فکر و نظر

گونڈا سانحہ : فرقہ واریت کا زہر اب گاؤں میں بھی پھیل رہا ہے

سب سے تشویشناک بات تو یہ ہے کہ یہ کشیدگی دیہی ہندوستان میں بہت تیزی سے پاؤں پھیلا رہی ہے اور لوگوں کے روز مرّہ کی زندگی میں شامل ہو رہی ہے۔ابھی کچھ سال پہلے فیض آباد ضلع کے دیہی علاقے میں تشدد ہوا تھا۔

Photo : Patrika

Photo : Patrika

جب پورا ملک مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش منا رہا تھا اور یہ عہد لے رہا تھا کہ ہمیں مل جل کر رہنا ہے ، تبھی اتر پردیش کے گونڈا ضلع کے کٹرا بازار علاقے کے ایک گاؤں میں گائے کاٹ‌کر فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی کوشش کی گئی۔اسے ہندو معاشرتی نظام میں اشرافیہ سمجھی  جانے والی برہمن ذات کے دو لوگوں نے انجام دیا۔ جس آدمی کی گائے تھی، وہ بھی ذات کابرہمن تھا۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کتنے شاطرانہ طریقے سے یہ سب کچھ انجام دیاگیا تھا کہ ‘ برہمن کی گائے ‘ محفوظ نہیں ہے۔جذباتیت کے سہارے ایک بڑے حصے کو دوسرے طبقے کے خلاف گولبند کیا جا سکتا تھا اور بھاری جان و مال کا خطرہ پیداکیا جا سکتا تھا۔ لیکن ملزم کو لوگوں نے دیکھ لیا اور پولیس کو سونپ دیا۔ گونڈا کی ضلع پولیس نے مستعدی دکھائی۔ ملزم کو گرفتار کر جیل بھیج دیا۔ اس نازک موقع پر کٹرا علاقے اور گونڈا شہر کے لوگوں نے جو سمجھداری دکھائی ہے، وہ قابل تعریف ہے۔

اس واقعہ نے ہمیں خبردار بھی کیا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی میں فی الحال کوئی کمی آتی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ سب سے تشویشناک بات تو یہ ہے کہ یہ کشیدگی دیہی ہندوستان میں بہت تیزی سے پاؤں پھیلا رہی ہے اور لوگوں کے روز مرّہ کی زندگی میں شامل ہو رہی ہے۔ابھی کچھ سال پہلے فیض آباد ضلع کے دیہی علاقے میں تشدد ہوا تھا۔ اس میں دو لوگ مارے گئے تھے اور فیض آباد شہر میں ایک خاص طبقہ کے لوگوں کی دکانیں جلا دی گئی تھیں۔ لاکھوں روپے کی جائیداد جل کر راکھ ہوئی اور تقریباً ایک ہفتہ تک شہری باشندے ڈر کے ماحول میں جینے کو مجبور ہوئے تھے۔ پولیس انتظامیہ اور شہری سماج کی کوششوں سے وہاں بھی امن قائم  ہوا تھا۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس طرح کا امن مستقل ہوتا ہے یا لوگوں کے دل ودماغ میں ایسا کچھ چلتا رہتا ہے جو موقع پاتے ہی فرقہ وارانہ بدامنی کی شکل میں پھوٹ پڑتا ہے۔اصل میں گزشتہ دوتین دہائیوں میں ‘فرقہ وارانہ شعور کی دیہی کاری’ہوئی ہے۔ پہلے اس کو شہروں کا مسئلہ مانا گیا تھا۔اب یہ گاؤں میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ گونڈا ضلع کے کرنل گنج قصبہ  میں ستمبر 1990 میں ایک فساد  ہوا تھا، جس میں سیکڑوں لوگ مارے گئے تھے۔تب میں آٹھ یا نو سال کا تھا اور مجھے یاد ہے کہ لوگ اس کے بارے میں بہت دنوں تک بات کرتے رہے تھے۔اس سانحہ کے بعد گونڈا اور اس کے آس پاس کے اضلاع میں کشیدگی تھی۔ یہ کشیدگی دیہی علاقوں میں بہت زیادہ تھی۔ یہاں تک کہ ریاستی حکومت نے مارچ 1991 میں گونڈا کے کلکٹر کو ہٹا دیا تھا۔

