فکر و نظر

جہیز اور بچوں کی شادی کے خلاف مہم : نتیش کمار کے نام کھلا خط

 میں یہ سوچ رہا تھا کہ شادیوں کے لئے بھی رجسٹریشن اسی رجسٹرار کے دفتر میں کروانے کا انتظام کرنے کا خیال حکمرانوں کو کیوں آیا ہوگا؟ زمین اور مکان کی طرح کیا لڑکےلڑکیاں بھی صرف خاندان کی ملکیت ہیں؟

Nitish-Kumar-PTI-1

وزیراعلیٰ نتیش جی،

آپ کے جہیز والی شادی اور چائلڈ میرج سے بہار کو آزاد بنانے کی مہم کے بارے میں پڑھنے کو ملا۔آپ اس مہم میں کامیابی کے لئے ہیومن چین جیسے دیرینہ  تقریب کے لئے 21 جنوری 2018 کی تاریخ بھی مقرر کر چکے ہیں۔آپ ٹھیک سمجھتے ہیں کہ اس مہم میں کامیابی کا دعویٰ صرف قانون کا سختی سے عمل کرکے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ قانون اس میں ایک معاون کے طور پرکردار ادا کر سکتی  ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ دونوں ہی مسائل کی ایک وجہ خاندان  کا روایتی ڈھانچہ ہے۔ پریوار کے مکھیا کے ہاتھوں میں اپنے لڑکےلڑکیوں کے بارے میں ہر قسم کا فیصلہ لینے کا اختیار ہوتا ہے۔ شادی بیاہ‌کے معاملے میں تو یہ خاص طور سے ہوتا ہے۔ میں اور اکادمک قسم کی باتیں یہاں نہیں رکھنا چاہتا۔ صرف ایک مشورے کے لئے یہ لکھ رہا ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ لڑکےلڑکیاں بھی اپنی شادی کے فیصلے کرتے ہیں اور وہ بغیرجہیز کے ہوتے ہیں۔ لیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے اور اپنی ریاست بہار میں تو خاص طور سے دیکھا ہے کہ جو لڑکےلڑکیاں تمام رسم و رواج  سے دور اپنی شادی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کو روکنے کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے۔

والدین جذباتی سطح پر اس حد تک جاتے ہیں کہ لڑکےلڑکیوں کو اپنے فیصلے کو چھوڑ دینے کے لئے مجبور کیا جا سکے۔ سماجی ماحول ان کے حق میں نہیں ہوتا ہے۔ لیکن حکومت اور اس کے ڈھانچے  کا رویہ بھی کم ستم گر نہیں ہے۔ پولس تو اس معاملے میں بدنام مانی جاتی ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ تقریباً تیس ایک برس پہلے ہم لوگ پٹنہ میں ایک دوست کی شادی کے فیصلے کے لئے قانونی ضابطے کو مکمل کرنے کے لئے کئی کئی دنوں تک پریشان رہے اور خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے رہے۔وہ شادی آخر کار آریہ سماج کے مندر میں منعقد کرنی پڑی اور اس میں آپ سمیت محترم کرپوری جی، ڈاکٹر جگناتھ مشر اور دوسرے کئی ایم ایل اے  اور لیڈر شامل ہوئے تھے۔ یہ دونوں کی شادی کے فیصلے کو اقتدار کی جانب سے تحفظ دینے کا ایک پیغام دینے کے لئے کوشش تھی تاکہ ہم سرکاری دخل اندازی سے بچ سکیں۔

دوسری بات یہ بھی کہ ہم آریہ سماج کے مندر میں بھی نہیں جانا چاہتے تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ اس فیصلے کو منظور کر  لیا جائے اور شادی کا فیصلہ کرنے والوں کو کسی طرح کی مصبیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اگر حکومت کا کوئی ایسا ادارہ ہوتا جس سے کہ ہم شادی کا فیصلہ کرنے والے لڑکےلڑکیوں کو لے جاتے اور وہاں سے ہمیں تحفظ ملنے کا یقین ہو جاتا تو ہم اسی کا انتخاب کرتے۔ لیکن شادی کے لیےتصدیق نامہ اور اس کو قانونی طورتسلیم کیے جانے کی وجہ سے ہمیں آریہ سماج کے مندر کی پناہ میں  جانا پڑا۔درجنوں شادیوں کا ایسا تجربہ ہے جس میں ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ لڑکےلڑکیاں بغیر جہیز والی  شادیوں کے لئے فیصلہ کرتے ہیں،لیکن ان کو کسی سرکاری ادارہ سے قانونی تحفظ نہیں ملتا ہے، بلکہ سرکاری دخل اندازی کا ڈر زیادہ رہتا ہے۔

میں گزشتہ سال پٹنہ کے پاس داناپور میں گیا تھا۔ وہاں ایک لڑکےلڑکی کی شادی کے فیصلے کورجسٹرڈ کرانا تھا۔ ان کےرجسٹریشن  کے لئے اسی دفتر میں جانا تھا جہاں جائیداد خاص طور پر زمین اور مکان کی خرید فروخت کا رجسٹریشن ہوتا ہے۔میں یہ سوچ رہا تھا کہ شادیوں کے لئے بھی رجسٹریشن اسی رجسٹرار کے دفتر میں کروانے کا انتظام کرنے کا خیال حکمرانوں کو کیوں آیا ہوگا؟ زمین اور مکان کی طرح کیا لڑکےلڑکیاں بھی صرف خاندان کی ملکیت ہیں؟

