حقوق انسانی

گجرات: مذہبی مقامات کے انہدام کا معاملہ اور عدلیہ کا موقف

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تناظر میں وسیع النظری سے غور کرنے پر بہت سارے پہلو سامنے آتے ہیں جو سپریم کورٹ کے موقف کو کمزور کرتے ہیں اور انصاف پسندی پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔

Photo Credit : Outlook

Photo Credit : Outlook

شنوائی مکمل ہونے کے تقریباً 16 ماہ بعد ، سپریم کورٹ نے گذشتہ ماہ گجرات فسادات میں مذہبی مقامات کے انہدام کے معاملہ میں فیصلہ سناتے ہوئے ، گجرات ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا۔واضح رہے کہ گجرات ہائی کورٹ نے گجرات حکومت کو مذہبی مقامات کے انہدام کا ذمہ دار گردانتے ہوئے حکومت کو ان مقامات کی تعمیر کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم سنایا تھا اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹس کو نظر انداز کرنے پر حکومت کی سخت سرزنش بھی کی تھی۔

ملک کے ایک بڑے طبقے نے سپریم کورٹ کے ذریعہ اس طرح کا فیصلہ آنے پر سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے۔اس معاملے میں پیش کردہ ثبوت و شواہد کی بنیاد پر قانونی دانشوران اس بات کی امید کر رہے تھے کہ عدالت عظمی ایک تاریخی فیصلہ سیکولرازم کی قدروں پر صادر کرےگی جس کی رو سے آئندہ اقلیتوں کے مذہبی مقامات کی حفاظت کا ذمہ دار حکومت کو بنایا جائے گا۔ مگر فیصلہ میں سیکولرازم کی قدروں کو یکسر مسسترد کردیا گیا۔

واضح رہے کہ2002 کے گجرات فرقہ وارانہ فسادات کے دوران، فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کل 567 مذہبی مقامات و عبادت گاہوں کا انہدام ہوا تھا جس میں سے 545 مذہبی مقامات و عبادت گاہیں مسلمانوں، 19 عیسائیوں او ر دیگر مذہبی اقلیتوں کی تھیں۔ اسلامی ریلیف کمیٹی گجراتIRCG نامی تنظیم نے حکومت کے خلاف ہائی کورٹ میں ان تمام مذہبی مقامات کی بلا تفریق باز آباد کاری اور معادضہ کے لئے عرضداشت داخل کی۔ دوران سماعت گجرات حکومت کی رخنہ اندازیوں کی وجہ سے گجرات ہائی کورٹ نے فیصلہ 2012 میں سنایاجس کی رو سے حکومت کوپابند کیا کہ وہ تمام منہدم شدہ مذہبی مقامات کا کل خرچ معاوضہ جو باز آباد کاری کے لئے درکار ہو وہ ادا کرے اور دوران سماعت جو عبادت گاہیں تعمیر ہو چکی ہیں ان کا خرچ بھی ادا کرے۔ گجرات ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو حکومت گجرات نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیاجس کی سماعت موجودہ چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس پرفل پنت پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔

گجرات ہائی کورٹ کے سامنے اسلامی ریلیف کمیٹی گجرات ( (IRCG )کے وکلانے یہ موقف رکھا کہ گجرات فسادات کے دوران حکومت کے ذریعہ مہیا شدہ لاءاینڈ آرڈر مکمل طور پر ناکام اور نا اہل ثابت ہوا۔ اگر حکومت کے ذریعہ لاءاینڈ آرڈر پر بروقت سختی سے عمل کیا جاتا تو یہ انہدامی نقصانات نہیں ہوتے۔ مزیدیہ کہ ماضی میں سپریم کورٹ کی 9 رکنی آئینی بنچ نے (S R Bommai Case (1994میں یہ بات واضح کردی تھی کہ مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کا تحفظ ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری آئین کے سیکولرازم کی بنیادوں سے نکلتی ہے۔ مزید برآں کسی بھی مذہب کے مذہبی مقامات یا عبادتگاہوں پر حملہ دراصل اس مذہب اور اس کے ماننے والوں کی تذلیل کرنا ہے جومذہبی آزادی کے بنیادی حقوق کو پامال کرتا ہے۔

