ادبستان

دلت مسلمان :مسلم سماج نے مسجد کے باہر مسجد بنانے کا کام نہیں کیا

اسلام میں مساوات ان کے ماننے والوں کے لئے مذہبی فریضہ ہے، لیکن اس سماج کو دیکھ‌کردوسرے ہندوستانی سماج کی طرح ان کی سیرت بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔

aiyub rayeen

بھارت کے دلت مسلمان(جلد 1،2013)ڈاکٹر ایوب راعین کی تحقیقی کتاب ہے ۔ اس میں پسماندہ مسلمانوں کی سماجی تاریخ اور موجودہ حالات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس کے لیے مصنف نے دوردراز کے علاقوں میں سفر کیے ہیں ،اور اعدادو شمار جمع کیے ہیں۔ ہندی جاننے والوں کے لیے یہ کتاب محلہ مرزا پور(سکما پل)،لال باغ در بھنگہ 4،اور ہیری ٹیج پبلی کیشن ممبئی،پر دستیاب ہے ۔

اس کتاب کے مندرجات کو نمایاں کرنے سے پہلے مصنف کے بارے میں ایک دو  باتیں عرض کر دوں کہ ڈاکٹر راعین کومیں پسماندہ سماج کے ایکٹوسٹ کے طور پرایک مدت سے جانتا ہوں،ان کی سماجی،تعلیمی اورصحافتی سرگرمیاں بھی میری نظر میں ہیں۔ایک زمانے میں  لوگ باگ اکثر پیٹھ پیچھے ان کی ‘تضحیک’ ضروری سمجھتے تھے،اور ان کی برادری سے متعلق محاورے ایک دوسرے کو سناتے تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مسلم سماج میں سیاسی طور پر مساوات کی بات کرتے ہیں ؛جیسے مسلم سماج صحیح معنوں میں اسلام کا پیروکار ہو اور اس کے ماننے والوں نے  سماج کی پسماندگی کو مٹانے کا کام بھی کیا ہو۔

اسلام میں مساوات ان کے ماننے والوں کے لئے مذہبی فریضہ ہے، لیکن اس سماج کو دیکھ‌کردوسرے ہندوستانی سماج کی طرح ان کی سیرت بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ حیرت نہیں ہوتی کہ کیوں مذہبی تسلط اور اقتدار کی ہوس نے پسماندہ مسلمانوں کو ڈیوڑھی لانگھنے کی اجازت نہیں دی؟اسلام نے ہندوستانی سماج کے بہت سے لوگوں کو ایک نئی پہچان ضرور دی ،لیکن مسلم سماج نے مسجد کے باہر مسجد بنانے کا کام نہیں کیا۔ مسجد کے باہران کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا ،جس کے یہ ستائے تھے۔ایسی ذہنیت جو کسی کو پسماندہ بنائے رکھنا چاہتی ہواور امتیازی سلوک کو درست گرادنتی ہو، کسی مخصوص طبقے کی تضحیک سے زیادہ اسلام اور ہیومن ازم  کے خلاف ہے۔

ڈاکٹر ایوب ان حقائق کو جانتے ہیں، لیکن انہوں نے کسی بھی بات کی پروا کئے بغیر اپنے کمٹ منٹ کو نبھایا ہے۔ مسلمانوں کی تعلیم بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم اور ترقی کے لئے ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے مجھے کئی دفعہ محسوس ہوا کہ اتنی چھوٹی سطح پر اس مسئلے کا حل کیسے ممکن ہے؟ڈاکٹر ایوب راعین کے جوش و خروش کو دیکھ‌کر مجھے اس وقت جو بھی لگا ہو اب پنچ تنتر کی کچھوے والی کہانی معنی خیز لگتی ہے۔

شاید اس وقت  یہ نہیں کہا جا سکتا کہ  ایوب راعین کوکامیابی مل چکی ہے۔ ہاں یہ بات شدّت سے محسوس ہوتی ہے کہ ان کی جد وجہد سے جنم لینے والی آوازیں متھلانچل اور ملک کے دوسرے گوشوں میں سنائی پڑتی ہیں۔اس کا ایک ثبوت پیش نظر کتاب”ہندوستان کے دلت مسلمان “اور ان کی  ادارت میں نکلنے والا سہ ماہی “جرنل آف سوشل ریئلٹی “ہے۔