اصل میں ہندوستان کی سیاست میں مذہب ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں دنیا کے تقریباً تمام مذاہب کو ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ان کے اپنے اندر اور ایک مذہب سے دوسرے مذہب کے درمیان گہرا عدم اتفاق ہیں۔جدید دور میں روزی روزگار، تعلیم اور زمین تک رسائی  میں مذہب کو ایک بنیادی پہچان‌کی شکل میں تسلیم کرکے ایک مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے درمیان ،آپس میں لڑنے کارحجان دیکھا جا رہاہے۔مذہب کی بیرونی اخلاقیات، مذہبی امور اور تہواروں کو دوسرے مذہب کے عقيدہ پر حملہ اور اپنے مذہب کو آگے لے جانے کی کوششوں کی صورت میں دیکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ اور اسی کے ساتھ تشدد بڑھا ہے اور سماج کے اچھوتے علاقوں میں فرقہ وارانہ میلان کی توسیع ہوئی ہے۔

سامراجی حکومت نے اپنے ابتدائی دور سے ہی مختلف مذاہب کو ایک دوسرے کے حق کو ختم کر کےاپنے مفاد کو آگے بڑھانے والی کمیونیٹوں کی شکل میں تصویرکشی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا تھا۔جنگ آزادی کے دوران سیاسی اصلاحات کی شکل میں مذہبی بنیاد پر نمائندوں کے انتخاب کا نظام ، تعلیم اور روزگار کے مواقع کا محدود ہونا، مسلم لیگ کا تقسیم کرنے والا رویہ، اور کانگریس کی اس کو روک پانے میں ناکامی نے فرقہ پرستی کو فروغ دیا۔حالاں کہ مہاتما گاندھی، مولانا ابو الکلام آزاد، جواہرلال نہرو  اور سردار پٹیل نے اس کو روکنے کی ہرممکن کوشش کی۔ مہاتما گاندھی اور مولانا ابو الکلام آزاد اور ان کی راہ پر چلنے والے اس وقت کے رہنماؤں نے سیاست میں پاکیزگی اور اخلاقیات کو لانے کی کوشش کی۔ گاندھی جی نے تمام مذاہب کی روح پر زور دیا۔

ان کو لگتا تھا کہ اس سے بات بن جائے‌گی۔ گاندھی جی کا یہ یقین ان کو نواکھلی لے گیا، جہاں ان کو فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن یہ ایک آدمی اور اس کی زندگی سے نکلے خیالات کی چمک تھی۔ یہ چمک آگے چل‌کر کمزور ہو گئی۔ ایک دوسرے سرے پر جواہرلال نہرو اور سردار پٹیل تھے۔انہوں نے فرقہ پرستی کے سوال کو انتظامی طریقے سے سلجھانےکی کوشش کی۔ وہ فرقہ واریت اور اس طرح کی تنظیموں سے سختی سے نمٹنے کی حامی تھے۔ مانا گیا تھا کہ اس مسئلہ سے پولیس کپتان اور کلکٹر نپٹ لیں‌گے۔ آج بھی حکومت ایسا ہی مانتی ہے۔اصولوں اور خوابوں سے بھری آزادی کی جنگ میں مہاتما گاندھی نے کہا بھی تھا کہ جب ملک آزاد ہو جائے‌گا تو شہروں میں فسادات ہونا بند ہو جائیں‌گے اور گاؤں میں فسادات تو بالکل نہیں ہوں‌گے۔

