خبریں

حج کمیٹی کو خودمختار قانونی ادارہ بنانے کا مشورہ ،تین شعبوں میں تقسیم کرنے کا سابق سی ای او کی سفارش

سابق سی ای او شبیہ احمد کے مطابق سب سے اہم مسئلہ سعودی عرب میں رہائش کا ہے اور اس کے لیے حکومت ہند ،کونسل جنرل ہند جدہ اور حج کمیٹی کے عہدیداران منصوبہ سازی کریں اوراس مسئلہ کو حل کرنے کے خصوصی توجہ دی جائے۔

Photo Credit : @naqvimukhtar

Photo Credit : @naqvimukhtar

ممبئی : ملک کی 2018کے لیے نئی حج پالیسی میں عازمین حج سہولیات فراہم کرانے کے لیے کئی اہم اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،تاکہ حج کے خواہش مند حضرات کو زیادہ سے زیادہ راحت ملے ،اس کا حکام نے فیصلہ کیا ہے۔حکومت نے جن ماہرین اور سابق عہدیداران سے مشورے اور آراء طلب کی گئی ہیں ،ان میں سابق چیف ایکزیکٹیو افسر اور سکریٹری شبیہ احمد بھی شامل ہیں ۔انہوں نے ادارہ کو خودمختار بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ شبیہ احمد کے مطابق سب سے اہم مسئلہ سعودی عرب میں رہائش کا ہے اور اس کے لیے حکومت ہند ،کونسل جنرل ہند جدہ اور حج کمیٹی کے عہدیداران منصوبہ سازی کریں اوراس مسئلہ کو حل کرنے کے خصوصی توجہ دی جائے اور بہترین کارکردگی کے لیے ضروری ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کوقانونی اختیارات کے ساتھ ایک خودمختار ادارے میں تبدیل کردیا جائیتاکہ حج کے انتظامات حج کمیٹی آزادانہ طورپر کرے ۔اس سلسلے میں حج کے پورے انتظامات کو تین شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،تاکہ زیادہ سے زیادہ سہولیات پیش کی جاسکے۔

شبیہ احمد ایک عرصہ تک سی ای او رہے اور بعد کے دورمیں بھی حج کمیٹی کے تحت انتظامات کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اپنے مشورے اور آراء پیش کرچکے ہیں۔شبیہ احمد نے ہی حج انتظامات کو تین شعبوں میں تقسیم کرنے کے بارے میں اپنی رائے دی جبکہ ایک تفصیلی رپورٹ وزارت اقلیتی امور کو پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عازمین حج کی روانگی سے قبل انتظامات حکومت ہند،حج کمیٹی آف انڈیا اور ریاستی حج کمیٹیوں کے تحت ہوتے ہیں۔جبکہ ہندوستان اور سعودی عرب میں روانگی اور آمد کے مراکز پر بہتر سے بہتر سہولیات اور پھر حج سبسڈی کا جائزہ لیا جائے۔مکہ مکرمہ اور میدنہ منورہ میں رہائش،نقل وحمل اور دیگر میں امور میں حمایت کے ساتھ ساتھ حج کے پانچ دنوں کے دوران کے انتظامات شامل کیے جاسکتے ہیں اور ان کی خوش اسلوبی سے ادائیگی کے لیے منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ احمد کا مشورہ ہے کہ 2011کی مردم شماری کے تحت حج کورٹہ میں اضافہ کیا جائے کیونکہ ہر سال ویٹنگ لسٹ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کا واحد حل ہے کہ کوٹہ میں اضافہ کیا جائے۔انہوں نے خادم الحجاج،حج معاوئین اور ڈاکٹروں کے انتخاب میں بھیڑ چال اور سیاسی دباؤ کے بجائے ان کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے ،ان لوگوں کی چھ ماہ پہلے سے تربیت کی جائے اور انہیں ہنگامی صورتحال کے سلسلے میں بھی تربیت دی جائے تاکہ وہ کسی بھی صورتحال میں بہتر اندازمیں خدمات انجام دے سکیں۔ان کی موجودگی ایئرپورٹ سے لیکر مکہ اور میدنہ میں رہائشی علاقوں کے ساتھ ساتھ منی ،عرفات اور دیگر اہم مقامات پر یقینی بنائی جائے اور انہیں اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ حجاج کرام کی دیکھ بھال اور طبّی ضروریات کی جانب توجہ دینا چاہئے۔انہیں خصوصی طورپر حج کے دنوں اور ہوائی اڈوں کے امور کے لیے تربیت دینا ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ ایئرانڈیا کو مکمل طورپر حاجاج کرام کی نقل وحمل کا کام کاج اپنی نگرانی میں لے لینا چاہئے ،کیونکہ 50 فیصد سعودی ایئر لانس کو دینے سے قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے اور پھر سعودی ایئرلائنس وہاں کی گھریلو ایئرلائنس کو یہ ذمہ داری سونپ دیتی ہے ،جس کے سبب سفر کے دوران حجاج کرام کو مشکلات اور دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔واضح رہے کہ حج سیزن میں فی حاجی 60-65ہزار کرایہ وصول کیا جاتا ہے جبکہ عام سیزن میں صرف 25ہزار روپے میں ٹکٹ دستیاب ہوتا ہے ،اس لیے ضروری ہے ،اس کے لیے عالمی سطح پر ٹینڈر جاری کیے جائیں اور بین الاقوامی سطح کی بہترین ایئرلائنس سے بھی ٹینڈ رطلب کیے جائیں۔اور شکایتوں کو دورکیا جائے ۔