میں جانتا ہوں کہ حاشیے پر کھڑے سماج کو اپنی’مہذب سوچ’  میں شامل کرنا اور عنوان بنانا کتنا مشکل ہے؟ لیکن دلت ڈسکورس سے پیدا ہونے والے احتجاج نے ایوب راعین جیسے لوگوں کو حوصلہ دیا ہے۔ اس لئے ان آوازوں  کو سماج کے ابجد میں جگہ  ملنے لگی  ہے،حالاں کہ  کئی طبقوں میں ابھی کھلاپن نہیں آیا ہے۔

dalit-musalman-bookپیش نظر کتاب کی تشکیل میں انھوں نے تحریری دستاویز اور حوالہ جاتی متون  کی غیرموجودگی سے اپنے دل کو چھوٹا نہیں کیااور بڑی خوبی سے 9پسماندہ کمیونٹی کے حال احوال مرتب کیے۔سروے بیسڈ ریسرچ اور تاریخ نویسی  کی پریشانیوں کو ہم جانتے ہیں۔ یہ بڑی بات ہے کہ انھوں نے اس کو جھیلا اور بہت سی سچائیوں کو پیش کرنے کی جرأت کی۔اس لئے ان کی یہ تحقیق جتنی جدید ہے اتنی  ہمعصربھی ہے۔راعین نے جہاں ایک طرف اپنی تحقیق میں یہ بتایا ہے کہ پسماندہ سماج کی ذہنی کیفیت، اقتصادی حالت، تعلیمی صورت حال اورسماجی حیثیت ناگفتہ بہ ہے، وہیں انھوں نے اس سماج کی تاریخ کو کھنگال‌کر ان کے روایتی کام اور ہنرمندی کو تفصیل سےپیش کیا ہے۔انھوں نے گمنام، حقیر اور گھٹیا سمجھی جانے والی جڑوں کو تلاش کرکے ان کے فن و ہنر کے باب میں استحصال  کی تاریخ بھی لکھی  ہے۔

اس طرح انہوں نے بہت سی باتوں کے ساتھ  ہمیں اس جانب بھی متوجہ کیا ہے کہ اس سماج میں احساس کمتری کی وجہ  کیا ہے؟یہ کتاب ہندوستان کی سیاسی تاریخ، مذہبی تسلط اور سماجی تاریخ کی تنقیدکو اپنا شیوہ بناتی ہے۔ کہیں کہیں پر انہوں نے مذہبی اداروں پربھی سوالیہ نشان قائم کیےہیں۔ بعض ایسی ہی  باتوں میں سماج کی تشکیل نو کا جوازموجود ہے۔

دراصل اسلام کی سچائیاں،ہندوستانی مسلم سماج کی سچائی نہیں ہے۔ اس لئے مساوات کی بات کرنے والے اس مذہب کی  ہندوستانیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر راعین نے اپنی تحقیق میں ان حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے۔  یہاں ہم ان کے’ ناقدین’ کے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے صرف اچھی اور خوش کرنے والی باتیں نہیں لکھی ہیں۔ اس میں کچھ ” گندی باتیں ” بھی ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بہتر سماج کی تشکیل کے لئے گندی باتیں ضروری ہیں،اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے کہ ہم تھوڑی دیر کے لئے نیم کا پیڑ اپنی ہتھیلی پر اگا لیں۔

 اس کتاب میں پسماندہ طبقات کی سماجی تاریخ مرتب کرتے ہوئےان کی اس ذہنی حالت کا جائزہ بھی لیا گیا ہے کہ کیوں یہ لوگ اپنی پہچان چھپاتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ڈاکٹر راعین چاہتے ہیں کہ اپنی پہچان  چھپائے بغیر سماج میں برابری حاصل کی جائے۔گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ پنجاب کے کچھ قصبوں میں رہنے والا پسماندہ سماج نہیں چاہتا کہ ان کو کسی اور نام سے بلایا جائے یا ان کی پہچان کا مذاق اڑایا جائے۔ اس لئے وہ لوگ ‘چمار ‘ کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے  گیت  لکھے اور گائے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ چمار کے لڑکے بہادر ہوتے ہیں اور وہ  کسی بھی معاملے میں دوسرے سماج کے لڑکوں سے کم نہیں ہوتے۔