سپریم کورٹ نے مذکورہ بالادلیلوں کو محور نہ بناتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ کسی مخصوص مذہب کی عبادتگاہوں کی تعمیر یا باز آبادکاری کے لئے سرکاری خزانے کا استعمال جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ٹیکس شامل ہوتا ہے، بطور معاوضہ نہیں دیا جاسکتا اور یہ سیکولرازم کے خلاف ہوگا اور سرکاری خزانے سے معاوضہ دینا، حکومت کے ذریعہ کسی خاص مذہب کی اعانت اور حمایت کے مترادف ہوگا۔عدالت عظمی نے گجرات حکومت کی معاوضہ اسکیم کو جائز قرار دیا جس کے تحت معاوضہ کی رقم پچاس ہزار روپئے سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ مزیدیہ کہ ہائی کورٹ کو ایسے فیصلے دینے کا اختیار نہیں اور معاوضہ دینا آئین کے آرٹیکل 27 کے منافی ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے سلامتی اداروں کی کوتاہیوں کے نتیجے میں ہونے والے مذہبی مقامات کے نقصانات کا ذمہ دار کون ہوگا اور اس کا معاوضہ کون ادا کرے گا؟ اور اگر حکومت اپنی کوتاہی سے ہونے والے نقصان کا معاوضہ ادا کرے تو کیا یہ اس مذہب کی اعانت و ترویج سے تعبیرکیا جائے گا؟

یہ بھی پڑھیں : اب سیکولر دلیلوں سے مسلمانوں کو مارنے کی کوشش ہورہی ہے: پروفیسر اپوروانند

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تناظر میں وسیع النظری سے غور کرنے پر بہت سارے پہلو سامنے آتے ہیں جو سپریم کورٹ کے موقف کو کمزور کرتے ہیں اور انصاف پسندی پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے آئین کے آرٹیکل32 کو آئین کی روح قراردیا ہے جس کے تحت عدالت بنیادی حقوق کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ بنیادی حقوق کے تحفظ سے متعلق اختیارات کے معاملہ میں ہائی کورٹ کا دائرہ عدالت عظمی سے بھی وسیع ہے۔ چنانچہ مذہبی آزادی جیسے بنیادی حق کے تحفظ کے لئے گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کا رد کسی بے وزن دلیل پر بالکل نہیں ہو سکتا ۔ اگر مذہبی مقامات کے غیر قانونی انہدام کے معاوضہ کے لئے سرکاری خزانے سے معاوضہ نہیں دیا جاسکتا تو کیا آئندہ سے سرکار کی جانب سے کسی بھی قسم کے معاوضہ کا دروازہ بند سمجھا جائے؟ کیوں کہ اس خزانے میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ٹیکس شامل ہو تے ہیں۔

 اس فیصلے سے چند روزقبل ،(Right to Privacy Case (2017میں سپریم کورٹ کے 9رکنی آئینی بنچ نے مکمل اتفاق سے یہ وضاحت کی تھی کہ آئین میں موجود بنیادی حقوق کو علیحدہ علیحدہ پڑھا اور سمجھا نہیں جا سکتا بلکہ تمام بنیادی حقوق ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور انہیں ایک ساتھ دیکھا جانا چاہئے ۔ آئینی بنچ نے ایک قدم مزید بڑھاتے ہوئے مذہبی آزادی کے بنیادی حق کو آئین کے آرٹیکل21 میں شامل کیا اور کہا کہ مذہب کی آزادی کا حق ، زندگی گزارنے کے حق جتنا اہم اور ضروری ہے اور اس کا تحفظ بھی اسی درجہ کا ہونا چاہئے ۔ ان تمام دضاحتوں کو سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے یکسر نظر انداز کردیا۔

