دیا اور دو سال بعد ہوٹل موریا میں نوکری لگ گئی۔ وہاں دو سال نوکری کی تھی۔ حالانکہ وہ ہوا نہیں، مجھے کھانا بنانا پسند ہے لیکن اپنے لئے اور دوستوں کے لئے۔

جب آپ اپنے لئے راستہ کھوج رہے ہوتے ہو تو ایسا ہوتا ہے۔ میں سیاست میں گیا۔ کُکنگ میں گیا۔ پٹنہ میں کچھ دن جوتا بھی بیچا ہوں۔ زمین کی دلالی کا بھی سوچا تھا لیکن وہ ہو نہیں پایا۔20 سال کا نوجوان جو گاؤں سے شہر آیا ہوا ہو وہ بےچین رہتا ہے۔ میں بھی رہا ہوں لیکن تھیٹر ملنے کے بعد سب کچھ سائڈ میں ہو گیا۔

ہوٹل موریا میں منوج باجپئی سے منسلک ایک قصّہ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب وہ وہاں گئے تھے تو آپ نے ان کی چپل چرا لی تھی۔ کیا ہوا تھا؟

دراصل میں نے چرائی نہیں تھی، ان کی چپل ہوٹل میں چھوٹ گئی تھی۔ ہاؤس کیپنگ کا ایک لڑکا تھا اس نے فون کر کےمجھے بتایا کہ منوج باجپئی جی آئے تھے ان کی چپل چھوٹ گئی ہے۔ میں نے کہا، مجھے دے دو۔ پہلے جیسے گروؤں کا کھڑاؤ شاگرد رکھتے تھے، ویسے ہی میں نے اس کو رکھ لیا۔اس وقت ان کی فلم ستیا آئی تھی میں ان کو پسند کرتا تھا۔ تو میں نے کہا کہ ارے یار مجھے دے دو میں کم از کم اس میں پیر تو ڈال سکوں‌گا۔ جب واسعپور میں ان سے ملا تو میں نے ان سے یہ بات بتائی تھی۔

آپ کی رجنی کانت کے ساتھ ان کی فلم کالا کریکلن میں آ رہے ہیں۔ جنوب کی یہ فلم کیسے مل گئی؟

فلم کے ڈائریکٹر نے گینگس آف واسعپور اور نل بٹے سناٹا میں میرا کام دیکھا تھا۔ انہوں نے اپروچ کیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ رجنی سر کے ساتھ کام کرنا ہے، ان کو پاس سے دیکھنا تھا تو فلم سے جڑ گیا۔رجنی سر بہت ہی حیرت انگیز شخص ہیں، وہ تو لیجینڈ ہیں۔ اتنے بڑے اسٹار ہونے کے باوجود اتنا شائستہ اور گراؤنڈیڈ۔ ان کا ایک اسٹائل ہے جس کو میں نہیں کر سکتا لیکن ان کے ناظرین وہی پسند کرتے ہیں۔

اسٹائل کی بات ہوئی ہے تو بالی ووڈ میں اب اداکاروں کے پاس کوئی اسٹائل نہیں رہ گیا ہے۔ پہلے آپ ان کی آواز سن‌کر ان کو پہچان جاتے تھے۔ ان کے ڈائلاگس آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ آج کل کے اداکاروں میں ایسی خوبی نہیں۔ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟

وقت بدل رہا ہے۔ شہری ناظرین اب عالمی سنیما دیکھ رہے ہیں۔ آپ ایک انداز میں ایک فلم میں کر لو‌گے لیکن دوسری فلم میں وہی انداز نہیں چلے‌گا۔ لوگ بہت جلدی بور ہو جائیں‌گے۔

پہلے سینما جادو کا کام کرتا تھا اس لئے اداکاروں کو اسٹار کہا جاتا تھا۔ اب تو اسٹار میگی اور پاپکارن بیچ رہے ہیں تو کاہے کا اسٹار۔ ناظرین ہمارے بہت بدل گئے ہیں اور بالغ ہو گئے ہیں۔ آپ کا کوئی اسٹائل ایک بار چلے‌گا دوبارہ ناظرین خودہی رجیکٹ کر دیں‌گے۔ اس لئے بڑے-بڑے اسٹار بھی اب استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔

حال ہی میں آئیفاآوارڈس کی تقریب کے دوران ایک تنازعہ کے بعد اداکارہ کنگنا رناوت نے اقرباپروری کے خلاف اسٹینڈ لیا ہے۔ آپ نان فلمی بیک گراؤنڈ سے ہیں کیا آپ بھی اقرباپروری کے شکار رہے ہیں؟

میں سیدھے طور پر تو اس کا ویکٹم نہیں ہوں لیکن یہ ضرور ہے کہ فلمی پریوار کے جو بچّے ہیں وہ ایکٹنگ اچّھی کریں یا گندی، فرق نہیں پڑتا۔ اس انڈسٹری میں ٹکنے کے لئے آپ میں قابلیت ہونی چاہئے۔مجھے لوگوں تک اپنا نام پہنچانے میں 10 سال لگے ہیں۔ فلم اسٹار کے بیٹوں کو لانچ ہونے سے پہلے ہی پورا ہندوستان جان جاتا ہے۔ اس کے لئے ناظر ین تیار رہتے ہیں۔ اس کے بعد ٹکنے کے لئے ان میں کچھ تو چاہئیے ہی ہوتا ہے۔ بھائی بھتیجا پرستی تو سنیما میں بھی ہے اور سیاست میں بھی۔ سمرتھ کو نہیں دوش گوسائیں۔

کنگنا تو بہت بہترین ہیں وہ تو اتنی اسٹینڈ لینے والی لڑکی ہے کہ پوچھئیے مت۔ اس نے اپنی ایک جگہ، ایک مقام بنایا ہے تو وہ بات کر رہی ہے اور اس کو لوگ سن رہے ہیں۔کنگنا نے بہت صحیح اسٹینڈ لیا ہے۔ کیا کہیں‌گے آپ ہندی سنیما میں کام کرنے والے لوگ ہیں اور ہندی کی سمجھ ہی نہیں ہے ان لوگوں کو۔ صرف مکالمہ ہندی میں بولتے ہیں اس کے بعد ان کی پوری زندگی انگریزیت والی ہے۔یہی وجہ کہ آج کل چھوٹے شہر سے فلم میکر آ رہے ہیں۔ انوراگ کشیپ چھوٹے شہر سے آئے ہیں۔ انوراگ بسو، تگمانشو دھلیا، راج کمار گپتا چھوٹے شہروں سے ہیں۔

جو بھی آ رہے ہیں اب چھوٹے شہروں سے آ رہے ہیں، کیونکہ ان کے پاس سمجھ ہے چھوٹے شہروں کی، ہندی کی کہانیوں کی۔ گرمی کی چھٹیوں میں وہ اپنی نانی کے یہاں جاتے ہوں‌گے۔ کوئی بجنور جاتا ہوگا کوئی کسی دوسرے چھوٹے شہر جاتے تھے۔ پہلے کے فلم میکر چھٹیوں میں لندن-پیرس جاتے تھے۔ ان کی نانی وہاں رہتی تھیں۔میں کنگنا سے پوری طرح سے متّفق ہوں۔ بہت اسٹرانگ لیڈی ہیں اور ان کی باتیں سن‌کر ہم لوگوں کو طاقت ملتی ہے۔