مسلم پسماندہ سماج میں ابھی اس طرح کی مثال ملنا  مشکل ہے۔ اس کی وجہ بھی وہی ہے جو ڈاکٹر ایوب راعین نے اپنی تحقیق میں مذہبی اقتدار اور تعلیمی صورت حال کے باب میں کہی ہیں۔ اگر یہاں پسماندہ مسلم سماج کے ادب پر گفتگو کی جائے تو مایوسی ہوتی ہے  کہ ہندی ادب اور دیگر ہندوستانی زبانوں کی طرح اردو ادب میں ابھی وہ بیداری نظر نہیں آتی۔دراصل پسماندہ مسلم سماج دلت ڈسکورس کی طرح کسی بھی زبان کے ادب میں قابل ذکر مقام نہیں پا سکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم پسماندہ سماج سے آنے والے ادیب بھی اپنا زخم ادب میں پیش نہیں کر پائے ہیں۔خیران کا یہ تجزیہ ادب کی تخلیق کے لئے زمین ہموار کرتا ہے۔

ان کی تحقیق منطقی ہے کہ جب تک ان طبقات میں تعلیم کوفروغ حاصل نہیں ہوگا، آئین کے مطابق ان کو ان کا حق نہیں دیا جائے‌گا؛ان کے لوک گیت اور ادب میں بھی پہچان کو چھپانے والی ذہنیت کا جواب نہیں ملے‌گا۔اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ ریزرویشن مذہب کی بنیاد پر ممکن نہیں ہے، کیوں میرٹ کی دہائی یا ٹوٹل ریزرویشن کا نعرہ دیا گیا ؟ اگر پسماندہ سماج کی طرح عام مسلمانوں کی حالت بھی اچھی نہیں ہے تو اس کے لئے کوئی اور جدو جہد کیوں نہیں؟ اس بات پر غور کرتے ہوئے مجھے ایسا لگتا ہے کہ آج بھی ہمارا اقتداری سماج ،اقتدار میں حصہ داری کے لئے آمادہ نہیں ہے۔

ہندوستانی سماج میں اس کتاب کو اسلام کی سچی تعبیر بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے فلسفہ مساوات کو زمین پر اتارنے کے لئے مسلم سماج نہ صرف اپنے ادراک کا ثبوت دے سکتا ہے بلکہ پیش نظر تحقیق کی بنیاد پرعملی اسلام کا داعی بھی بن سکتاہے،ایک قدم آگے بڑھ‌کر سیاست کو پسماندہ مسلم سماج  کی پسماندگی دور کرنے کے لئے مجبور کر سکتا ہے۔ لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں ہے کہ تقریر کے غازی کو ابھی بندہ خدا ہونا ہے۔ ہاں پسماندہ سماج  اور دوسرے سماج کے لوگ اس کے لئے جس طرح سے کوشش کر رہے ہیں،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھلے ہی سماجی سطح پر کھلاپن آنے میں وقت لگے،لیکن اپنے حق کی قانونی لڑائی یہ سماج مستقبل  قریب میں جیت لے‌گا۔

اس کتاب میں کسی طرح کی تعصب پسندی کو جگہ نہیں دی گئی ہے ، اس لئے یہ کتاب ہندوستان کی سیاسی تاریخ اور سماجی تاریخ کا نیا باب لکھے‌گی۔ جدو جہد کے ان اوراق کو ان تمام تحریک اور جدو جہد کا حصہ سمجھتے ہوئے جو حاشیہ پر کھڑے سماج کے لئے جاری ہیں، میں ڈاکٹر ایوب راعین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ مسلم سماج اب تک اپنا امبیڈکر پیدا نہیں کر پایا ، لیکن ڈاکٹر ایوب جیسے کچھ لوگ ہیں جو ہماری سیاست اور سماج کو آئینہ دکھانے کا کام کر رہے ہیں۔

پس نوشت ؛اس کتاب کا دوسرا حصہ 26 نومبر کو منظرعام پر آئے‌گا۔ اس کتاب میں نال بند، حلال خور، بھٹیارا، گوالا، گدھیری اور بکّھو سمیت 9 پسماندہ کمیونٹی  کا مطالعہ پیش کیا  گیا ہے۔