حقوق انسانی

سپریم کورٹ نے پوچھا، رہائی کی سفارش کے باوجود کیوں بھری ہیں جیلیں؟

سپریم کورٹ نے اتّر پردیش، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کے چیف سکریٹری کو جیل میں سالوں سے رہ رہے قیدیوں کی حالت پر حلف نامہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔

Supreme-Court-Reutersنئی دہلی :سپریم کورٹ نے نالساکے ذریعے رہائی کی سفارش کئے جانے کے باوجود بڑی تعداد میں قیدیوں کو ان کے حقوق کی مکمّل خلاف ورزی کرتے ہوئے جیلوں میں رکھنے پر تعجب کااظہار کیا ہے  اور کہا ہے کہ ایسی حالت بالکل  ناقابل قبول ہے۔10 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے سوال کرتے ہوئے کہا یہ ہو کیا رہا ہے؟ لوگ جیلوں میں سالوں سال پڑے ہیں، ساتھ ہی جیلوں میں بےشمار بھیڑ کا مسئلہ بھی ہے۔ سپریم کورٹ  نے حکومت سے نالسا کا حلف نامہ دیکھنے کو کہاہے۔

جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کےکے وینو گوپال سے کہا کہ ہزاروں ایسے قیدی ہیں جن کو ضمانت ملنے یا سزا پوری کر لینے کے بعد بھی ریاستوں کے ذریعے جیلوں سے رہا نہیں کیا گیا۔نالسا کے حلف نامہ میں مذکورہ اعداد و شمار کا ذکر کرتے ہوئے بنچ نے اس کو چونکانے والی حالت بتایا  اور کہا کہ اس حالت کو منظور نہیں کیا جا سکتا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مرکز ایسے قیدیوں کو رہا کرنے کے بارے میں وقت وقت پر ان سے صلاح و مشورہ کرتا ہے لیکن ریاست اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں، ایسے میں عدالت کو ریاستی حکومتوں سے اس کے بارے میں پوچھنا چاہئے۔

اس پر عدالت نے مرکزی حکومت سے کہا، ‘ اگر ریاست میں آپ کی صلاح نہیں سنی جا رہی ہے تو صلاح مت دیجئے۔ ‘ ساتھ ہی عدالت نے نالسا کے ذریعے جاری کئے گئے اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست قانونی خدمت افسروں اور زیر سماعت قیدی کا جائزہ کمیشن (یو آر سی) کی سفارش اور اجازت کے باوجود قیدیوں کو کس بنیاد پر جیل میں رکھے ہوئے ہے۔بنچ نے اٹارنی جنرل کو بتایا کہ تقریباً 2000 قیدی اس زمرے میں آتے ہیں۔ اگر ریاست کے افسروں نے ان کو رہا نہیں کیا ہے تو یہ دفعہ 21 کے تحت ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، جو ان کو آزادی کا حق دیتا ہے۔

جسٹس لوکور نے نالسا کی رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ کچھ معاملے ایسے ہے جن میں بری ہوئے قیدیوں کی تعداد منظوری دئے گئے ناموں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ‘آسام میں یو آر سی نے 46 قیدیوں کی رہائی کے لئے کہا تھا لیکن 67 قیدیوں کو رہا کر دیا گیا، اسی طرح اتّر پردیش میں یو آر سی نے 228 ناموں کو منظوری دی جبکہ 269 کو بری کر دیا گیا۔ ‘اٹارنی جنرل نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ مرکز صرف صلاح دے سکتا ہے لیکن ریاستوں کو اس پر کاروائی کرنے کے لئے عدالت کو چیف سیکریٹری کو ایک نوٹس جاری کر کے جواب مانگنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا، ‘ ہم نے وہ کیا جو ہمارے دائرہ اختیار میں ہے۔ عدالت کے کہنے پر ہی ہم نے صلاح دیے تھے۔ زیادہ متاثر کن عمل کے لئے عدالت حکومت سے اس کے قانونی اختیارات سے باہر کچھ کرنے کو نہیں کہنا چاہئے۔ ‘اٹارنی جنرل کے مشورہ پر عدالت نے اتّر پردیش، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کے چیف سکریٹریوں سے قیدیوں کی حالت پر حلف نامہ داخل کرنے کو کہا۔ عدالت نے اس کے لئے 25 اکتوبر کی معیّنہ مدت طئے کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہے تو ان کو ذاتی طور پر بلایا جائے‌گا۔

واضح  ہو کہ سپریم کورٹ کی یہ بنچ 2013 میں دائر کی گئی ایک عرضی کی سماعت کر رہی ہے جس میں ملک میں 1382 جیلوں کی غیر انسانی حالات کا ذکر کیا گیا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ  کے ساتھ)