اس کے علاوہ عدالت نے حکومت کی بہت ساری سرگرمیوں کا احاطہ نہیں کیا مثلاً،مرکزی حکومت نے اپنے سرکاری خزانے سے امرناتھ یاترا کے راستوں کے انفراسٹرکچر پر اب تک کل100 ملین روپئے خرچ کئے ہیں جو ایک مخصوص مذہب سے متعلق ہے۔تروپتی بالاجی مندر کو ریاستی وزیراعلیٰ خطیر رقم سرکاری خزانے سے عطا کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف حج سبسڈی آج بھی رائج ہے۔ راجستھان کی سابقہ بھاجپا حکومت نے ریاست کے مندروں کی تجدید کاری پر260 ملین روپئے خرچ کئے ہیں۔ اس سے قبل آندھرا پردیش میں کانگریس حکومت نے پنڈتوں کی فلاح و بہبود کے لئے 600ملین روپئے مختص کئے تھے۔ گجرات میں مسلم امام کو سرکاری خزانے سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ مدھیہ پردیش میں بزرگ شخصیات کے لئے اجمیر شریف اور دیگر مذہبی مقدس مقامات پر حاضری کا خرچ حکومت کی جانب سے ادا کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ کا یہ موقف کہ سرکاری خزانے سے کسی ایک مذہب کے منہدم شدہ مذہبی مقاما ت کا معاوضہ سرکاری خزانے سے دیا جانا سیکولرازم کے منافی ہے، پانی بھرتا نظر آتاہے۔مندرجہ بالا سرگرمیوں میں سرکاری خزانے کا استعمال جائز اور مذہبی مقامات کے غیر قانونی انہدام کا معاوضہ نا جائز ہے تو یہ سراسر آئین کے دوسرے بنیادی حقوق مساوات آرٹیکل 14 کے منافی ہوگا۔

گجرات حکومت کی معاوضہ اسکیم بھی حکومت کی ایک شاطرانہ چال ہی ہے جس کے تحت معاوضہ کی رقم 50000 روپئے سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ قابل ذکر بات ہے کہ یہ اسکیم اس وقت بنائی گئی جب معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا ؛ نہ کہ اس وقت جب معاملہ تقریباً 10 برس تک گجرات ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔گجرات حکومت نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی سالانہ رپورٹ 2005 ، کو ممکنہ حد تک روکے رکھا جس میں صاف الفاظ میں حکومت کو ان تمام واقعات کا ذمہ دار گردانا گیا تھا اور اس رپورٹ کو اسمبلی میں بھی پیش نہیں کیا جبکہ حکومت قانوناً اس بات کی پابند ہے کہ وہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کو اسمبلی میں فوراًپیش کرے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات پر خاموشی اختیار کی کہ گجرات حکومت نے تقریباً 10 سال تک نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی سالانہ رپورٹ کو سردخانے میں کیوں رکھا اور اسمبلی میں پیش کیوں نہیں کیا جبکہ پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس ایکٹ 1993کی دفعہ 20کے تحت حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ رپورٹ اسمبلی کے سامنےپیش کرے اور ساتھ ہی ایکشن ٹیکن رپورٹ پیش کرے اور اگر حکومت رپورٹ سے اتفاق نہیں رکھتی تو جوازپیش کرے۔گجرات حکومت کے ذریعہ حکم عدولی کا سپریم کورٹ نے کوئی احاطہ نہیں کیا۔

سپریم کورٹ کے ذریعہ اس طرح کی تمام مدلل اور پختہ دلیلوں کو یکسر مسترد کیا جانا اور سپریم کورٹ کی گذشتہ آئینی بنچوں کے ذریعہ دےئے گئے فیصلوں کو نظر انداز کرنا کئی سوال کھڑ ے کردیتا ہے۔امید پر دنیا قائم کے مصداق اور عدلیہ پر توکل کی بدولت اب بھی ایک آخری کوشش کے تحت IRCG نے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی ہے جس پر عنقریب سپریم کورٹ اپنا موقف ظاہر کرےگی کہ آیا وہ اس معاملے پر نظر ثانی کے لئے آمادہ ہے یا نہیں۔ IRCG کے ذمہ داران کے ذریعہ ملک کی مختلف ریاستوں میں پریس  کانفرنس کے ذریعہ عوام میں اور بالخصوص سیکولر ذہن رکھنے والے افراد میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ اس فیصلہ کے وسیع النظری میں ہونے والے مضر اثرات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور سیکولرازم کا شیرازہ بکھرنے سے بچائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بحیثیت ایک زندہ شہری کے تمام افراد حکومتی سرگرمیوں اور عدالتی فیصلوں پر نظر رکھیں اورانہیں دوراندیشی سے پرکھ کر اپنی بےدارمغزی کا عملا ثبوت دیں تاکہ آئینی ڈھانچہ سلامت رہے۔

(مضمون نگار ممبئی ہائی کورٹ میں وکیل ہیں۔)