دو انسان ایک زندگی کے راستے کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کر رہے ہیں اور اس سے زیادہ خوشی کے احساس  کے لئے اور کون سا لمحہ ہو سکتا ہے؟ میں نے یہ دیکھا کہ اس دفتر میں کئی لڑکےلڑکیاں شادی کے اپنے فیصلے کے ساتھ آئے تھے، لیکن ان کو ان کے فیصلے کو مایوس کرنے کا ہی پورا ماحول اس دفتر میں پھیلا ہوا تھا۔آپ ذرا  سوچئے کہ جس رجسٹرار کے سامنے شادی کی حلف لینی ہے اور وہ اس طرح کی شادیوں کے برعکس خیال کا ہو تو ان لڑکےلڑکیوں کو کس طرح کے احساسات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہوگا۔

Photo Credit : Alok Sinha/Indian Express

Photo Credit : Alok Sinha/Indian Express

عام طور پر یہ پایا جاتا ہے کہ ایسے افسر انسانی احساس و جذبات سے دور نکل چکے ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے پر بھوترا پن ڈرانے کی حد تک نظر آتا ہے۔ خوشی کے مسکان بھی اس وقت لڑکےلڑکیوں کو نہ ملیں تو ان پر اس کا کیا اثر ہوگا۔میں آپ سے یہ التجا کرنا چاہتا ہوں کہ شادی کرنے کا فیصلہ لینے والے لڑکےلڑکیوں کے لئے آپ اپنی سرکاری مشینری میں بڑے پیمانے  پر اصلاح کریں۔ ان کی تربیت  کا انتظام کریں۔

شادی بیاہ کے لئے رجسٹریشن کے لیے الگ سے انتظام کریں جہاں کا ماحول خوشنما ہو۔ لڑکےلڑکیوں کواس طرح کے فیصلے لینے کے بعد کس طرح اپنی زندگی کو منظم کرنا چاہئے، اس کا وہاں ان کو تجربہ حاصل ہو سکے۔ہمیں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ صدیوں پرانی روایت کو توڑنے والی نئی نسل کی حوصلہ افزائی کرنے کا پروگرام نہ ہو تو بغیرجہیز اور چائلڈ میرج کا تصور کورا بکواس ہوگا۔آپ کے جہیز اور چائلڈ میرج‌مہم کی زبان صرف پریوار کے مکھیاؤں کو مخاطب کرنے والی ہے۔ نئی نسل کو مخاطب کرنے والی زبان کی کمی اس مہم میں نظر آرہی  ہے۔ آخر ہم کس کو کہہ رہے ہیں کہ بغیرجہیز کی شادی ہو،چائلڈ میرج نہ ہو؟

میں یہ سمجھتا ہوں کہ پارلیامانی سیاست میں بہت کچھ ایسا کرنا پڑتا ہے جیسےحکومت کو ایک طرف شراب کے مضرہونے کی تشہیر کرنی پڑتی ہے تو دوسری طرف سرکاری خزانے کے لئے زیادہ سے زیادہ پیسے کی وصولی کے لئے زیادہ سے زیادہ شراب کی فروخت کی پالیسی بھی بنانی پڑتی ہے۔پارلیامانی سیاست میں منچ پر ذات مخالف نعرے لگ سکتے ہیں، لیکن ذاتوں کے دباؤ میں پارلیامانی رہنما بین نسلی شادیوں کی حوصلہ افزا ئی کے لیے وسیع مہم اور پروگرام بنانے سے گھبراتے بھی ہیں۔کیا ہم  بین نسلی شادی کے لئے ہیومن چین مہم کا تصور کر سکتے ہیں؟

آپ سے زیادہ توقع میں نہیں کرنا چاہتا۔ صرف اتنا تو ضرور کر رہا ہوں کہ آپ لڑکےلڑکیوں کی شادی کے اپنے فیصلوں کا احترام کرنے کی ایک پالیسی اور پروگرام بنا سکتے ہیں۔ شادی کے لئے ضروری رجسٹریشن کو آرام دہ اورآسان بنا سکتے ہیں۔ایک ایسا شادی گھر بنا سکتے ہیں جس میں بغیر جہیزوالی شادیوں کے لئے فیصلہ لینے کی سمت میں حوصلہ افزائی ملے۔ ان والدین کی بھی حوصلہ افزائی  کرنے میں وہاں سے مدد کی جا سکتی ہے جو کہ کئی سطحوں پر سماجی اور اقتصادی دباؤ کی وجہ سے اپنے لڑکےلڑکیوں کے فیصلے کے ساتھ جانے سے گھبراتے ہیں۔

میں نے پہلے آپ کو ایک خط شہید نشان سنگھ میموریل  اور کتب خانہ کی نگرانی کے لئے التجا کرتے ہوئے سالوں پہلے لکھا تھا۔ آپ اس بارے میں غوروفکر کریں‌گے، ایک شہری کے ناطے وزیراعلیٰ سے یہ توقع میرا حق ہے۔

شکریہ۔

انل چمڑیا،دہلی

(مصنف میڈیا اسٹڈیز گروپ کے چیئر مین اور ماہانہ تحقیقی رسالہ جن میڈیا کے مدیر ہیں۔)