یہ 1930 کی دہائی تھی جب  جنگ آزادی کی سماجی و مذہبی بنیاد کافی وسیع ہو چکی تھی۔ لیکن آزادی کے بعدکی سات دہائیوں کا جیسا ہندوستان کے لوگوں کا عوامی اور ذاتی تجربہ رہا ہے، وہ گاندھی کے دلی منشا کے خلاف جاتا ہے۔شہروں میں لگاتار فسادات ہوئے ہیں اور اب  گاؤں کی طرف اس کی توسیع ہو رہی ہے۔ آزاد ہندوستان میں بہت ہی خطرناک طریقے سے مذہب کو سیاست سے جوڑ دیا گیا ہے اور جس کا برا انجام ہمیں بار بار ہونے والے فرقہ وارانہ نفرتوں اوردنگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔اب ہم فرقہ پرستی کی توسیع کے لئے برطانوی حکومت کو ہی الزام دےکر بچ‌کر نہیں نکل سکتے۔ ہمیں اپنی ذمہ داری عائد کرنی ہوگی۔

روایتی ہندوستانی معاشرے میں ہمارے بزرگوں نے فرقہ پرستی سے نمٹنے کے لئے اپنا ایک نظام تیار کیا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک ہندوستان میں ایک خود مختار دیہی ثقافت  ہوا کرتی تھی۔اس میں مقامی سطح پر رواداری کو فروغ دینے کا ایک عمل تھا۔ شادی بیاہ، تیج تہوار کے موقع پر لوگ ایک دوسرے سے برتن بھانڑے، دری جازم اور پالکی مانگتے تھے اور اس میں کسی قسم کا مذہبی چھوا چھوت نہیں ہوتا تھا۔ہمیشہ تو نہیں لیکن کبھی کبھی لوگ ساتھ ساتھ رام لیلا کرتے تھے اور تعزیہ نکالتے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کو اپنے قریب سمجھتے تھے۔ چیزوں کے اکٹھا کرنے سے نکلی جدیدیت اور ترقی نے  ہمیں مسلسل اکیلا کیا ہے اور ایک دوسرے سے  ناآشنا کر دیا ہے۔ یہ ناآشنائی بھی فرقہ وارانہ ذہن تیار کرتی ہے،  جومسلسل تشدد آمیز ہوتی گئی ہے۔یہ ناآشنائی جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے۔ جس قصبائی انٹرکالج میں پڑھتا تھا، اس کو 1857 کے ایک بہادر ہیرو راجا دیبی بکش سنگھ کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔ بہت بعد میں جب میں نے امرت لال ناگر کی کتاب ‘غدر کے پھول ‘پڑھی تو پایا کہ ان کی زندگی اور کام کا ذکرگونڈا اور اس کے آس پاس کے اضلاع میں بہت احترام کے ساتھ کیا جاتا تھا۔

آج ان کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ اس دور میں انہوں نے نہ صرف بہادری کی لاثانی مثال پیش کی تھی بلکہ ہندو مسلم دوستی کو فروغ دیا تھا۔ لکھنؤ کی بیگم ان کو اپنا بیٹا مانتی تھی۔ اور جیسا امرت لال ناگر کی کتاب بتاتی ہے کہ ‘سنہ ستّاون سے بہت پہلے ہی اس کے دربار کی یہ مثال تھی کہ محرم کے آخری دن (عشرے کے دن)تعزیے کربلا جاتے ہوئے ان کے صدر دروازے پر اعزاز پاتے تھے۔ وہاں رکھے جاتے تھے۔ مسلمان اس میں اپنا فخر محسوس کرتے تھے۔’اس اجتماعی یادگار کو تباہ کرکے ایک فرقہ وارانہ یاد گار تیار کی جاتی ہے۔ لوگوں کو ان کے اپنے تہذیبی ماحول سے بیگانہ بناکر ان کو ‘دوسرے لوگوں ‘ کا دشمن بنایا جاتا ہے۔ اس سے ایک دوسرے سے ڈر پیدا ہوتا ہے۔گونڈا کیا، ہرجگہ ایک دوسرے کے متعلق یہی ڈر فرقہ وارانہ ماحول تیار  کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ڈر اور بیگانگی سے نمٹا کیسے جائے؟ یہی ہم سب کو سوچنا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے۔

(رماشنکر سنگھ نے ابھی حال ہی میں جی۔ بی۔ پنت سوشل سائنس انسٹی ٹیوٹ سے پی ایچ ڈی کی ہے۔)